برما سفاکیت جبر و بربریت کی تاریخ

بدھ مت کے بانی مہاتما گوتم بدھ جو کہ تاریخ میں عالمگیرانسانی محبت کے مذہبی رہنما کے حوالے سے جانے پہچانے اور۔۔۔


[email protected]

بدھ مت کے بانی مہاتما گوتم بدھ جو کہ تاریخ میں عالمگیرانسانی محبت کے مذہبی رہنما کے حوالے سے جانے پہچانے اور مانے جاتے ہیں، ہندوستان میں پیدا ہوئے، آج بھی ان کے کروڑوں پیروکار، لنکا، برما، مہام، کمبوڈیا، جاپان اور چین میں موجود ہیں، وہ چھٹی صدی قبل مسیح میں کپل وسنو(نیپال)راجا شوھودھن کے ہاں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام سدھارتھ تھا وہ بچپن ہی سے سوچتے تھے کہ انسانوں میں اونچ نیچ کا فرق کیوں ہے؟ اس دنیا میں اتنے دکھ اور تکلیفیں کیوں ہیں؟اور سکھ کیونکر حاصل کیا جا سکتا ہے؟باپ نے اٹھارہ برس کی عمر میں ان کی شادی کردی لیکن سدھارتھ برابر بے چین رہے، آخر ایک رات بیوی بچے اور شاہی محل کی آسائشوں کو چھوڑ کر جنگلوں کی جانب نکل گئے اور سخت ریاضتیں کیں ۔

یہاں تک کہ ان پر سچائی منکشف ہوگئی اور انھوں نے تہیہ کرلیا کہ عالمگیر انسانی محبت کا پیغام دنیا والوں کو پہنچائیںگے، وہ اب سدھارتھ سے گوتم بدھ کہلانے لگے اور انھوں نے انسانیت کے حق میں آواز بلند کی اور بتایاکہ شودر اور برھمن میں کوئی فرق نہیں، سب انسان ہیں اور ان کے حقوق برابر ہیں، مذہب میں کسی ریت، رسم اور قربانی کی ضرورت نہیں، دیوی، دیوتائوں کو ماننا جہالت ہے، صرف خواہشات پر قابو پانے سے نجات ہوسکتی ہے صحیح علم حاصل کرو، نیک نیتی، راست گفتاری، راست بازی، جائز ذریعہ معاش اور فکر ومراقبے کی پاکیزگی اختیار کرو اور ان اصولوں پر عمل کرکے اپنے آپ کو تمام زنجیروں سے آزاد کرلو، مہاتما بدھ نے اپنے اصولوں کی تعلیم عام کرنے کے لیے نگر نگر کا دورہ کیا، وہ اور ان کے پیروکار ان اصولوں کو دنیا تک پہنچانے کے لیے بڑی محنت اور جفاکشی سے کام کرتے رہے اور بھوکے پیاسے رہ کر بھی اس کے پرچار میں منہمک رہے، بدھا کے نزدیک انسانوں ہی نہیں بلکہ دیگر جانداروں کے حقوق بھی ہیں جس کا انسان کو مکمل خیال رکھنا چاہیے۔

برما(میانمار) جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ہے اس کا رقبہ اڑھائی لاکھ مربع میل ہے ، دارالحکومت رنگون ہے، کل14صوبے ہیں ، آبادی تقریباً سات کروڑ ہے جس میں اکثریت بدھ مت کے ماننے والوں کی ہے جب کہ دیگر مذہب کے مقابلے میں مسلمان ایک بڑی اقلیت میں شمار ہوتے ہیں اور صوبہ اراکان میں مسلمان اکثریت میں آباد ہیں،1886سے1948تک برما پر برطانوی سامراجی نظام قائم رہا،1948میں جب برما کو آزادی ملی تو صوبہ اراکان ایک مکمل آزاد مسلمان ریاست تھی جس کا برما سے قطعی کوئی تعلق نہ تھا اور خود صوبہ اراکان کے مسلمانوں کا بھی یہ مطالبہ تھاکہ اس صوبے کا الحاق مشرقی پاکستان کے ساتھ کردیاجائے تاہم 1948میں برما کے راجا نے اراکان پر حملہ کرکے اسے جبراً اپنا صوبہ بنالیا، حالانکہ اس مذکورہ صوبے میں آج بھی بدھ مت نہ ہونے کے برابر ہیں۔

