چلتی کا نام گاڑی
وقت کی ضرورت اور اختیارات کا وسیع تر استعمال بہت سے علاقوں میں محرومی کی فضا قائم کر رہا ہے۔
بالآخر پاکستان میں سیاسی انداز میں ایک تبدیلی آئی ہے اور ایک نئی سیاسی جماعت جو ویسے تو خاصے برسوں تگ و دو میں لگی تھی اور 2013ء کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں انھیں اپنی کارکردگی دکھانے کا موقعہ ملا تھا لیکن اب2018ء کے انتخابات نے پاکستان تحریک انصاف کو اپنی بھرپور کارکردگی دکھانے کا موقعہ دیا ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے ہمارے یہاں ماضی میں بھی سوالات اٹھتے ہی رہے ہیں لہٰذا اس بار کے الیکشن بھی ان سوالات سے مبرا نہیں ہیں۔
پاکستان 2013ء کے انتخابات سے پہلے بھی اور بعد میں بھی کئی مسائل میں بری طرح جکڑا رہا ہے، معاشی حوالے سے دیکھ لیں یا سیاسی اعتبار سے دنیا میں خارجی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو اس میں بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں آتی، نئی حکومت کے لیے یہ تمام حوالے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں، پاکستان اورگرے لسٹ کے بارے میں جو خدشات تھے وہ بھی سامنے آچکے ہیں، ان تمام مسائل کی فہرست میں کرپشن نمبر ایک پر نظر آتی ہے جو ہر ادارے میں ہر سطح پر کسی نہ کسی انداز میں موجود ہے ترقی کے سفر میں کرپشن دیمک کا کردار ادا کر رہی ہے جس سے مجموعی طور پر پاکستان کا امیج برباد ہو چکا ہے۔
اس کو بہترکرنے اور ایک اچھے مقام کی جانب گامزن کرنے میں نئی حکومت کو یقینا کئی مسائل درپیش رہیں گے لیکن جیساکہ عمران خان کی جانب سے احتساب کا عمل اپنی ذات سے شروع کرنے کی بات سامنے آئی ہے تو ہو سکتا ہے کہ بہت ان کے اردگرد کے خوشامدی دوست نما دشمن بھی ذرا گھبرائے ہوں کیونکہ جس نئے پاکستان کا نعرہ خان صاحب نے لگایا تھا اس کی شروعات تو بظاہر دکھائی دے رہی ہیں لیکن اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے انھیں اپنے اردگرد بھی ذرا غور سے دیکھنا اور سمجھنا ہوگا کہ اب باتوں اور نعروں کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب عمل کرنے کا زمانہ ہے۔ ملک کو منجدھار سے نکالنے کے لیے انھیں ایک سلجھے ہوئے بے باک بہادر کپتان کی مانند عوام کے منتخب نمایندوں کو اپنے اعتماد میں لے کر میدان میں اترنا ہے کہ قسمت نے انھیں موقعہ دیا ہے جسے ضایع کرنے کے لیے ان کے پاس اب کوئی نو بال نہیں بچی ہے۔
ماضی میں ہم نے بہت سے بین الاقوامی معاہدے ایسے کیے جو ہمیں سوٹ نہیں کرتے تھے اور ہم نے اپنی نااہلی اور ناعاقبت نااندیشی کی وجہ سے اپنی قوم کا کروڑوں ڈالرز کا نقصان کروایا کیونکہ وہ معاہدے ہمارے عمل کرنے کے انتظار میں ہی رہے اور وقت گزرتا گیا نتیجتاً انھیں منسوخ کرنا پڑا وہ کون کون سے معاہدے تھے اب اس کی تفصیل میں جانے کا کیا فائدہ؟ لیکن کیا مستقبل میں بھی ہم اسی طرح کے معاہدے کریں گے اور ان پر عمل بھی کریں گے؟ بہت سے معاہدوں کی ناکامی اور منسوخی کے علاوہ بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات کی مد میں بھی ہماری قوم کا بڑا پیسہ صرف ہوا اور اس کا نتیجہ بے سود ہی رہا لیکن ہمیں وہی بتایا گیا جس سے ہم سکون کا سانس لیتے لیتے 2018ء تک آ پہنچے لیکن کاغذ کے صفحات لکھے فیصلے ہمارے خلاف ہی گئے اور پیسے برباد۔
پبلسٹی اگر اچھی ہو تو بُری شے بھی بک جاتی ہے لیکن صارف بُری چیز ایک بار استعمال کرنے کے بعد اس کی جانب دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا لیکن اچھی شے صارف کو بار بار استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں مختلف برانڈز اٹھا کر دیکھ لیں اچھی چیز بار بار بکتی ہے اور پبلسٹی رائیگاں نہیں جاتی، خرید و فروخت سے لے کر الیکشن تک پبلسٹی بڑے کام کی چیز ہے لیکن آج کا صارف اور ووٹر عقل مند ہے وہ چیز اور کام دیکھتے ہیں، امید ہے کہ تحریک انصاف کے منتخب عوامی نمایندے اس جانب توجہ دیں گے اور ٹوٹی ہوئی سڑک پر اٹھنے والے خرچے اگر چند لاکھوں میں ہوں گے تو کروڑ ظاہر نہیں کریں گے کیونکہ بار بار ٹوٹی سڑکیں تو ٹھیک ہوسکتی ہیں لیکن بار بار گرنے والے پل انسانی زندگیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
اندرون سندھ میں آئے دن ہونے والے سڑک پر ہونے والے حادثات ایسی ہی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور ناقص راستوں کی بدولت ہے، پانی اور صفائی کے مسائل الگ جب کہ عدالتی فیصلوں میں تاخیر نسلوں تک چلی جاتی ہے، ملازمتوں میں کوٹے نے تعصب، لسانیت اور گروپوں کو جنم دیا ہے اس کے لیے اہلیت، قابلیت اور ٹیلنٹ کو مدنظر رکھا جائے تاکہ عوام میں محرومی کا احساس ختم ہو۔
زمینوں پر قبضہ اور ناجائزالاٹمنٹ، ریلوے کی زمینوں پر غیر قانونی تجاوزات اور یہاں تک کہ کراچی یونیورسٹی کی زمین کے ایک بڑے حصے کو بھی ایسے ہی قبضہ مافیا نے کمرشل انداز میں استعمال کرکے سرکاری زمین کو کوڑیوں کے مول لوٹا اور بہت کچھ جس کو اس وقت زیر قلم لانا ممکن نہیں لیکن محض آوازیں، شور اور پھر خاموشی سی چھا جاتی ہے۔
اس ناجائز عمل سے بڑے شہر متاثر ہو رہے ہیں، ان کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے، آبادی کا بوجھ چند شہروں کو بوجھل کر رہا ہے، پانی اور دیگر بنیادی عوامل کی کمی کے باعث گاؤں دیہات جو قدرت کی جانب سے خوبصورت تحفہ ہیں ویران ہو رہے ہیں کیونکہ حصول رزق، ذریعہ معاش اور علاج کی آسانیاں عوام کو شہر کی جانب رخ موڑنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ پنجاب میں مزید صوبے بنانے کی ضرورت ہے لیکن سندھ میں اس کی ضرورت نہیں ہے یہ کہنا ہے خانصاحب کا لیکن اس معاملے کو بھی محض نعروں، آوازوں اور لسانی بنیاد پر دیکھنا بہتر نہ ہوگا۔
وقت کی ضرورت اور اختیارات کا وسیع تر استعمال بہت سے علاقوں میں محرومی کی فضا قائم کر رہا ہے،کسی خاص طبقے یا جماعت کے لیے کدورت رکھنے کا زمانہ اب گزر چکا ہے، حالیہ الیکشن نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ ووٹر اب سمجھدار ہوچکے ہیں وہ کام دیکھتے ہیں وہ پینے کے لیے صاف پانی، ملازمتوں کا حصول، شخصی آزادی اور معاشی حوالے سے اپنے آپ کو مستحکم اور ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں جو ترقی کے پروجیکٹ پچھلی حکومت نے شروع کر رکھے تھے، انھیں تہہ کرکے رکھنے کے بجائے اگر کھلے دل سے ان کو مکمل کیا جائے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ بعد میں کوئی یہ نعرہ لگائے گا کہ فلاں کام کس نے شروع کیا تھا ہم نے۔۔۔۔کیونکہ چلتی کا نام گاڑی ہے اس گاڑی کو ترقی کی سڑک پر ڈال کر آگے بڑھانا اب نئی حکومت کا کام ہے۔
جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں بھی الیکشن ہوتے رہے ہیں اور شکلیں بدلتی رہی ہیں لیکن جاپان نے اپنی ترقی کی گاڑی کو بریک نہیں لگنے دیا۔ ہمیں امید ہے کہ نئے چہرے پوری قوت اور آب و تاب سے اس گاڑی کو آگے بڑھائیں گے پوری قوم دعا گو ہے۔ (آمین)