انتخابات اور ہماری توقعات
اگرچہ ملک میں 11 مئی کے انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو گیا لیکن حسب توقع اپنے پیچھے بہت سوالات بھی چھوڑ گیا...
اگرچہ ملک میں 11 مئی کے انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو گیا لیکن حسب توقع اپنے پیچھے بہت سوالات بھی چھوڑ گیا۔ انتخابی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) 125 سے زائد سیٹیں جیت کر قومی اسمبلی کی اکثریتی پارٹی بن گئی۔ چند آزاد ارکان یا ایک دو چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر وہ باآسانی آیندہ حکومت بنا سکتی ہے اور میاں نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم کا منصب سنبھالیں گے۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والے وہ ملک کے پہلے سیاستدان ہوں گے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی مسلم لیگ (ن) نے 200 سے زائد نشستیں جیت کر واضح برتری حاصل کر لی ہے اور وہاں مسلم لیگ (ن) کی مضبوط حکومت بنے گی جس کے وزیر اعلیٰ یقینی طور پر شہباز شریف ہوں گے۔
دوسری جانب ملک کی مقبول اور بڑی سیاسی جماعت پی پی پی اور اس کی سابقہ اتحادی جماعتیں اے این پی اور مسلم لیگ (ق) توقع کے مطابق قومی اسمبلی کی سیٹیں حاصل کرنے میں ناکام رہیں جب کہ متحدہ قومی موومنٹ نے فتح کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کراچی و حیدر آباد سے قومی اسمبلی کی روایتی نشستیں جیت لیں۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی اور پنجاب میں پی پی پی کو حیران کن طور پر غیر متوقع نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، قمرالزماں کائرہ، چوہدری احمد مختار، فردوس عاشق اعوان، منظور وٹو، گیلانی خاندان، اسفند یار ولی، غلام احمد بلور جیسے بڑے نام اپنی سیٹیں جیتنے میں ناکام رہے۔
تحریک انصاف نے پہلی مرتبہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا کے پی کے اور پنجاب میں اپنی سیاسی قوت کو رجسٹرڈ کروا کے ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی مخلوط حکومت بنا سکتی ہے۔ سندھ جو پی پی پی کا سیاسی قلعہ ہے یہاں حسب توقع پی پی پی نے قومی و صوبائی اسمبلی کی تمام روایتی نشستیں جیت کر اپنی فتح کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ سندھ میں پی پی پی بلاشرکت غیرے حکومت بنا سکتی ہے اور اویس مظفر سندھ کے متوقع وزیر اعلیٰ ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان میں قوم پرستوں کو اگرچہ نمایاں کامیابی ملی ہے تاہم کسی بھی جماعت کو بہت واضح عددی برتری حاصل نہیں وہاں حکومت سازی کے لیے سخت جوڑ توڑ کرنا پڑے گی۔
یہ امر تو بہرحال خوش آیند ہے کہ قومی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت نے 5 سالہ آئینی مدت پوری کی جس کا سہرا صدر آصف علی زرداری کی مفاہمانہ پالیسی کے سر جاتا ہے پھر 11 مئی کو نئے انتخابات کا انعقاد کیا گیا اور اب آیندہ چند ہفتوں میں دوسری منتخب جمہوری قیادت کو اقتدار کی منتقلی کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا جس سے یقینی طور پر ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کو استحکام حاصل ہو گا۔ تاہم 11 مئی کے انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی اور اعتدال پسند سیاسی جماعتوں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو جس طرح انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی کامیاب سازشیں کی گئیں اس پر ملک کے سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ تنقیدی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
کراچی جو ملک کا سب سے بڑا شہر اور اہم تجارتی مرکز ہے یہاں عین 11 مئی کی صبح لانڈھی کے علاقے میں اے این پی کے دفتر کے قریب دھماکہ کیا گیا جس میں 11 قیمتی جانیں چلی گئیں۔ منگھوپیر میں رینجرز کی چوکی پر خودکش حملہ کیا گیا بعض پولنگ اسٹیشنوں کے باہر فائرنگ اور تشدد کے واقعات ہوئے اسی طرح پشاور، چمن، نصیر آباد اور مستونگ میں بھی پرتشدد واقعات اور فائرنگ سے 40 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے جس سے پرامن ماحول میں انتخابات کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ بقیہ چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بعض حلقوں میں دھاندلی کے مبینہ الزامات سامنے آنے پر پورا انتخابی عمل مشکوک ہو گیا۔
بالخصوص کراچی میں منصفانہ الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے از خود اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا اعتراف کر لیا ہے سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کراچی میں صاف و شفاف انتخابات کرانے میں ناکام رہے۔ بعض سیاسی جماعتوں اور تجزیہ نگاروں نے کراچی میں دوبارہ انتخابات کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صرف کراچی میں ہی کیوں انتخابی دھاندلی کی شکایات تو لاہور، پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں سے بھی سامنے آ رہی ہیں ان شہروں میں بھی دوبارہ انتخابات کرائے جانے چاہئیں اور ثبوت پوری قوم کے سامنے لائے جائیں۔
پنجاب جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے وہاں مسلم لیگ (ن) نے ہی سب سے نمایاں کامیابی حاصل کی اور ثابت کر دیا کہ اس کی سیاسی قوت صرف پنجاب تک محدود ہے کیونکہ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں (ن) لیگ قابل ذکر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ پنجاب کے بیشتر حلقوں میں دھاندلی کے ذریعے انتخابی نتائج تبدیل کرنے کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار اور مبصرین پنجاب میں ملک کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت پی پی پی کی شکست کو ''انجینئرڈ دھاندلی'' سے تعبیر کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک جانب تو انتہا پسند عناصر کی کھلی دھمکیوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے باعث پی پی پی اور دیگر پروگریسو جماعتوں کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی جب کہ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی نے تین ہفتوں تک جی بھر کے جلسے جلوس کیے نتیجتاً پی پی پی کو پنجاب اور اے این پی کو کے پی کے میں سیاسی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو پنجاب میں پی پی پی کی ناکامی کو اس کی 5 سالہ کارکردگی کا نتیجہ قرار دے رہا ہے۔ ہرچند کہ حکومتی کارکردگی بھی شکست کا ایک عامل ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ 5 سال کے دوران پی پی پی کی اتحادی حکومت کو کلی اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ کام کرنے کا بھر پور موقع نہیں ملا۔ اسے سیاسی و عدالتی محاذ پر مختلف النوع مشکلات، مسائل اور چیلنجوں کا سامنا رہا جس کے باعث حکومتی کارکردگی پر منفی اثرات کا پڑنا ناقابل فہم نہیں۔ بہرحال یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ناقص کارکردگی کے مقابلے میں ''انجینئرڈ دھاندلی'' اور دہشت گرد عناصر کی جانب سے پی پی پی کی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنے کا عامل ہی پی پی پی کی شکست کا بنیادی سبب ہے۔ اور اس حوالے سے مبصرین و تجزیہ نگاروں کے تبصرے اور دھاندلی کی خبروں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن کا اعتراف حقیقت از خود ایک ثبوت ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ الیکشن کمیشن ''شفاف انتخابات'' کرانے کے دعوؤں کی لاج نہ رکھ سکا۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ 11 مئی کے انتخابات سے جو امیدیں عوام کو وابستہ تھی ان پر ہمارے نئے حکمران کس حد تک پورا اترے۔