آج برما میں مسلمانوں کے ساتھ تاریخ کا بد ترین ظلم وستم ہورہاہے وہ بدھ مذہب جس کے نزدیک حشرات الارض کے بھی اتنے حقوق ہیں کہ انسان کو چلنے پھرنے میں بھی حد درجہ احتیاط برتنی چاہیے کہ کہیں کوئی کیڑا مکوڑا اس کے قدموں تلے نہ کچلا جائے آج ان ہی کے ہاتھوں پوری تاریخ انسانی میں سفاکیت کی ہولناک تاریخ رقم ہوچکی ہے ،برما میں گزشتہ چند ماہ سے جو انسانیت سوز سازشوں اور مظالم پر مبنی اسٹیج ڈرامہ رچایاجارہا ہے اس کے بے حس اور سنگ دل تماشائی صرف عالمی طاقتیں،انسانی حقوق کی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ہمراہ ہمارا پورا عالم اسلام ومسلم امہ بھی ہے، ہمارے کٹھ پتلی حکمران، بے حس وناسمجھ عوام اور کئی مصلحت اندیش علماء مسلسل خاموش تماشائی بنے رہنے کے باعث لاشعوری طور پر اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، مسلمانوں کے حقوق کی علمبردارOICبھی ایک غیر موثر ادارہ ہے حالیہ مکہ کانفرنس میں بھی اس اہم حقیقت کی جانب اشارہ کیاگیا کہ آج مسلمانوں کے عبرت کدہ بننے کی اصل وجہ ہی عالم اسلام ومسلم کے وہ باہمی اختلافات جھگڑے اور انتشار، ابتری و الجھنیں ہیں کہ شاید جنھیں سلجھنے تک خدانخواستہ ''ہماری داستان بھی نہ رہے داستانوں میں''۔

مسلمانوں پر تاریخ میں جو سخت ترین ادوار آئے ہیں انھی میں موجودہ دور بھی سر فہرست ہے، بلکہ بعض محققین کے نزدیک تو موجودہ دور میں عالم اسلام کے خلاف ملت کافرہ کا اتحاد گزشتہ تمام اتحادوں سے بڑا اور قوت و وسائل کے اعتبار سے بڑھ کر ہے لیکن اسلام ایک زندہ دین ہے باطل کے سامنے دبنے کی بجائے حکمت وبصیرت دانائی، صبر وتحمل، نیز غیرت وشجاعت اور حمیت کے ساتھ مقابلہ کرنا سکھاتا اور ظلم کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کی مدد ونصرت اور حمایت وتعاون کے لیے ابھرتا ہے ''اسلامی اخوت'' ایک مقدس اور ناقابل فراموش تاریخی رشتہ ہے جس سے تاریخ اسلام کے تمام اوراق جگمگا رہے ہیں آج بھی اسی اسلامی اخوت کے جذبہ کو بیدار رکھنے کی ضرورت ہے، مسلمانوں کا درد جو لوگ اپنے دلوں میں اجاگر رکھتے ہیں وہ اعلیٰ مدارج پر فائز ہوتے ہیں، بیت رضوان، غزوہ تبوک الغرض ایک پوری تاریخ ہے جوجگمگا رہی ہے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمان حدیث مبارکہ کی روشنی میں ایک جسم کی مانند ہیں جس کے ایک حصہ میں درد ہوتا ہے تو پورا جسم اس تکلیف سے متاثر ہوتاہے، آج مسلمانوں کے اس جسد ملی کا ایک بہت بڑا حصہ خوشیوں سے محروم اور کفار کے ظلم وستم کا شکار نیز اپنوں ہی کی بے حسی کا شاہکار بن چکا ہے آج فلسطین سے لے کر عراق تک اور کشمیر سے لے کر افغانستان تک فرزندان توحید جس جبر مسلسل، ہولناک قتل وغارت گری کا شکار ہیں، بے گوروکفن لاشوں سے اٹے مسلمانوں کے شہر جلاکر لاشیں خاکستر کی گئیں، اسلامی آبادیاں تلواروں اور ترشولوں سے کٹے پھٹے نوجوان اور آہ وبکا کرتی خواتین۔ مسلمان خواتین، بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت پر مجبور یہ بے چارے کمزور مسلمان... ایک حساس دل کی نیندیں اڑانے اور اسے بے قرار کرنے کے لیے کیا کافی نہیں...؟

برما کا ذکر مذکورہ بالا سطور میں کرچکاہوں جہاں مسلمانوں پر ایک قیامت بیت رہی ہے، ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے قتل کردیے گئے ہیں اور ہزاروں ہی بے گھر اور بے در مارے مارے پھر رہے ہیں تمام عالمی اداروں نے اس وحشت ناک قتل عام پر چپ سادھ رکھی ہے، قبلہ اول مسجد اقصیٰ بھی ابھی تک یہودیوں کے پنجہ ستم میں سسک رہی ہے، جامع قرطبہ جسے سات سو برس تک مسلمانوں نے اپنی اذانوں اور سجدوں سے آباد رکھا آج وہاں سر عام موسیقی کی کلاسیں ہورہی ہیں، بابری مسجد کب سے اپنی شہادت پر نوحہ کناں ہے، فلسطینی مسلمان اپنی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے ساٹھ برس سے زیادہ بتاچکے ہیں مگر تمام دنیاوی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہ ہیں، افغانستان پر صلیبی پرچم ابھی تک لہرارہا ہے اور افغانستان کے مظلوم مسلمان امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ظلم وستم کی چکی میں تا حال پس رہے ہیں۔

کشمیر میں آج بھی مسلمان ماں بہن اور بیٹی کی عزت کو ایک باج گزار ریاست کے طورپر ہی دیکھنا چاہتے ہیں الغرض آج پوری مسلم امہ کی عالمی بے چارگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور عالم اسلام کی مظلومیت سے بھرپور حالت زار تاریخ کے سینے پر مسلسل رقم ہورہی ہے۔ آج عالمی افق پر رونما ہوتے ہوئے یہ قدیم وجدید ظلم وستم سے بھرپور تاریخی وزمینی حقائق تمام بڑی عالمی طاقتوں،انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کی نا صرف مستحق ہیں بلکہ چیخ چیخ کر کٹھ پتلی اقوام متحدہ سے بھی انسانی حقوق کے تناظر میں عدل وانصاف اور رحم وکرم کے متقاضی ہیں۔

دوسری جانب مسلمانوں کے یہ انتہائی مخدوش حالات اس امر کا شدت سے تقاضا کرتے ہیں کہ پوری مسلم امہ وعالم اسلام اپنے باہمی اختلافات وانتشار کو بالائے طاق رکھ کر اسلام کے وسیع تر مفاد اور مضبوط ترین دائمی بنیادوں پر اسلامی اخوت وعالمگیر اخوت کے پیش نظر مثالی اتحاد کا نمونہ پیش کرتے ہوئے دشمنان اسلام کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اس میں ہماری دائمی بقاء وسلامتی کا راز مضمر ہے ورنہ دشمنان اسلام تو ازل سے تا امروز اسلام اور اہل اسلام کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے در پے ہیں۔ تاہم یہ بھی وہ روشن حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ آج جن اسلامی ممالک میں مرگ مفاجات کا رقص جاری ہے یہ در حقیقت ہماری ہی جرم ضعیفی کی سزا ہے ''جس سے عظیم انقلابی اقدامات اور مثالی طاقت وقوت کے حصولی کے بغیر چھٹکارا ممکن ہی نہیں...''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں