آپ سب اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

پہلے ووٹر کو تو عزت دیجیے اس کی عزت نفس کو اپنے پاؤں تلے مت کچلیے۔


نجمہ عالم August 03, 2018
[email protected]

لاہور: وطن عزیز میں گیارہویں عام انتخابات الحمد للہ 25 جولائی کو بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوگئے۔ نتائج حسب توقع ہی رہے، کیونکہ ان نتائج کے بارے میں عوام پہلے ہی سے آگاہ تھے کہ انتخابات سے کافی عرصہ قبل ہی ایسے واضح اقدامات آچکے تھے کہ اس بار باری والوں میں سے کسی کی باری نہیں بلکہ 2013 کے انتخابات سے قبل ہی خود کو وزیر اعظم سمجھنے والے کو باری دی جائے گی۔

ان حقائق پر بہت معتبر کالم نگار و دانشور بہت مضبوط و واضح مثالیں پیش کرچکے ہیں، اس لیے ان کا دہرانا بے کار ہے۔ حسب سابق یا حسب روایت ہارنیوالوں نے انتخابات کی شفافیت پر آواز اٹھائی ہے، اور عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں صاف کہا کہ جن حلقوں پر اعتراض ہوگا ہم انھیں دوبارہ کھلوائیں گے تاکہ عوام مطمئن ہوجائیں۔ مگر دوبارہ گنتی کی متعدد درخواستیں مسترد کی جاچکی ہیں خاص کر کراچی میں۔ اب یہ شور مچانا کہ دھاندلی ہوئی ہے سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مگر اس سارے عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کے لیے غور و فکر کے کئی پہلو ہیں۔

سب سے پہلے ہم کامیاب جماعت پی ٹی آئی کا ذکر کریں تو بہتر ہوگا۔ پی ٹی آئی والے بے شک اپنی واضح کامیابی کا چاہے کتنا ہی جشن منائیں مگر اپنے ضمیر کی عدالت میں کیا وہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ان کی کامیابی بلا کسی غیبی امداد، بلا کسی نادیدہ منصوبہ بندی کے (حالانکہ سب کچھ سامنے ہو رہا تھا نادیدہ کچھ بھی نہ تھا) کے، خود اپنے دعوؤں کی کھلی خلاف ورزی اور اپنے بلند و بانگ وعدوں کو پس پشت ڈال کر وزارت عظمیٰ حاصل نہیں کی گئی؟ جو آپ نے گزشتہ حکومت کے ساتھ بطور حزب اختلاف رویہ اختیار کیا اگر وہی آپ کے ساتھ اختیار کیا جائے تو کیسا لگے گا؟

ہمارا کوئی بھی انتخاب دھاندلی کے الزام سے نہیں بچا ہر بار یہی شور ہوا، اس بار کہا جا رہا ہے کہ انتخابات بے حد شفاف ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم کھا کر بطور خاص ایک مرد مومن ہمیں عطا فرمایا ہے جو ہماری اور ملک کی تقدیر بدل دے گا، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ کل تک پی ٹی آئی کے طرز عمل اور خود عمران خان کے رویے پر کھلی تنقید کرنیوالے اب نئی امیدیں لگا کر عمران خان کی کامیابی کے لیے بڑے صائب مشورے انھیں عنایت فرما رہے ہیں اور جن کو اب تک ان میں کوئی خوبی نظر نہ آتی تھی آج ان کی شخصیت کے تمام مثبت پہلو اچانک سامنے آگئے ہیں (چڑھتے سورج کے پجاری آخر کون ہوتے ہیں) بہرحال اگر واقعی یہ اپنی محنت، عوام دوست پالیسی، مثبت طرز سیاست، مخالفین پر تنقید کے بجائے پھول برسانے کے باعث کامیاب ہوئے تو اللہ رب العزت آگے بھی ان کو کامیاب اور ملک کے لیے فرشتہ رحمت ثابت کرے، عوام کو اس سے بالکل غرض نہیں کہ کون برسر اقتدار آتا ہے وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایک نظر کرم ان پر بھی ڈالے، عمران خان نے بہت سے اچھے وعدے کیے ہیں اللہ کرے وہ اپنی یوٹرن والی عادت سے جان چھڑا چکے ہوں اور ان وعدوں پر نہ صرف قائم رہیں بلکہ بھرپور عمل بھی کریں عوام سب بھول کر انھیں اپنے کاندھوں پر اٹھالیں گے آج نہیں بلکہ 2023ء کے انتخابات میں بھی۔

اب کچھ گزارش پی ایس پی والوں سے کہ انھیں جو پٹی پڑھائی گئی تھی کہ بس آپ تشریف لائیں کراچی آپ کے قدموں میں ہوگا اور کراچی والے ''کیا حکم ہے میرے آقا'' جیسے ثابت ہوں گے، انھیں شہر میں پیراشوٹ سے اتارا گیا تو نہ صرف رہائش کا معقول بندوبست بلکہ صرف چند گھنٹوں بعد پریس کانفرنس کے مکمل انتظامات موجود، آپ نے ایک لمحے کو بھی نہ سوچا کہ آخر اس قدر مہربانی کی وجہ کیا ہے؟ آپ میں سے کسی ایک کے بھی ذہن میں یہ خیال نہ آیا کہ جس جماعت کو قیام سے لے کر آج تک ختم کرنے کی کامیاب و ناکام کوششیں کی جاتی رہی ہیں تو ان کا ہمیں سبز باغ دکھا کر مقصد کہیں اور کامیابی تو حاصل کرنا نہیں، کہیں ہمیں کسی کے خلاف استعمال کرنے کی سازش تو نہیں کی جا رہی، مگر مشترکہ دشمن نے تو آپ کی آنکھوں پر اس بار وزارت اعلیٰ اور اگلی بار وزارت عظمیٰ کی پٹی باندھ دی تھی۔ کراچی کے حصے بخرے کرنے کے لیے، انتہا پسندوں تک کے کاغذات منظور کیے گئے۔

جن کے لیے میدان ہموار کیا جا رہا تھا وہ اپنی امید سے زیادہ حصہ پانے میں کامیاب ہوگئے، آپ کے خیر خواہ تو اپنے مقصد میں خاصی حد تک کامیاب ہوگئے مگر آپ کے ہاتھ کیا آیا؟ اب آپ فرما رہے ہیں کہ ہم نے پارٹی بچا لی وہ پارٹی جس کا سربراہ تک کامیاب نہ ہوسکا، دوسری جانب نقصان تو زبردست ہوا مگر پارٹی سربراہ کا سر تو نہیں جھکا(کم ازکم)اب ذرا ایم کیو ایم سے بھی کچھ گفتگو ہوجائے۔ آپس کے اختلافات اور ذاتی انا کی جنگ میں کون جیتا کون ہارا اور کس کو کتنا مال غنیمت حاصل ہوا۔ ایک بڑے دھچکے کے بعد آپ کافی حد تک سنبھل چکے تھے بلکہ یہ دھچکا آپ کو صاف شفاف کرنے کے لیے نیک شگون تھا ابتدا میں لوگ صورتحال واضح نہ ہونے پر لندن سے وابستہ رہنے پر مصر تھے مگر آہستہ آہستہ حقائق واضح ہوئے تو وہ اپنی تمام امیدیں آپ سے وابستہ کرنے میں مخلص تھے مگر آپ نے ذاتی اختلافات پر برسوں سے پارٹی کے لیے اپنا تن من دھن یعنی اپنا پورا مستقبل داؤ پر لگانے والوں کو اس قدر مایوس کیا آخر کیوں؟ کورٹ کچہری سب کے بعد آخر میں آپ پھر ایک ہوگئے۔

آخر یہ فیصلہ خاموشی سے اندرون خانہ پہلے ہی کیوں نہ کیا گیا۔ آج فاروق ستار صاحب کو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کے نقصان کا اندازہ ہوا یا اب بھی نہیں؟ مجھے وہ کارکن نہیں بھولتا جو ایک الیکشن آفس کے پاس ہمیں ملا تھا نہ ہم اس کو صورت سے جانتے تھے اور نہ نام سے واقف، مگر اس کے چہرے پر بکھری ہوئی یاس و امید کی ملی جلی کیفیت سے جو تاثر بن رہا تھا اس نے مجھے دکھی کردیا، وہ کہہ رہا تھا باجی! ہم نے اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنا مستقبل تک اس پارٹی پر نچھاور کردیا مگر انھوں نے آپس میں لڑ کر جو نقصان پارٹی کو پہنچایا کیا وہ کبھی پورا ہوسکے گا؟ایک بات تمام سیاستدانوں سے کہ آپس میں تمام تر اختلافات کے ساتھ ہی ایک دوسرے کا احترام کیجیے۔ اختلافات کے باوجود بطور انسان ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کیجیے۔ پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کو دنیا کی بدترین سیاست و بدترین خلائق سیاستدان قرار دیا جا رہا ہے۔

ماضی میں آپ بے حد غلط اور ناگوار فیصلے کرچکے۔ ملک کو دو لخت کرنے میں آپ کا کردار بھی بے حد بے رحمانہ تھا، ملک کی ترقی، غربت بے روزگاری اور معاشی بدحالی کا ذمے دار بھی آپ کو قرار دیا جاتا ہے۔ آخر آپ ان تمام الزامات کے داغ اپنے دامن سے کب دھوئیں گے؟ آپ کب مہذب و معتبر سیاست اختیار کریں گے۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے آپ کی صفوں سے بلند ہوئے۔ مگر ووٹ تو کاغذ کا ایک پرزہ ہے۔

پہلے ووٹر کو تو عزت دیجیے اس کی عزت نفس کو اپنے پاؤں تلے مت کچلیے۔ آپ کبھی بھی کسی دور میں بھی ملک کے حقیقی حکمران نہیں بن سکتے جب تک آپ کسی کے آلہ کار رہیں گے آپ کو مسند اقتدار سے کبھی جیل اور کبھی تختہ دار تک لے جایا جاتا رہے گا۔ آپ کے برے سے برے حشر پر بھی عوام کوئی حشر برپا نہ کریں گے کیونکہ جس عوامی مینڈیٹ کی بات کی جاتی ہے وہ دراصل عوامی ہوتا ہی نہیں وہ تو کہیں اور طے کیا جاتا ہے کہ کس کو اقتدار کن شرائط پر دینا ہے۔ جس دن آپ نے عوام کی عزت بحال کردی اس دن عوام آپ کو حقیقی طور پر اپنا نمایندہ منتخب کریں گے اور پھر آپ کے قدم بہ قدم ہر صورتحال کا مقابلہ بھی کریں گے۔ تو پہلے آپ ایک دوسرے کا اور پھر اپنے ووٹر کا احترام کرنا شروع کردیجیے۔

عوام ہی نہیں بلکہ اور بھی ''سب'' آپ کی عزت کرنے لگیں گے۔میرے عزیز ہم وطنو! اب دیکھنے اور خوش فہمی میں مبتلا ہونے پر کوئی قانونی پابندی نہیں (شکر کیجیے ''کوئی پابندی نہیں'') اگر آپ کو یہ خوش فہمی ہے کہ تبدیلی آپ کے ووٹ سے آئی ہے تو خوش رہیے کوئی حرج نہیں۔ مگر ''ہمارے مہربان'' اگر پہلے سے اتنی محنت نہ کرتے، میدان ہموار نہ کرتے مخالفین کو گرفتار، مقدمات میں نہ الجھاتے، وفاداری بدلنے پر مجبور نہ کرتے تو بھلا آپ کا ووٹ کیا کرسکتا تھا۔ گزشتہ بار جو دھاندلی کا شور مچا رہے تھے بلکہ دارالحکومت کو یرغمال بنائے ہوئے تھے آج وہ چپ اور خوش ہیں۔ اور جو آج شور مچا رہے ہیں وہ گزشتہ انتخابات کے بعد بغلیں بجا رہے تھے۔

یہ بھی آپ کی خوش قسمتی ہے کہ پہلے دو جماعتوں کی باریاں لگتی تھیں اب تیسری جماعت بھی اس مقابلے میں شامل ہوگئی ہے، آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو کہ اب تین باریاں لگا کریں گی اور ہر کسی کو پندرہ سال بعد آپ پر حکمرانی کا موقع ملا کرے گا۔ معزز عوام عالی مقام ہم کیا پدی کیا پدی کا شوربہ یہ جو کچھ ہم عرض کرچکے ہیں یہ سب ملک کے بڑے بڑے دانشور اپنے معتبر اور مہذب انداز میں تحریر کرچکے ہیں، ہمارا انداز تحریر تو بے حد کھردرا اور ناہموار ہے۔ مگر ایسا ضرور ہے کہ بات آپ کی سمجھ میں ضرور آگئی ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