میں نے وائلن کو مشرق کا ساز بنا دیا

صدارتی ایوارڈ یافتہ وائلن نواز استاد رئیس احمد خان سے ایک مکالمہ


Ghulam Mohi Uddin May 15, 2013
جس آگ میں جلتا ہوں اُسی میں سننے والے بھی راکھ ہو جاتے ہیں۔ فوٹو : ظفر اسلم راجا

دل میں اترنے کے کئی رستے ہیں لیکن سماعت کی راہ ان میں نسبتاً مشکل ہے، سیانے کہتے ہیں جو لوگ اِس کا انتخاب کرتے ہیں دراصل وہ مشکل پسند ہوتے ہیں۔

پرائڈ آف پرفارمنس استاد رئیس احمد خان بھی ایسے ہی فن کار ہیں۔ انہوں نے صرف آٹھ سال کی عمر میں اپنے والد محترم استاد فتح علی خان (ستار نواز) کو صاف صاف کہ دیا کہ اگر انہیں گھرانے کا ہنر سکھانا مقصود ہے تو وہ وائلن کے علاوہ کچھ نہیں سیکھیں گے ''ورنہ مجھے کرکٹر بننے کی اجازت دی جائے'' کہتے ہیں ''موسمِ گرما کے جس تپتے دن میں نے اپنا باغیانہ فیصلہ صادر کیا، اسی رات ہم چھت پر لیٹے ہوئے تھے، خوش گوار ہوا تھی، تارے جھلملا رہے تھے کہ والد صاحب جیسے کسی گمبھیر سوچ سے برآمد ہوئے، اچانک بولے ''وائلن لاؤ'' آؤ دیکھا نہ تاؤ، میں جھٹ سے وائلن لے آیا، جس کے صرف دو ہی تار سلامت تھے، ان ہی کو درست کیا، وائلن اسٹک مجھے تھمائی، گھر میں موجود رکابی بھر مٹھائی سامنے رکھی اور مجھے شاگردی میں لے لیا۔

پہلے سبق میں ہی مجھے وائلن پکڑنے، کندھے پر رکھنے اور ہاتھوں کی جنبش سمجھائی، بس میرا سفر شروع، چھے سے آٹھ گھنٹے کی ریاضت، فجر سے پہلے اٹھا دیا جاتا، دوپہر تک وائلن کے سوا کسی اور کام کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ مڈل ہی میں اسکول چھوڑنا پڑا، متعدد بار ایسے مقام آئے کہ بغاوت کرنے کو جی چاہا، اماں کی حمایت حاصل کرنا چاہی لیکن وہ میرے سنہرے مستقبل کی خاطر مجھے خاطر میں نہ لاتیں لیکن میں وائلن بجاتا تو بعض اوقات والد صاحب کی آنکھوں میں پانی سا جھلملا جاتا، یہ پانی میرے اندر بغاوت کی آگ کو فرو کر جاتا،

یہ ہے داستاں، میرے ایک شان دار کرکٹر نہ بننے اور وائلن نواز بن جانے کی، جب اللّٰہ نے میرے ہاتھوں کو سماعتوں میں ہل چل برپا کرنے کی صلاحیت عطا کی تو مجھے لگا کہ میں شائقین سے بھرے کسی اسٹیڈیم میں چھکے، چوکے لگا رہوں، وکٹیں اڑا رہا ہوں، یقین جانئے وائلن بجاتے ہوئے جب میری آنکھیں بند ہوتی ہیں، تو سر، تال اور لے میرے لیے باؤلنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ بن جاتے ہیں، سب آنکھیں مجھ پر مرکوز ہیں، میں ہی میں ہوں دوسرا کوئی نہیں، یہ وہ احساس ہے جو میرے اندر آگ لگا دیتا ہے، پھر میں تو جلتا ہی ہوں، سننے والے بھی اسی آگ میں جل جاتے ہیں''۔

استاد رئیس احمد خان پاکستان کے ایک ایسے وائلن نواز ہیں جن کو ایک ستار نواز نے تربیت دی، وہ کہتے ہیں ''میں وائلن کی مروجہ زبان ''NOTATION'' کے بغیر وائلن بجانے والا فن کار ہوں، آکیسٹرا کے ساتھ میں نے کبھی کام نہیں کیا، ہمیشہ سولو پرفارمنس دی، اس لیے کہ میری تربیت کی بنیاد کلاسیکل موسیقی پر رکھی گئی ہے، دنیا بھر میں بہت اچھا وائلن بجانے والے نوٹیشن کے ذریعے وائلن سیکھے ہوئے ہیں، میں ان سب سے اس لیے منفرد ہوں کہ وہ سب اپنے سامنے رکھے ہوئے نوٹس اور وائلن کنڈکٹر کی چھڑی کے تابع ہو کر پرفارمنس دیتے ہیں جب کہ میں اپنی سماعتوں کو یک جا کرکے انہیں اپنی انگلیوں میں لے آتا ہوں، یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے ورنہ موسیقی کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہوتا''۔

استاد رئیس احمد خان 1962میں لاہور میں پیدا ہوئے، 1970 میں استاد فتح علی خان ریڈیو پاکستان راول پنڈی میں بہ طور موسیقار آئے تو خاندان کو راول پنڈی منتقل ہونا پڑا، رئیس خاں نے لیاقت باغ اسلامیہ ہائی اسکول میں پڑھائی شروع کی لیکن وائلن نے میٹرک تک نہ پہنچنے دیا۔

رئیس احمد خان کے بہ قول ''وائلن سیکھنے سے پہلے مجھے علم نہیں تھا کہ موسیقی کے سازوں میں وائلن سب سے مشکل ہے، باقی سازوں کے نوٹس آپ کے سامنے ہوتے ہیں آپ کو علم ہوتا ہے کہ کون سا سُر کس جگہ یا کی سے نکلے گا لیکن وائلن میں جو میں بجاتا ہوں سامنے نوٹس نہیں ہوتے، مشرقی موسیقی کو وائلن پر بجانا آگ کے دریا سے گزرنا ہوتا ہے، مشرقی موسیقی میں وائلن بغیر نوٹس کے شترِ بے مہار بن جاتا ہے، جہاں آپ کی ریاضت ہی روشنی بن کر کام آتی ہے ورنہ منزل مشکل ہو جاتی ہے، ایک لمحے کی غلطی آپ کو سر اور تال سے باہر کر دیتی ہے، وائلن بجانے میں ایک تیسری طرح کی مشکل اِس کو پکڑنے، کندھے پر رکھنے اور ہاتھوں اور انگلیوں کی گرفت کے ساتھ اپنے جسم کو متوازن رکھنا ہوتا ہے، تھوڑی سی تھکاوٹ بھی گڑبڑ پیدا کر دیتی ہے، اِس لیے وائلن سے سر کو باہر نکالتے ہوئے فن کار خود سے باہر نکل جاتا ہے''۔

''ستار میرے گھر کا ساز تھا لیکن میں وائلن بجا رہا ہوں، شاید اِس لیے کہ میں گھر میں لاڈلا تھا اور والد کے بعد اس گھر کی لاج میرے ہاتھوں میں تھی، میرے والد نے جب وائلن بجانے کی وجہ پوچھی تھی تو میرے منہ سے بے اختیار نکلا تھا کہ بابا سچی بات یہ ہے کہ اس ساز کی آواز میرے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتی ہے، والد مرحوم نے کچھ دیر سوچ کر میری طرف دیکھا اور پھر مجھے کہا دل کے معاملے کو میں بدلنے والا کون ہوتا ہوں۔''

استاد رئیس خان نے کہا ''دنیا بھر میں ''چیمبر آف آرکسٹرا'' بڑے شوق سے سنا جاتا ہے، اس محفل موسیقی میں وائلن فیملی کی کل چاروں اقسام شامل ہوتی ہیں، یورپ اور امریکا میں اس موسیقی کا خاص اہتمام ہوتا ہے لیکن یہ موسیقی صرف ان ہی شائقین کو بھرپور لطف دیتی ہے جو وائلن فیملی کے سازوں کی نزاکت کو سمجھتے ہیں، مجھے بھی یہ محفل موسیقی بہت مزا دیتی ہے''۔

''الیکٹرک وائلن اور روایتی وائلن میں تکنیکی لحاظ سے فرق نہیں ہوتا لیکن جو سُرور روایتی وائلن کا ہے وہ الیکٹرک وائلن کے بس کی بات نہیں، ایسے ہی ہے جیسے آپ میڈم نور جہاں کے کسی گیت کو چاہے جتنی مہارت سے گا لیں لیکن آواز میں جو رچاؤ اور سُریلا پن میڈم کی آواز میں ہے، وہ دوسرے کے گلے سے ہرگز نہیں نکلے گا''۔

