انتخابات میں بلوچستان کے بڑے سیاسی برج الٹ گئے

نومولود سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی بلوچستان اسمبلی میں ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھری ہے


رضا الرحمٰن August 01, 2018
نومولود سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی بلوچستان اسمبلی میں ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھری ہے فوٹو : فائل

2018ء کے الیکشن میں بلوچستان سے بڑے بڑے سیاسی برج اُلٹ گئے اور حیران کن نتائج نے بہت سے سیاسی مبصرین کے اس حوالے سے کئے گئے تبصروں کو بھی غلط ثابت کردیا۔

تاہم نومولود سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی بلوچستان اسمبلی میں ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھری ہے گو کہ اس حوالے سے جو سیاسی مبصرین اور اس جماعت سے وابستہ افراد دعوے کر رہے تھے اس کے مطابق نتائج نہیں ملے، تاہم بی این پی مینگل نے ان سیاسی حلقوں کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے حیرت زدہ کردیا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں2018ء کے حوالے سے یہ دعوے کئے جا رہے تھے کہ بلوچستان عوامی پارٹی25 سے زائد سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہوجائے گی جبکہ قومی اسمبلی میں بھی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھرے گی لیکن ان نتائج میں بلوچستان عوامی پارٹی 50 نشستوں میں سے صرف 15 نشستیں حاصل کر پائی اور اس کے وہ اُمیدوار جن کے بارے میں سو فیصد کامیابی کے حوالے سے دعوے کئے جا رہے تھے اس میں وہ ناکام ہوئے جن میں پارٹی کے بانی سعید احمد ہاشمی، میر عاصم کرد گیلو، سرفراز بگٹی، طاہر محمود، سخی امان اﷲ نوتیزئی، میر عبدالکریم نوشیروانی، منظور کاکڑ شامل ہیں۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق پارٹی کے سیکرٹری جنرل منظور کاکڑ، بانی سعید احمد ہاشمی اور سرفراز بگٹی کی ناکامی پارٹی کیلئے ایک بہت بڑا سیاسی دھچکا ہے۔

اسی طرح قومی اسمبلی میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کی دو نشستوں سے، جمعیت علماء اسلام (متحدہ مجلس عمل) کے حافظ حمد اﷲ، (ن) لیگ کے سردار یعقوب خان ناصر، متحدہ مجلس عمل کے مولوی امیر زمان، بلوچستان عوامی پارٹی کے سردار زادہ دوستین ڈومکی، قومی اسمبلی پر تحریک انصاف کے صوبائی صدر سردار یار محمد رند اور لسبیلہ سے قومی اسمبلی کی نشست سے بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل اور بلوچستان عوامی پارٹی کے جام کمال کی شکست اور صوبائی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری ،ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، عبدالرحیم زیارتوال کی شکست کو بھی سیاسی حلقے ایک بڑی تبدیلی سے تعبیر کر رہے ہیں۔

بلوچستان اسمبلی میں بی این پی مینگل نے اب تک کے نتائج کے مطابق7 نشستیں، متحدہ مجلس عمل نے8، تحریک انصاف نے 5، عوامی نیشنل پارٹی نے 3، بی این پی عوامی، ایچ ڈی پی نے دو دو جبکہ (ن) لیگ، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور جے ڈبلیو پی نے ایک ایک نشست حاصل کی ہے جبکہ پانچ آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ ان پانچ آزاد کامیاب ہونے والے اراکان اسمبلی میں سے چار نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے ان کی شمولیت کے بعد بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے اور وہ بڑھ کر19 پر پہنچ گئی ہے جبکہ پانچویں آزاد رکن اسمبلی کے حوالے سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ وہ بھی بی اے پی میں شمولیت اختیار کر لیں گے؟ جس کے بعد بلوچستان اسمبلی میں بی اے پی کی نشستیں بڑھ کر 20 تک پہنچ جائیں گی۔

قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل (جمعیت علماء اسلام) بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے جس کے حصے میں 5، بلوچستان عوامی پارٹی 4،بی این پی (مینگل)3، تحریک انصاف2،جے ڈبلیو پی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ایک آزاد رکن اسلم بھوتانی شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کی لسبیلہ گوادر کی نشست پر آزاد رکن اسلم بھوتانی کی کامیابی نے سیاسی جماعتوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ اُنہوں نے اس حلقے سے دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو شکست دی ہے۔

بلوچستان میں اب حکومت سازی کا عمل شروع ہوگیا ہے اور اس حوالے سے بلوچستان اسمبلی میں کامیاب ہوکر آنے والی جماعتوں نے ایک دوسرے سے رابطوں کا آغاز کردیا ہے۔ اب تک کی صورتحال میں بلوچستان عوامی پارٹی کو 50 جنرل نشستوں میں سادہ اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ اے این پی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بی این پی عوامی جن کے پاس بالترتیب تین، دو اور دو نشستیں ہیں نے بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے ان پارٹیوں کی حمایت کے بعد بلوچستان اسمبلی کی 50 نشستوں میں بی این پی عوامی کے اُمیدوار کو26 اراکین کی حمایت حاصل ہے اور وہ اس وقت حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔

جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے مابین بھی رابطے جاری ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی میں اس وقت وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں تین اُمیدوار شامل ہیں جن میں جام کمال، میر عبدالقدوس بزنجو، جان محمد جمالی کے نام لئے جا رہے ہیں ۔ تاہم اس صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی پارلیمانی جماعت کی بیٹھک کب ہوتی ہے جس میں وہ اپنے پارلیمانی لیڈر کا فیصلہ کرے گی اور پارلیمانی لیڈر کے انتخاب کے بعد ہی صورتحال واضح ہوگی کہ بلوچستان عوامی پارٹی کسے وزارت اعلیٰ کے منصب کیلئے نامزد کرتی ہے یقیناً اتفاق رائے سے جو بھی پارلیمانی لیڈر نامزد ہوگا وہی آئندہ کی وزارت اعلیٰ کا اُمیدوار بھی ہوگا۔

جبکہ دوسری جانب بی این پی مینگل کے سردار اختر مینگل جن کی جماعت کا انتخابات کے دوران متحدہ مجلس عمل کے ساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ ہوا تھا وہ بھی اپنے ان اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنائیں۔ جس کیلئے اُنہوں نے تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل کے ساتھ رابطے کر رکھے ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کا یہ دعویٰ ہے کہ آئندہ بلوچستان میں وہ حکومت بنائے گی اس حوالے سے وہ بی این پی مینگل سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرے گی جس کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو کہ حکومت سازی کیلئے بلوچستان اسمبلی میں کامیاب ہونے والی تمام پارلیمانی جماعتوں سے رابطے کرے گی۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اس مرتبہ پھر مخلوط حکومت قائم ہوگی اور بلوچستان عوامی پارٹی جسے بلوچستان اسمبلی میں اس وقت اکثریت حاصل ہے زیادہ توقع یہی کی جا رہی ہے کہ وہ باآسانی اپنی حکومت بنالے گی تاہم اُسے وزارت اعلیٰ کے منصب کیلئے کسی ایک نام پر متفق ہونے میں کچھ دشواری ضرور پیش آئے گی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ راقم کی جب یہ سطور نظر سے گزر رہی ہوں گی اس وقت تک صورتحال تقریباً واضح ہو چکی ہوگی۔

تحریک انصاف کی جانب سے بھی مخلوط حکومت میں شامل ہونے یا وزارت اعلیٰ کے منصب تک پہنچنے کیلئے کوششیں جاری ہیں تاہم تحریک انصاف بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے گورنر شپ سمیت دیگر معاملات کو بھی سامنے رکھ کر بات چیت کر رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