کھیل بے نقاب ہوتا جا رہا ہے

میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ’’ریاست جبر کا ادارہ ہے، اقلیت اکثریت پر کرے یا اکثریت اقلیت پر‘‘...


Zuber Rehman May 14, 2013
[email protected]

میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ''ریاست جبر کا ادارہ ہے، اقلیت اکثریت پر کرے یا اکثریت اقلیت پر'' (حوالہ ریاست اور انقلاب: لینن) چونکہ یہ دولت مندوں کی محافظ ہے اس لیے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اپنے ذیلی اداروں کو استعمال کرتی ہے۔ ہاں مگر کبھی کوئی اور کبھی کوئی اور ادارہ غالب نظر آتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اغلب سول نوکر شاہی چند سال راج کرتی رہی یا یوں کہہ لیں کہ اس سے ریاست اپنا کام لیتی رہی۔ جب دولت مندوں کے مفادات کا بہتر تحفظ ان سے نہ ہو پایا تو پھر وردی والی نوکر شاہی سے کام لینا شروع کیا۔ جب بے وردی نوکر شاہی کے ساتھ ساتھ وردی والی نوکر شاہی بھی بے نقاب ہو گئی تو جمہوری سرمایہ داری نظام نافذ کیا گیا۔ گزشتہ 5 برسوں میں عالمی سامراج کی خدمت جنرل پرویز مشرف سے بڑھ کر ان کے جانشین نے کی۔

پرویز مشرف کے دور میں روزانہ 10 ہزار شہری غربت کی لکیر کے نیچے جا رہے تھے جب کہ نام نہاد جمہوری حکومت کے دور میں روزانہ 25 ہزار شہری غربت کی لکیر کے نیچے جاتے رہے۔ جب یہ جمہوریت بھی بہت زیادہ بے نقاب ہو گئی تو پھر جائیداد والے طبقات کی رکھوالی شروع کر دی گئی ہے۔ تمام تر نزلہ پیپلز پارٹی پر گر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، اے این پی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی میں کوئی سرمایہ دار ہے، کوئی جاگیردار ہے اور نہ ہی کسی نے بینک سے رقم قرض لے کر ہڑپ کی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس حالیہ کیس کے ملزمان سمیت ان پارٹیوں کے سارے رہنما پارسا ہیں۔ عدلیہ نے کراچی، بلوچستان اور کے پی کے میں خودکش اور ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والوں کے کسی بھی قاتل کو اب تک سزا نہیں دی۔

اسی طرح میڈیا بھی قطعی غیر جانبدار نہیں ہے۔ مرزا اسلم بیگ اور جنرل درانی سے آئی جے آئی کو رقوم تقسیم کرنے کا کیس اب بھی کھٹائی میں پڑا ہے۔ انھیں کوئی انوکھی بات نہیں سمجھنی چاہیے بلکہ ساری دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب ابراہام لنکن، کینیڈی، لیاقت علی خان، مہاتما گاندھی، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسے بورژوا رہنماؤں کے قاتلوں کو آج تک کوئی سزا نہیں ہوئی تو پھر مزدوروں اور کسانوں کے لٹیروں اور قاتلوں کو کیونکر سزا ہو سکتی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر این اے 257 کے قومی اسمبلی کے امیدوار ریاض حسین لُنڈ بلوچ ایڈووکیٹ کاغذات نامزدگی یہ کہہ کر مسترد کر دیے گئے کہ وہ سرکاری کالج کے پرنسپل ہیں جب کہ اسی امیدوار کے حلقہ این اے 258 سے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے۔ ان پر لگائے گئے عذر کہ یہ سرکاری کالج کے پرنسپل ہیں جو غلط ہے اس لیے کہ یہ پرائیویٹ کالج ہے اور حکومت سے پہلی بار گرانٹ لے رہا ہے۔ لیکن طلبا کی فیس سے کالج چلتا ہے۔ پھر کیونکر سرکاری ہو گیا جب کہ اربوں روپے لیے گئے بینک کے ڈیفالٹرز کے کاغذات نامزدگی منظور ہو گئے۔ اس لیے کہ ریاض حسین بلوچ ایڈووکیٹ پی پی پی کے سوشلسٹ منشور کے ساتھ ایک کمیونسٹ ہیں۔ جالبؔ نے پچھلی عدلیہ پر کہا تھا کہ

یہ منصف بھی تو قیدی ہیں

ہمیں انصاف کیا دیں گے

لکھا ہے ان کے چہرے پر

یہ کل جو فیصلہ دیں گے

یہاں اداروں، کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں کی نجکاری کر کے مزدوروں کو بیروزگار کیا گیا اور ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ طاہر القادری نے نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اینکر کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''ریٹرننگ افسران سوالوں کے بجائے انٹرٹینمنٹ کر رہے ہیں۔ شق 63 پر کوئی سوال ہی نہیں کیا گیا۔ جنہوں نے بینکوں سے اربوں روپے قرضے لے کر معاف کروائے ان سے کوئی سوال ہی نہیں کیا گیا۔ انھوں نے جواب میں مزید کہا کہ ایف آئی اے، نادرا، ایف بی آر، ایس سی اور نیب سمیت کسی نے بھی ان بینکوں کے قرضہ نادہندگان کی فہرست الیکشن کمیشن کو فراہم نہیں کی۔ 10 اپریل 2013 کو لاہور ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے نمایندے یہ بیان ریکارڈ میں لائے کہ انھیں اب تک بینک کے قرضہ نادہندگان کی فہرست فراہم نہیں کی گئی۔

جب فہرست الیکشن کمیشن کو فراہم ہی نہیں کی گئی تو پھر انتخابی امیدواروں سے سوالات کیا اور کیسے کرتے۔ اس لیے یہ الیکشن ایک فراڈ ہے۔ جو میں نے پہلے بھی کہا اور آج بھی کہہ رہا ہوں''۔ طاہر القادری صاحب ایک تعلیم یافتہ، قانون داں، دانشور اور استاد ہیں۔ اس کے باوجود انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ انھیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ ریاست بنیادی طور پر جبر کا ادارہ ہے اور انھوں نے جن اداروں کے نام لیے ہیں یا جن کا گلہ کیا ہے وہ ریاست ہی کے آلہ کار ادارے ہیں پھر وہ کیوں کر شفاف اور ایماندارانہ انتخابات کروانے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے انقلاب کی بات کی ہے۔ اب انھیں کیا یہ بھی نہیں معلوم کہ انقلاب کس کو کہتے ہیں؟ انقلاب نظام کی مکمل تبدیلی ہے۔

قدیم امداد باہمی سے غلامی پھر غلامی سے جاگیرداری اور جاگیرداری سے سرمایہ داری اور پھر سرمایہ داری سے جدید امداد باہمی یا اشتمالی نظام۔ طاہر القادری اس سرمایہ دارانہ نظام کی برائی، لوٹ مار اور ذلتوں سے آشنا ہیں تو پھر نظام (سرمایہ داری) میں رہتے ہوئے 62,63 کے ذریعے کیونکر بہتری کی توقع رکھتے ہیں؟ آج سرمایہ داری کا سورج غروب ہونے والا ہے۔ حال ہی میں وینز ویلا کے صدر کامریڈ ہوگو شاویز کی رحلت کے بعد نائب صدر نیکولس مادورو صدارتی امیدوار کے طور پر انتخابات میں کامیاب ہو کر وینزویلا کے سوشلسٹ صدر بن گئے۔ اگر سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے بہتری آ سکتی تھی تو پھر چین میں 22 کروڑ، جرمنی میں 50 لاکھ اور جاپان میں 65 لاکھ لوگ بیروزگار نہ ہوتے۔

لہٰذا ان کی یہ تمام تجاویز، مطالبات اور تقاریر نقش بر آب ہیں۔ لہٰذا عوام کی خوشحالی اور مسائل کا مکمل حل ایک محنت کشوں کے انقلاب میں مضمر ہے۔ جو انقلاب کسی ایک ملک تک محدود رہنے کے بجائے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر عالمی انقلاب میں تبدیل کر دے گا۔ ملکوں، سرحدوں کو توڑتے ہوئے دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کے حوالے کرے گا۔ ایک ایسا امداد باہمی یا اشتمالی نظام جو بلا کسی حکومت عوامی راج قائم کرے گا جو جدید سائنسی ایجادات کے فوائد اور برکات کو سارے عوام تک پہنچائے گا۔ یعنی ایک آسمان کے نیچے ایک ہی خاندان ہو گا۔ کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست، دولت کا ذخیرہ ملکیت اور صاحب جائیداد گروہ ناپید ہو جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں