جمہوریت نہ انسانیت

مودی کی ’’بی جے پی‘‘ اور شیخ حسینہ واجد کی’’عوامی لیگ‘‘ یک جان و دو قالب ہو چکی ہیں۔


Tanveer Qaisar Shahid July 30, 2018
[email protected]

چھیاسٹھ سالہ جناب محمود الرحمن بنگلہ دیش کے معروف اور مقبول اخبار ''امار دیش''کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ اُن کا بڑا تعارف یہ ہے کہ وہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی بھارت نواز پالیسیوں کے سخت مخالف اور اپوزیشن کے خیالات کی نمایندگی کرتے ہیں۔اُن کا اخبار(امار دیش) بھی اِسی لیے اپوزیشن میں خاصا مقبول و محبوب سمجھا جاتا ہے۔ اِس اخبار کی خبروں، تجزیوں اور اداریوں سے زِچ ہو کر چند سال پہلے حسینہ واجد نے اِسے بند کر دیا تھا۔

عالمی دباؤ اور بنگلہ دیشی اخبار نویسوں کے آئے روز کے احتجاجات سے تنگ آ کر حسینہ نے اِسے بحال تو کر دیا تھا لیکن اپنے ڈَھب پر لانے میں وہ ناکام ہی رہیں۔ جولائی 2018ء کے آخری ہفتے بنگلہ دیش کے مغربی شہر، کشتیا، میں ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا۔ یوں تو بنگلہ دیشی وزیر اعظم، شیخ حسینہ واجد، کی حکومت میں صحافت اور جمہوریت دشمنی ایک معمول بن چکا ہے لیکن اِس سانحہ نے سب کو چونکا دیا۔

''اماردیش'' کے سابق محترم مدیر، محمودالرحمن، جونہی ضمانت پر عدالت سے باہر نکلے، حسینہ واجد کی مقتدر سیاسی جماعت ( عوامی لیگ) کے اسٹوڈنٹ وِنگ( چھاترہ لیگ) کے مسلّح غنڈوں نے انھیں گھیر لیا اور بانس کی مضبوط لاٹھیوں اور اینٹوں سے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ محمود الرحمن کو شدید زخمی حالت میں کشتیا سے جیسور شہر لے جایا گیا لیکن ابھی تک حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہو سکاہے۔

مضروب و مجروح صحافی کا قصور محض یہ ہے کہ وہ حکمران جماعت اور وزیر اعظم کا نقاد ہے ۔ سبق سکھانے کے لیے ، ریاستی دباؤ پر، انھیں پہلے ملازمت سے فارغ کروایا گیا۔ باز نہ آئے تو اُن پر پے دَر پے کئی جعلی کیس ڈال دیے گئے۔ اب تک اُن کے خلاف 80مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں۔ ملک کے خلاف غداری، اُن میں سے ایک ہے۔ شاباش ہے محمودالرحمن صاحب پر کہ اتنی سخت آزمائشوں کے باوجود انھیں حسینہ واجد ، بنگلہ دیش کے خفیہ ادارے اور مقتدر پارٹی اپناہمنوا بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ صحافیوںکے تحفظ کی عالمی تنظیم(Reporters Without Borders) بھی محمود الرحمن کے حوالے سے حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف کئی بار احتجاج کر چکی ہے۔

حسینہ واجد آج اپنے ملک میں سیاسی مخالفین کے لیے آمرِ مطلق بن چکی ہیں۔ جمہوریت کے پردے میں بنگلہ دیش سویلین آمریت کے شکنجے میں جکڑا پڑا ہے۔ صحافت و سیاست اور عدلیہ میں کسی بھی مخالف عنصر کے لیے وہ قہر کی دیوی بن چکی ہیں۔بنگلہ دیش کی ایک اہم سرکاری شخصیت حسینہ سے ڈر کے مارے لندن میں بیٹھی ہے۔ جماعتِ اسلامی کی سینئر قیادت کو جس طرح پھانسیاںدے کر حسینہ ''صاحبہ'' نے راستے سے ہٹایا ہے، اِن کی خونی بازگشت ساری دنیا میں ابھی تک سنائی دی جارہی ہے۔

''منشیات کے خلاف جنگ'' کے نام پر وہ اب تک مبینہ طور پر اپنے 100سے زائد سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگا چکی ہیں۔اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعظم، بیگم خالدہ ضیاء، کی آواز بند کرنے کے لیے حسینہ واجد نے جس طرح کے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں،ان کی موجودگی میں جمہوریت بنگلہ دیش بھر میں منہ چھپائے پھررہی ہے۔ان کے نتائج یہ نکلے ہیں کہ خالدہ ضیاء خود تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچائی جا چکی ہیں اور اُن کے صاحبزادگان غیر ممالک میں سیاسی پناہوں کی تلاش میں ہیں۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی حکومت حسینہ واجد کا ساتھ دے رہی ہے۔

نریندر مودی تین بار ڈھاکا یاترا کر چکے ہیں۔ اپنی سیاسی مخالف ( بیگم خالدہ ضیاء)کے تمام راستے مسدود کرنے کے لیے حسینہ واجد جو ہتھکنڈے بروئے کار لا رہی ہیں، بھارت کے مشورے اور اعانتیں ساتھ شامل ہیں۔ مثال کے طور پر لارڈ الیگزینڈر کارلائل سے پیش آنے والا واقعہ۔ برطانوی شہری لارڈکارلائل برطانوی ہاؤس آف لارڈزکے رکن بھی ہیں اور قیدی بیگم خالدہ ضیاء کے وکیل بھی۔وہ مہینے میں تین بار لندن سے ڈھاکا آتے ہیں تاکہ خالدہ ضیاء پر لگائے گئے الزامات غلط ثابت کر سکیں۔

لارڈ کارلائل ڈھاکا پریس کلب میں کی گئی اپنی متعدد پریس کانفرنسوں میں کہہ چکے ہیں کہ خالدہ ضیاء پر بنائے گئے تمام مقدمات جعلی اور بے بنیاد ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت بہت آگے بڑھ کر شیخ حسینہ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں مداخلتیں بھی کررہا ہے۔ جولائی 2018کے وسط میں وکیل لارڈ کارلائل ڈھاکا سے دہلی اُترے، اِس نیت کے ساتھ کہ بھارتی صحافیوں کے سامنے وہ حقائق پیش کر سکیں کہ (۱) بیگم خالدہ ضیاء کے مقدمات جھوٹے ہیں(۲) مودی صاحب ، شیخ حسینہ کی بے جا حمائت نہ کریں۔

بھارتی حکومت نے مگر لارڈ کارلائل کو دِلّی ائر پورٹ سے باہر ہی نہ جانے دیا۔ انھیں وہیں سے زبردستی ڈیپورٹ کرکے لندن بھجوا دیا گیا۔ کارلائل صاحب سٹپٹائے تو بہت لیکن کچھ نہ کر سکے ۔ لندن پہنچ کر انھوں نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ بھارتی حکومت نے شیخ حسینہ واجد کی ایما پر انھیں ڈی پورٹ کیا ، حالانکہ اُن کے پاس بھارت کا validویزہ بھی تھا۔ نریند مودی نے خالدہ ضیاء کے وکیل کو ملک سے نکال کر حسینہ واجد سے حقِ دوستی ادا کیا ہے۔

بیگم خالدہ ضیاء بھی بھارتی ہتھکنڈوں اور مودی و حسینہ قربتوں سے آگاہ ہیں؛ چنانچہ خالدہ صاحبہ نے بھی درپردہ کوشش کی ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ سے مستقل دُوری اختیار نہ رکھی جائے۔ وہ سمجھتی ہیں شائد بھارتی تعاون سے حسینہ واجد کی وارداتوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اِسی غرض سے انھوں جون2018ء کے دوران اپنی جماعت (بی این پی) کے سینئر ارکان پر مشتمل ایک وفد دہلی بھیجا ، اِس بہانے کے ساتھ کہ یہ وفد ایک بھارتی تھنک ٹینک کا مہمان ہے۔

اِس کی بھنک حسینہ واجد کے کانوں میں بھی پڑ گئی ۔اُن کی طرف سے نریندر مودی پر اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ ''بی این پی'' کا یہ وفد بیچارہ ابھی نئی دہلی پہنچا ہی تھا کہ ٹھیک چھ گھنٹوں کے اندر اندر اُن کے ویزے منسوخ کر دیے گئے اور زبردستی انھیں واپس ڈھاکا بھیج دیا گیا۔ حسینہ چاہتی ہیں کہ ''بی این پی'' کی شکل میں بنگلہ دیش کی متحدہ اپوزیشن کے لیے اتنے مسائل پیدا کیے جائیں کہ یہ خود ہی میدان سے بھاگ جائے ۔ ایسا مگر ہو نہیں رہا؛ چنانچہ زِچ ہو کر حسینہ واجد نے جیل میں بیگم خالدہ ضیاء پر سختیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

ایک نیا طریقہ یہ وضع کیا گیا ہے کہ اسیر خالدہ ضیاء سے ملاقات کرنے والوں کے لیے ایک نیا رجسٹر رکھا گیا ہے جہاں ہر ملاقاتی کو دو صفحوں پر مشتمل ایک طویل سوالنامہ پُر کرنے کے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اور اس سے قبل خالدہ ضیاء کے ہر ملاقاتی کو بنگلہ دیش کی وزارتِ داخلہ کا خصوصی اجازت نامہ بھی حاصل کرنا ہوتا ہے جو خاصا دشوار عمل ہے۔ مقصد فقط یہ ہے کہ قیدی خالدہ ضیاء کے ملاقاتیوں کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ شکنی کی جائے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا، جسے خود کو ''آزاد میڈیا'' کہلانے کا بڑا دعویٰ ہے، حسینہ واجد کے ان جمہوریت دشمن اقدامات کے بارے میں انتہائی کم خبریں شایع اور نشر کرتا ہے۔

اِس کا براہِ راست مطلب یہ بھی ہے کہ نریندر مودی کی اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس ادارے بھارتی میڈیا پر پوری طرح چھائے ہُوئے ہیں ۔ ایسے میں کسی بھارتی صحافی یا اینکر کی کیا مجال ہے کہ اسیر خالدہ ضیاء اور اُن کی جبر کا شکار پارٹی (بی این پی) کے حق میں ایک لفط بھی لکھ یا کہہ سکے۔مودی کی ''بی جے پی'' اور شیخ حسینہ واجد کی''عوامی لیگ'' یک جان و دو قالب ہو چکی ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ''بی جے پی'' کی شرارت اور منصوبے کے مطابق2021ء میں بنگلہ دیش اور بھارت مل کر بنگلہ دیش کا 50واں ''وکٹری ڈے'' منائیں گے۔ جواب دینے کے لیے پاکستان کو ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں