جمہوریت اور انتخابات کا کھلواڑ

لوگوں کا مذہب تو ہوتا ہے لیکن ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہیے۔


Zuber Rehman July 30, 2018
[email protected]

KARACHI: سرمایہ دارانہ نظام کی جمہوریت اور انتخابات کے اعلیٰ نمونے کی امریکا اور برطانیہ کی اکثر مثالیں دی جاتی ہیں۔ امریکا میں صدر ٹرمپ جیت گئے۔ امریکا میں اس وقت ان کو عوام کی حمایت 35 فیصد رہ گئی ہے۔ انھوں نے خواتین کی جس طرح تذلیل اور تحقیر کی ہے اس پر نہ صرف دنیا بھر کی خواتین نے احتجاج کیا بلکہ ان کی بیوی اور بیٹیوں نے بھی احتجاج کیا۔ لاطینی امریکی عوام کی بھی بے رحمانہ تذلیل کی ہے، میکسیکو کی سرحد پر باڑ لگائی جارہی ہے اور سیکڑوں لاطینی بچوں کو ان کی ماؤں سے چھین کر قید میں رکھا گیا ہے۔

امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر برنی سینڈرز، جنھوں نے 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں پھر ایک بار حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، نے کہا کہ ٹرمپ کالوں، لاطینی، خواتین اور امریکی شہریوں کا دشمن اور ارب پتیوں کا دوست ہے۔ ابھی حال ہی میں برطانیہ کے دورے پر آئے ہوئے ٹرمپ کے خلاف ڈھائی لاکھ افراد نے ایک سو شہروں میں مظاہرے کیے، ان پر نچھاور کرنے کے لیے مچھلیوں کی آنتیں عوام میں تقسیم کی گئیں، پھر بھی وہ صدر ہیں۔

برطانیہ کے حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جیمری کوربون جب یہ کہتے ہیں کہ ''میں اگر وزیراعظم بن گیا تو ایٹمی جنگ کا ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے کر جنگ نہیں کرنے دوں گا''۔ اس پر ردعمل کرتے ہوئے برطانیہ کے چیف آف آرمی اسٹاف نے بیان دیا کہ ''پھر ہم بغاوت کردیں گے''۔ پھر بھی برطانیہ دنیا کی بہترین جمہوریت کہلاتی ہے۔ یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کی منافقت۔

اب جمہوریت کا ادنیٰ نمونہ پاکستان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے محترم جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ریمارکس میں آرمی چیف سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ''آرمی چیف صاحب اپنے لوگوں کو روکیں، عدلیہ میں ججز کو اپروچ کیا جارہا ہے۔ ججز کے فون ٹیپ کیے جاتے ہیں، ان کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں''۔

عدالت میں حساس ادارے کا نمائندہ پیش ہوا۔ جسٹس صدیقی نے کہا کہ آپ کے لوگ اپنی مرضی کے بینچ بنوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عدالت نے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ شہریوں، تاجروں اور بااثر افراد کو اسلام آباد سے اٹھانا روٹین بن چکی ہے، حساس ادارے اپنی آئینی ذمے داری کو سمجھیں، عدلیہ، ایگزیکٹیو اور دیگر اداروں میں مداخلت کو روکا جائے۔ تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ حساس ادارے ملک کے دفاع اور سیکورٹی پر توجہ دیں۔ ریاست کے اندر ریاست کے تصور کو ختم کیا جائے۔ اگر دیگر اداروں میں مداخلت کو نہ روکا گیا تو فوج اور ریاست کے لیے تباہ کن ہوگا۔

جسٹس صدیقی نے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ آرمی چیف اس الارمنگ صورتحال کو سمجھیں اور دیگر اداروں میں اپنے لوگوں کو مداخلت سے روکیں۔ عدالت نے عدالتی حکم کی کاپی آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کو پہنچانے کا حکم دے دیا۔ عدالت میں پیش کیے گئے ایک بازیاب شخص رب نواز نے بتایا کہ نامعلوم افراد آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے گئے۔ خدا کے لیے ملک پر رحم کریں۔

جسٹس صدیقی نے ریمارکس دیا کہ اپنے آپ کو عقل کل مت سمجھیں۔ پولیس والے ایجنسیوں کے آگے بے بس ہیں۔ عدالت نے اسلام آباد پولیس کے ایس پی انویسٹی گیشن زبیر پر اظہار برہمی کیا۔ جسٹس صدیقی نے کہا کہ جو افسر سچ نہ بول سکے اور خوف و مصلحت کا شکار ہو اسے پولیس میں نہیں ہونا چاہیے۔

اسی قسم کی مصلحت ہم ریاست کے بارے میں بھی کرتے آرہے ہیں۔ لوگوں کا مذہب تو ہوتا ہے لیکن ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہیے۔ ایک استاد اپنے شاگرد کو جب پڑھاتا ہے یا ڈاکٹر اپنے مریض کا علاج کرتا ہے تو اس پڑھانے اور علاج کرنے کا عمل سیکولر ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی مذہب کے طلبا کو درس دے گا اور کسی بھی مذہب کے مریض کا علاج کرے گا۔

پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کا نام ''جمہوریہ پاکستان'' رکھا گیا تھا، مگر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' رکھ دیا گیا۔ یہ ایک غیر جمہوری عمل تھا۔ دنیا کے بیشتر مسلم ممالک سیکولر ہیں، جیسا کہ بنگلہ دیش، نائیجیریا، وسطی ایشیائی ممالک، کوہ قاف کے مسلم ممالک، بلقان کی مسلم ریاستیں، مغربی افریقی مسلم ممالک اور مشرق وسطیٰ کے کئی مسلم ممالک سیکولر ہیں۔ مگر ان ملکوں میں کروڑوں مسلمان بستے ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل کو یہودی ریاست کے طور پر آئینی منظوری دے دی گئی ہے۔

اس کے حق میں 66 ووٹ پڑے جبکہ مخالفت میں 55 ووٹ پڑے، 3 اراکین نے ووٹ نہیں ڈالے، یعنی کہ 62 کے مقابلے میں 55 اراکین کی مخالفت انتہائی قابل تعریف اور قابل مبارک باد عمل ہے، ان میں متعدد کمیونسٹ پارٹی آف اسرائیل کے پارلیمنٹ کے اراکین بھی شامل ہیں۔ مذہبی ریاستیں دنیا میں چند ہی رہ گئی ہیں، عرب بادشاہتوں کی مسلم ریاستیں، ایران، افغانستان اور پاکستان سمیت چند ممالک نے ہی مذہبی نام کو اپنے ساتھ منسلک کیا ہوا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاست کا مذہب نہیں ہونا چاہیے، جس میں تمام شہریوں کو برابری کا حق دینے کے عملی اقدام اٹھا سکیں۔

اس بار کے انتخاب بھی عجیب و غریب انتخابات ہوئے، جہاں پر کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی نہ صرف اجازت ملی بلکہ اوروں کے جلسوں پر پتھراؤ کرنے کی اجازت بھی تھی۔ ان تمام حرکات و عوامل سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ان کی درستگی کی کوشش یا خواہش احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا سرمایہ داری کا متبادل ایک امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں مضمر ہے۔ جہاں فوج، عدلیہ، اسمبلی، کرنسی نوٹس، پولیس، ملکیت، جائیداد، عقیدے، خاندان، جیل اور سرحدوں کا خاتمہ ہوکر دنیا ایک ہوجائے گی۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست، کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں