الیکشن میں بے ضابطگیاں
آخر اس الیکشن میں ہی ووٹرز نے ووٹوں پر اتنی بڑی تعداد میں ڈبل مہریں کیوں لگا دیں۔
بدقسمتی سے حالیہ عام انتخابات کو دھاندلی والے ہی نہیں بلکہ مہا دھاندلا الیکشن کہا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی کو چھوڑ کر باقی تمام ہی سیاسی پارٹیاں اس کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر ڈال رہی ہیں مگر الیکشن کمیشن تمام الزامات کو رد کر رہے ہیں۔ الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ لوگ ان پر نکتہ چینیاں ضرورکر رہے ہیں مگر پاکستان جیسے ملک میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے سیاستدانوں کے درمیان الیکشن کرانا کوئی بچوں کا کھیل تو ہے نہیں۔
یہاں حسن اتفاق سے تھوک کے بھاؤ سے سیاسی پارٹیاں موجود ہیں۔ یہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ اتنی تو دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں پائی جاتیں ۔ پھر ان میں سے بعض ایسی بھی پارٹیاں ہیں جن پر امریکا بہادر نے اپنی مرضی کا قانون لاگوکرکے دہشتگرد قرار دے دیا ہے جس کی پیروی میں ہماری حکومت نے انھیں کالعدم قرار دے دیا ہے۔ انھی کالعدم پارٹیوں کی وجہ سے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے فی الحال'' گرے لسٹ'' میں ڈال دیا ہے۔
FATF کی جانب سے ابھی اس سلسلے میں انکوائری جاری ہے جب کہ ہماری حکومت ان پارٹیوں کی نیک نامی کے بارے میں صفائی پیش کرنے میں مصروف ہے کہ ایسے نازک وقت میں ان پارٹیوں کے بطن سے جنم لینے والی نئی پارٹیوں کو قومی دھارے میں جگہ دے کر عام انتخابات میں حصہ لینے کا موقع فراہم کردیا گیا تھا۔ اس عمل سے پاکستان مشکل کا شکار ہوسکتا ہے پر ہمارے عوام کو تو ضرور اس کا احساس ہے جبھی انھوں نے انھیں کوئی پذیرائی نہیں بخشی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات کرانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بہرحال نامساعد حالات میں بھی الیکشن کمیشن نے الیکشن کرا دیے ہیں مگر جس طرح کے الیکشن کرائے گئے ہیں اس سے اگر ہارنیوالا سخت غصے کا شکار ہے تو جیتنے والا سخت حیرت زدہ ہے۔ وہ جو بہ بانگ دہل یہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ الیکشن میں سب پر سبقت لے جائیں گے آج ہارنے پر پریشان ہیں۔
یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایسے مثالی الیکشن منعقد کرائے گئے ہیں کہ اس جیسے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الیکشن تو واقعی مثالی تھے کیونکہ اس سے پہلے کبھی کل ملا کر لاکھوں کی تعداد میں ووٹ ریجیکٹ نہیں ہوئے تھے، ووٹوں پر اتنی تعداد میں ڈبل مہریں نہیں لگی تھیں اور پھر نتائج کے اجرا میں ایسی پراسرار دیر بھی نہیں لگی تھی۔
اس طرح تو ووٹ اور ووٹرز دونوں کی بے حرمتی ہوئی پھر اسی پر اکتفا نہیں ہوا کچرے کنڈی میں ووٹ پڑے ہوئے ملے، انتہا یہ ہوئی کہ انھیں جلانے کی کوشش کی گئی مگر وہ مکمل جلنے سے پہلے ہی عوام کی نظر میں آگئے اور بچے کچھے ووٹوں کو شاندار کارکردگی کے ثبوت کے طور پر پیش کر دیا گیا۔ یہ واقعہ کراچی کے قیوم آباد کے علاقے میں رونما ہوا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی کا بیان ہے کہ وہاں سے بڑی تعداد میں استعمال شدہ جلے اور بغیر جلے بیلیٹ پیپر برآمد ہوئے یہ کچرا کنڈی اتفاق سے پی ایس 97 حلقے کے پولنگ اسٹیشن کے قریب ہی واقع ہے۔
الیکشن کمیشن ابھی تک اس واقعے کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھرپور تیاریوں کی 25 جولائی کی صبح ہی پول کھل گئی تھی جب ووٹرز کے ڈیٹا اور پولنگ اسٹیشن کے بارے میں معلومات کی موبائل فون پر دستیابی بند کردی گئی تھی، اس کی وجہ سے ووٹرز کو اپنے پولنگ اسٹیشنز کے بارے میں پتا چلنا مشکل ہوگیا مجبوراً بزرگ اور بیمار ووٹرز اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ یہی وجہ صبح ووٹنگ کی رفتار کے سست ہونے کی رہی۔
اب سوال یہ ہے کہ اتنے سخت انتظامات کے باوجود بھی اس دن ڈیٹا فراہمی کا سسٹم کیوں خراب ہوگیا تھا مگر مشاہدے میں آیا کہ ایک خاص پارٹی کے ورکرز کو یہ سہولت دستیاب تھی اسی وجہ سے اس کے شامیانوں میں عوام کا رش تھا جب کہ دوسری پارٹیوں کے شامیانے خالی تھے۔ پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ قریب آدھا دن گزرنے کے بعد یہ سہولت سب کے لیے بحال کردی گئی تھی۔ جیسے تیسے ووٹنگ کا مرحلہ ختم ہوا اور ووٹوں کی گنتی کا وقت آیا تو ایک مخصوص پارٹی کے علاوہ تمام پولنگ ایجنٹس کو کمروں سے نکال دیا گیا جنھوں نے مزاحمت کی انھیں گھسیٹ کر باہر کردیا گیا۔ پھر ان پولنگ ایجنٹوں کی غیر موجودگی میں ووٹوں کی گنتی ہوتی رہی مگر اس ووٹ شماری پر کون اعتبار کرسکتا ہے۔
چلو مانا کہ ووٹ صحیح گنے گئے تو پھر فارم 45 پولنگ ایجنٹس کو کیوں نہیں دیے گئے یہ ایجنٹس رات سے صبح تک رزلٹ کے انتظار میں بے چین ہوتے رہے مگر انھیں کچھ نہیں ملا البتہ کچھ رزلٹ شام سات بجے ہی ٹی وی چینلز کو فراہم کردیے گئے تھے مگر وہ ادھورے تھے۔ کسی بھی حلقے کا رزلٹ 5 سے 10 فیصد سے زیادہ نشر نہیں کیا گیا۔ گوکہ رزلٹ کے اجرا کا ٹی وی چینلز پر سلسلہ رات بھر چلتا رہا مگر صبح تک کسی بھی حلقے کا نتیجہ پچاس فیصد سے زیادہ اناؤنس نہیں کیا گیا تھا۔ کسی بھی حلقے میں ووٹوں کی گنتی میں دو سے تین گھنٹے سے زیادہ نہیں لگے ہوں گے تو پھر آخر صبح تک ووٹوں کے ساتھ کیا کارروائی ہوتی رہی۔ یہ راز اب بیشتر حلقوں میں کیے گئے ہزاروں ریجیکٹ ووٹوں کی صورت میں فاش ہوچکا ہے۔
امیدواروں کو دیے گئے فارم 47 سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بعض ہارنے والے امیدواروں کے مسترد ووٹوں کی تعداد جیتنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ان ووٹوں کو اس لیے مسترد کردیا گیا کیونکہ ان پر ڈبل مہریں لگی ہوئی تھیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اس الیکشن میں ہی ووٹرز نے ووٹوں پر اتنی بڑی تعداد میں ڈبل مہریں کیوں لگا دیں۔ الیکشن کے چار دن بعد امیدواروں کو اپنے فارم 45 وصول کرنے کی دعوت دینا ایک نئی روایت کی ابتدا ہے ساتھ ہی نتائج میں دیر لگنے کی وجہ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم میں خرابی کو بتایا گیا ہے۔ یہ ایک نیا سسٹم تھا جسے پہلی دفعہ تیز رفتار رزلٹ فراہمی کے مقصد سے استعمال کیا گیا تھا۔
اب یہ بھی انکشاف ہوچکا ہے کہ کئی شہروں کے پریزائیڈنگ افسروں نے اس سسٹم کی کارکردگی کے سلسلے میں پہلے ہی خدشات ظاہر کردیے تھے مگر اس کے باوجود بھی اس کا استعمال ہونا شک و شبے کو جنم دے رہا ہے۔ بعض امیدواروں نے مایوسی میں یہاں تک کہا ہے کہ اس سسٹم کی خرابی کی آڑ میں کام کچھ اور ہی ہو رہا تھا۔ اب بڑے فخر سے کہا جا رہا ہے کہ ایسے مثالی انتخابات کرائے گئے ہیں جنھیں لوگ ہمیشہ یاد کریں گے ٹھیک ہے لوگ انھیں یاد تو کریں گے مگر الیکشن کمیشن کی نااہلی کو بھی کبھی نہیں بھول پائیں گے۔