وائلن نواز استاد رئیس احمد خان نے 1990 میں موسیقی گھرانے سے باہر شادی کی، دو بیٹے اور ایک بیٹی کے باپ ہیں۔ ایک بیٹا برطانیہ کی یونی ورسٹی آف لندن میں تعلیم مکمل کر رہا ہے جب کہ باقی بچوں کو بھی وہ زیادہ سے زیادہ پڑھانے کے لیے سرگرداں ہیں۔

کہتے ہیں ''میں اپنے کام، اپنے منصب اور اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں، اپنوں کے علاوہ غیروں نے بھی مجھے بھرپور محبت دی، میں نے دن رات محنت کرکے جو کمایا وہ سب کچھ بچوں کو پڑھانے لکھانے پر لگا دیا۔ میں بڑا وائلنسٹ بنوں یا نہ بنوں لیکن میں اپنے بچوں کو معاشرے کا پڑھا لکھا اور باوقار شہری بنانے کا متمنی ہوں، جس دن میرا یہ خواب پورا ہو گیا اُس دن مجھے اپنی دن رات کی محنت کا ثمر مل جائے گا، میرے بڑے بیٹے نے جب مجھے دوران تعلیم ہی موسیقی کی طرف آنے کا عندیہ دیا تو میں نے اُسے ہرگز نہیں روکا، بس شرط عاید کردی کہ پہلے تعلیم مکمل کرلو، میں تمہارے ساتھ کھڑا ہو جاؤں گا، وہ گلوکاری کے میدان میں آنا چاہتا ہے، موسیقی کی ابجد سے واقف ہو چکا ہے اور اللہ نے اسے رسیلا گلا دیا ہے''۔

استاد رئیس خان کے مطابق موسیقی کی دنیا میں گلوکاری کے لیے گلا رسیلا ہونا چاہیے لیکن سازندوں اور موسیقی کار کے لیے کانوں کا سُریلا ہونا بھی لازمی ہے، جس کی سماعت کا ذوق سُریلا نہیں ہوگا وہ موسیقی کی دنیا سے آشنا نہیں ہو سکتا۔ ''دیکھیں یہ ایسے ہی ہے کہ اچھا یا بُرا گانا تو سب ہی گا لیتے ہیں لیکن ساز ہر کوئی نہیں بجا سکتا، ساز اُسی وقت بولتا ہے جب آپ کی سماعت کا معیار اور رسیلا پن بہترین ہو گا''۔

رئیس احمد خان کے سب سے بڑے بھائی ادریس احمد خان گٹار بجاتے ہیں، چھوٹے استاد نفیس احمد خان ستار نواز ہیں، ان سے چھوٹے انیس احمد خان کی بورڈ میں مہارت رکھتے ہیں اور سب سے چھوٹے جلیس وائلن نواز ہیں۔

استاد رئیس کہتے ہیں ''موسیقار اور سازندہ ہونے میں بہت فرق ہے، ایک اچھا میوزیشن، اچھا موسیقی کار ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ایک موسیقی کار میوزیشن بھی بن جائے، میں میوزیشن ہوں اور یہ ہی ہونا مجھے پسند ہے، بعض میوزیشن تو ایسے بھی ہیں جو ہر ساز کو نہایت مہارت سے بجا لیتے ہیں۔ کمپوزیشن ایک الگ شعبہ ہے، معتبر کام ہے، معاشرے میں وہ نام بھی کما لیتا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ میوزیشن کی وجہ سے ہی وہ کمپوزر ہے،

پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسر عارف رانا نے ایک بار مجھے موسیقی کے ایک پروگرام کے لیے کمپوزر کے طور پر کام کرنے کو کہا، میں نے انکار کردیا تو انہوں نے کہا کہ ''میں جانتا ہوں تم یہ کام بہت اچھی طرح کر لوگے، تم اللہ کا نام لے کر کرو'' میں نے ان کے اصرار پر حامی بھر لی، اس پروگرام کا نام ''صدا و ساز'' تھا جو تین سال آن ایئر گیا، اِس میں ایک ٹھاٹھ کے جتنے راگ تھے، ان کو لے کر دھنیں ترتیب دینا تھا، میں نے جب کمپوزنگ دی تو پھر اللہ نے عزت بھی دی، خان صاحب غلام علی خان، عابدہ پروین اور حامد علی خان صاحب جیسے نام ور گلوکاروں نے میری کمپوزنگ میں گایا لیکن میری پہلی ترجیح وائلن ہی ہے اور رہے گا، وائلن اور میں روح و جسم ہیں''۔

گزراوقات کے حوالے سے استاد رئیس احمد خان نے کہا ''بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر آتے ہیں، شعبہ کوئی بھی ہو گزر اوقات کے مسئلے لاحق رہتے ہی ہیں، شروع میں بہت تنگی دیکھی، وہ دن گزر گئے، یہ وقت پہلے سے بہت بہتر ہے لیکن نئے تقاضے بدستور قائم ہیں... زندگی مکمل طور پر آئیڈیل نہیں ہوتی، اس لیے اگر میں یہ کہوں کہ 'الحمداللہ' تو یہ زیادہ بہتر ہوگا، بچے پڑھ رہے ہیں، کھانے پینے کو مل رہا ہے، مکان ہے، گاڑی ہے، صحت تندرستی بھی ہے، محبتیں میسر ہیں، اب اس سے زیادہ اور کیا چاہوں، رہی خواہشیں، تو ان کی تو کوئی حد ہوتی''۔

فن کار نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟ ''خدا نہ خواستہ فن کار نہ ہوتا تو کرکٹر ہوتا''۔ وائلن میں رئیس احمد خان کا آئیڈیل پٹیالہ گھرانے کے ظہیرالدین خان ہیں جو رشتے میں ان کے ماموں تھے ''حسرت ہی رہی کہ ان سے بھی کچھ اسرار و رموز سیکھتا، وہ میرے بچپن ہی میں گذر گئے، ان کی بجائی ہوئی دھنیں سنتا ہوں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے، نوٹیشن اور آکسٹرا کے ساتھ وائلن بجانے والے بھی اچھے ہیں مگر مجھے ہمیشہ سے کلاسیکل موسیقی بجانے والے وائلن نواز اچھے لگتے ہیں''۔

سلور سکرین کے لیے ابھی تک استاد رئیس خان کی مہارت سے استفادہ نہیں کیا گیا، کہنے لگے ''میری خواہش ہے کہ میں کسی فلم کے لیے وائلن پر بیک گراؤنڈ میوزک دوں، میں دنیا بھر میں وائلن بجا چکا ہوں لیکن بھارت ابھی تک نہیں جا سکا، جب کبھی انہوں نے بلایا تو میں ضرور جاؤں گا اور پاکستان کے بیٹے کی حیثیت سے وطن کا نام روشن کروں گا''۔ وائلن سیکھنے والوں کو نصیحت کی ''وائلن بجانا آسان نہیں، پہلے شوق اور جنون کی حد تک شوق ہو تو، تب راستہ ملتا ہے،

خداداد صلاحیت تو راہ آسان ہوتی ہے، دنیابھر میں موسیقی کے سات ہی سر ہیں، مشرق میں یہ سا، رے، گا، ما، پا، دھا، نی ہے جب کہ مغرب میں یہ ڈو، رے، می ، فا، سو لا، نی، سو ہیں، یہ سات سرجب نوٹیشن میں آتے ہیں تو چائینیز ان کو اپنے انداز میں لکھتے ہیں، مغرب میں ایک دوسرے انداز سے لکھا جاتا ہے اور مشرق میں اور عرب دنیا میں اپنے اپنے انداز میں لکھا جاتا ہے، اب ساز چاہے جو بھی ہے، سُر یہ ہی ہیں۔

استاد رئیس خان کہتے ہیں ''وائلن انگریزی ساز ہونے کے باوجود ہماری کلاسیکل موسیقی پر پورا اترتا ہے، بجانے والا کلاسیکل موسیقی جانتا ہو تو پھر یہ اس کے سامنے دو زانو ہو جاتا ہے ورنہ بجانے والے کو ناک سے لکیریں نکلوا سکتا ہے، بھارت میں بہت کام ہوا ہے، پاکستان میں اس کام کا قرعہ میرے نام نکلا ہے، میرے بہت سے شاگرد بہت اچھا کام کر رہے ہیں''۔

فلم اور ٹیلی ویژن ڈراما میں بیک گراؤنڈ میوزک کے حوالے سے وائلن ایک ایسا بنیادی ساز بن گیا ہے جس کے بغیر بیک گراؤنڈ میوزک میں تشنگی محسوس ہونے لگتی ہے، دوسرے سازوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اب وائلن ان سے آگے دکھائی دے رہا ہے، حاؒل آںکہ یہ بنیادی ساز نہیں، سپورٹنگ ساز ہے۔

استاد رئیس فارغ اوقات میں گھر پر وائلن نہیں بجاتے ''نہ کبھی بیوی نے فرمائش کی، نہ بچوں نے، میں گھر میں بس شوہر اور باپ ہوتا ہوں، گلی محلے میں ہمسایہ، دوستوں میں دوست اور فرصت ہو تو سپورٹس اور نیوز چینلز دیکھتا رہتا ہوں، دل اداس ہو تو بھی وائلن نہیں بجاتا، نہ موسیقی سنتا ہوں، آپ کچھ بھی کہ لیں، میں ایسا ہی ہوں، یقین کریں میرا کام وائلن پر گائیکی پیش کرنا ہے، میں نئے میوزک اور نئے گیت نہیں سنتا، سفر کے دوران گاڑی میں سن لیا، آتے جاتے نئے گیتوں کی دھن کانوں میں پڑ گئی،

کبھی چینل بدلتے ہوئے کسی چینل پر چند لمحوں کے لیے کوئی گیت سن لیا وہ الگ بات ہے، مگر جب محفل میں فرمائش کی جاتی ہے کہ فلاں گیت سنا دوں تو اس وقت نہ جانے کہاں سے وہ دھن میرے ہاتھوں میں اتر آتی ہے، اصولی طور پر ایمان داری کے ساتھ مجھے ریاضت کرنی چاہیے لیکن اللہ کی مہربانی سے کام چل جاتا ہے اور ایسا چلتا ہے کہ میں خود بھی حیران ہو جاتا ہوں''۔ جب پوچھا گیا کہ وائلن کا اتنا بڑا نام اور گھرمیں موسیقی کا ماحول ہی نہیں، تو بولے ''میں گھر کو گھر بنا رہا ہوں، وائلن گھر سے باہر بجا لیتاہوں، ریاضت بھی ہو جاتی ہے اور پیسے بھی مل جاتے ہیں، شوق بھی پورا ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔

ایک بات ضرور کہوں گا کہ فن کار ہونے کے علاوہ بہ طور انسان مجھے ماں باپ، بیوی ،بچوں، بھائیوں سمیت ہر طرف سے بہت محبت ملی، بہت سوچتا ہوں کہ یہ سب کیا ہے؟ پھر عقدہ کھلا کہ میں ''ڈیمانڈنگ'' نہیں ہوں، طبیعت میں شروع سے سادگی ہے، اپنی دنیا میں خوش ہوں، ماضی پرست بھی ہوں، مستقبل کے لیے لمبی چوڑی منصوبہ بندی نہیں کرتا، اللہ نے حرص اور لالچ سے بچا رکھا ہے، جو ملا اسی پر شکر، کوئی روک ٹوک کرے تو چپ رہتا ہوں، دوسروں کے پھڈوں میں ٹانگ نہیں اڑاتا، ماں کی دعائیں لیتا ہوں،

بہت اچھا کھانا کھانے، پینے کا تردد نہیں کرتا، گھر کے کام خود کر لیتا ہوں، گلی محلے میں، میں استاد رئیس خان کی بجائے عام سا آدمی ہوں، خاص ماحول بنانے کی کوشش نہیں کرتا، جو ہے بس ٹھیک ہے، یہ ہی میرا روپ ہے۔ بعض دفعہ ہم فن کار لوگ جب صاحب ثروت اور نام نہاد بڑے لوگوں کے ناروا رویوں کا شکار ہوتے ہیں تو دل میں درد کی لہر ضرور اٹھتی ہے مگر جب وہی لوگ لجاجت کے ساتھ فرمائش کرتے ہیں تو اس لہر کا ازالہ بھی ہو جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں