رحمان ملک اولمپکس میں گولڈ میڈل دلوا سکتے ہیں
کیوں نہ اس بات پر شادیانے بجائیں کہ ہمارے روایتی حریف بھارت کی...
خدشات کے عین مطابق اولمپکس میں شرکت کرنے والا پاکستانی دستہ آج خالی ہاتھ واپس آ رہا ہے۔ مجھے تو لندن جانے والے اپنے کھلاڑیوں سے کوئی امید نہیں تھی۔ عاری جذبوں اور مایوس چہروں کے ساتھ اتنے بڑے ایونٹ میں حصہ لینے والوں سے اگر کسی نے میڈل کی امید لگائی تھی تو اس سے بڑا خوش فہم کوئی نہیں ہو سکتا۔ اولمپکس میں میڈل کے لیے ہماری ساری امیدیں ہاکی ٹیم سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ہاکی ٹیم کا یہ حال ہے کہ اس نے آخری گولڈ میڈل 1986 کے لاس اینجلس اولمپکس اور آخری برونز میڈل 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں حاصل کیا تھا۔
اس کے بعد ہم اولمپکس میں شریک ہوتے ہیں اور خالی ہاتھ واپس آجاتے ہیں۔ 2008 کے بیجنگ اولمپکس میں ہماری ہاکی ٹیم کی پوزیشن آٹھویں تھی اور اس بار ساتویں رہی اس حساب سے خواجہ جنید کا یہ دعویٰ درست تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ہماری ٹیم کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔ اولمپکس کا انعقاد ہر چار سال بعد ہوتا ہے۔ اگر کارکردگی میں بہتری کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو 2028 کے اولمپکس میں ہم دوبارہ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ میڈل جیت سکیں۔ یہ برونز میڈل ہو گا جس کے آٹھ سال بعد ہم گولڈ میڈل لے کر واپس آئیں گے۔
20 کروڑ عوام کے اس ملک کے لیے اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ آج سے صرف سولہ سال بعد اپنی ہاکی ٹیم کو ایک بار پھر برونز میڈل لیتے ہوئے دیکھے گی اور گولڈ میڈل لینے میں صرف چوبیس سال کا عرصہ لگے گا۔ قوموں کی زندگی میں اتنے سال کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ آئیں تھوڑی دیر کے لیے اپنی ناکامیوں کو بھول کر جمیکا' پپوا نیو گنی' لتھوانیا، اسٹونیا اور دیگر چھوٹے بڑے ملکوں کو مبارک دیں کہ ان کے کھلاڑیوں نے اپنی قوموں کو گولڈ میڈلز کا تحفہ دیا۔ اس بات پر خوش ہو جائیں کہ ہمارا دوست چین میڈلز ٹیبل پر دوسرے نمبر پر رہا۔ کیوں نہ اس بات پر شادیانے بجائیں کہ ہمارے روایتی حریف بھارت کی ہاکی ٹیم کی بارہ ٹیموں میں آخری پوزیشن رہی ہے۔
جیسے ہم نے یہ برداشت کر لیا ہے کہ ہم کوئی میڈل نہیں جیت سکے اسی طرح یہ بھی برداشت کر لیں کہ اس وقت ہمارے سب سے بڑے دشمن امریکا نے اولمپکس میں سب سے زیادہ میڈلز جیت کر پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔
پاکستانی دستے کے چیف ڈی مشن سید عاقل شاہ نے اولمپکس شروع ہونے سے پہلے کوئی بھی میڈل نہ لینے کے حوالے سے جو پیش گوئی کی تھی وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی ہے۔ اب انھوں نے پیش گوئی تو نہیں کی البتہ ایک تجویز دی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ہاکی سے وابستہ امیدیں چونکہ پوری نہیں ہوئیں اس لیے اس کے بجٹ میں کٹوتی کر کے دیگر کھیلوں کا بجٹ بڑھایا جائے تاکہ عالمی سطح پر بہتر نتائج حاصل کرنے کی کوئی امید پیدا ہو۔ باکسنگ' ایتھلیٹکس' ریسلنگ' والی بال سمیت کئی کھیل ایسے ہیں جن کے فنڈز میں اضافہ کر کے اچھے نتائج کی امید لگائی جا سکتی ہے۔
اگر اہم ایتھلیٹکس کی مثال ہی سامنے رکھیں تو عموماً آٹھ سال کی عمر سے ایک بچے کی ٹریننگ شروع کی جاتی ہے اور اٹھارہ انیس سال کی عمر میں وہ عالمی سطح پر مقابلے کے قابل ہوتا ہے۔ جمیکا کے یوسین بولٹ جیسی پرفارمنس تو شاید ہی کسی اور کے نصیب میں آئے جنہوں نے اتوار کو ختم ہونے والی اولمپکس میں مزید تین گولڈ میڈل جیت کر میڈلز کی کل تعداد چھ کر لی ہے۔ بولٹ اس وقت دنیا کے تیز ترین ایتھلیٹ ہیں۔ بولٹ فاسٹ بولر بننا چاہتے تھے اور وقار یونس ان کے فیورٹ بولر تھے جن کی طرح وہ اپنا رن اپ بنانا چاہتے تھے۔
عجیب اتفاق ہے کہ کئی سال پہلے جمیکا کا ایک ایتھلیٹ فاسٹ بولر بن گیا تھا۔ اس ایتھلیٹ کا نام مائیکل ہولڈنگ ہے۔ مائیکل ہولڈنگ کے بارے میں مشہور زمانہ انگلش امپائر ڈگی برڈ کہا کرتے تھے کہ وہ دنیا کے واحد بولر تھے جو گیند پھینکنے کے لیے ان کے پاس سے گزر جاتے تھے مگر انھیں احساس تک نہیں ہوتا تھا کہ بولر وکٹوں کے پاس پہنچ کر گیند کرنے والا ہے۔ یہ نصیب کی بات ہے کہ قدرت نے کس کو کہاں عزت اور شہرت دینی ہوتی ہے۔ عاقل شاہ کی تجویز سے بات شروع ہوئی تھی۔ ایتھلیٹ کی تیاری میں دس سے گیارہ سال لگتے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم چونکہ شارٹ کٹ کے عادی ہیں اس لیے اتنا طویل عرصہ انتظار نہیں کر سکتے۔ ہمیں اولمپکس میں میڈلز جیتے کے لیے بھی کوئی شارٹ کٹ ہی تلاش کرنا پڑے گا۔ ایتھلیٹکس کے ساتھ ساتھ جن دوسرے کھیلوں کا اوپر ذکر کیا ہے ان میں بھی میڈلز لینے کے لیے لمبا انتظار کرنا پڑے گا۔ تب تک تو بقول خواجہ جنید ہماری ہاکی ٹیم بھی واپس میڈلز ٹیبل تک آ جائے گی۔
کوئی فوری تجویز ہونی چاہیے جو ہمیں اگلے اولمپکس میں ہی اس قابل بنا دے کہ ہم ایک سے زیادہ گولڈ میڈل جیت لیں۔ میرے خیال میں اولمپکس کے مقابلوں میں دو کھیل ایسے ہیں جو ہمیں فوری یہ مقام دلا سکتے ہیں۔ یہ کھیل ہیں شوٹنگ اور تیر اندازی (آرچری) ہیں۔ ان دونوں کھیلوں میں صرف ایک چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہے اچھا نشانہ۔ جس شخص کا نشانہ ٹھیک ہے وہ ان دونوں کھیلوں میں بڑے آرام سے گولڈ میڈل جیت سکتا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے شوٹر اور تیر انداز کہاں سے لائے جائیں جو ہمیں یہ اعزاز دلا سکیں۔
اس میںزیادہ سوچنے کی کیا ضرورت ہے؟ کراچی اور بلوچستان سے یہ شوٹر آسانی سے مل سکتے ہیں۔ یہ دن رات پریکٹس میں رہتے ہیں اس لیے اولمپکس سے پہلے ان کے لیے کسی کیمپ کے انعقاد کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔ ایک مسئلہ ہے کہ ان کو تلاش کیسے کیا جائے کیونکہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ اپنے ٹھکانوں سے نکلتے ہیں' ٹھیک نشانے پر گولی مارتے اور واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کا نشانہ کبھی خطا نہیں جاتا۔ ان میں یہ خوبی بھی ہے کہ کسی کو نظر بھی نہیں آتے۔
اس مسئلے کا بڑا سادہ حل ہے۔ پولیس اور رینجرز ان کو تو نہیں پہچانتے البتہ ان کے سرپرستوں کے بارے میں ہماری حکومت سمیت سب کو علم ہے۔ اولمپکس شروع ہونے سے چند دن پہلے ان سرپرستوں سے اپیل کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے ''بہترین'' کھلاڑیوں کے نام پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کو بھجوادیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک ان کے سرپرستوں کو راضی کر سکتے ہیں۔ ایک بار یہ سرپرست راضی ہو جائیں اور اپنے چوٹی کے ''کھلاڑی'' منتظمین کے حوالے کریں' پھر ان کے کسی ٹرائل کی بھی ضرورت نہیں' ناموں کی فوری منظوری دی جائے اور انھیں اولمپکس جانے والے دستے کا حصہ بنا دیا جائے۔
اس تجویز پر عمل کرنے سے گیارہ گولڈ میڈل ہمارے حصے میں آ سکتے ہیں۔ ان میں سے کسی کا نشانہ چوکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شوٹنگ کے مقابلوں میں کل 15 گولڈ میڈل ہوتے ہیں جن میں سے نو مردوں کے لیے مخصوص ہیں جب کہ آرچری کے کل چار گولڈ میڈلز میں سے مرد دو میڈل جیت سکتے ہیں۔ خواتین والے میڈل دوسرے ملکوں کے کھلاڑیوں کے لیے چھوڑ دیے جائیں۔ مجھے تو اولمپکس میں میڈل جیتے کا اس سے بہتر اور کوئی حل نظر نہیں آتا۔ رحمان ملک ہی وہ واحد امید ہیں جو اولمپکس میں ہمیں گولڈ میڈل دلوا سکتے ہیں۔