غم خوشیوں کو کھا جاتے ہیں
اپنی زندگی کو ایک اچھے طریقے سے گزارنے کے لیے ان کے باپ نے قبل از وقت تیاری کر دی تھی۔
بائیس برس میں آپ بالکل بھی نہیں بدلیں... آپ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ عمر تھم گئی ہے، ''کیا کرتی ہیں آپ اتنا اسمارٹ رہنے کے لیے؟ '' میںنے آپ سے یہ سوال بہت سنجیدگی سے پوچھا تھا اور آپ کا جواب کسی لطیفے جیسا تھا۔ میںنے انھیں ان کی جوانی کے اوائل برسوں میں دیکھا تھا۔
'' غم !!! '' آپ نے جواب دیا تھا۔
'' یہ کیا بات ہوئی آپا؟ '' میں نے سوال کیا تھا، '' غم بھی کرنے کی چیز ہے کوئی، اس سے بندہ اتنا اسمارٹ کیسے رہ سکتا ہے؟ ''
'' میں اسمارٹ نہیں ہوں، میرا وجود اندر سے گھن کھائی ہوئی لکڑی کی طرح ہے... کئی طرح کی بیماریاں جان کا روگ بنی ہوئی ہیں، غم پال پال کرمیں نے اپنی حالت یہ کر لی ہے کہ ایک نوالہ ہضم نہیں ہوتا، دوسروں کو کھاتے پیتے ہوئے ، ہنستے کھیلتے دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتی ہوں کہ انھیں کچھ نہیں ہوتا، سارے مسائل میرے ساتھ ہی کیوں ہیں !! '' انھوں نے تفصیل سے جواب دیا۔
'' اوہو... بہت دکھ ہوا یہ سن کر، آپ اپنا علاج کیوں نہیں کرواتیں ؟ '' میںنے ہمدردی سے کہا، '' اور یہ غم بھلا پالنے کی چیزہوتے ہیں کیا؟ ''
'' ہاں ... غم پالے ہی جاتے ہیں، کوئی پالتو جانور اتنا وفادار نہیں ہوتا جتنے غم ہوتے ہیں۔ جو لوگ غموں کو پالنا چاہتے ہیں، انھیں غم کبھی چھوڑ کر نہیں جاتا۔ آپ ایک کتا بھی پال لو تو وہ جتنا بھی وفادار ہو، جب آپ اس کو بھوکا رکھو گے تو روٹی یا بوٹی کسی اور سے ملے تو وہ آپ سے وفاداری بھول جاتا ہے... مگر غم ایک ایسا جانور ہے جسے بھوکا رکھو تو بھی وہ آپ کو چھوڑ کر نہیں جاتا، وہ آپ کی چھوٹی بڑی خوشیوں کو کھا کر گزارا کرلیتا ہے!! ''
'' میں سمجھی نہیں؟ '' مجھے ان کے ثقیل فلسفے کی واقعی سمجھ نہ آئی تھی۔
'' میں اپنے شوہر کی تیسری بیوی تھی... تمہیں علم ہے کہ ایک غریب گھرانے اور پسماندہ علاقے سے تعلق تھا، بھوکے پیٹ رکھ کر بھی والدین نے تعلیم دلوائی، یہی ایک زیور کام آیا اور میں اپنے پڑھے لکھے شوہر کی تیسری بیوی بن کر برطانیہ آ گئی۔ پہلی بیوی وفات پا چکی تھی، دوسری کو اولاد نہ ہونے کے باعث طلاق دے دی تھی انھوں نے... میرے بطن سے اللہ نے دوبیٹے دیے۔ ہم خوشیوں کے ہنڈولے میں جھول رہے تھے کہ اچانک میرے شوہر کے پیٹ میں درد اٹھا۔ ایمبولینس آنے تک وہ بے ہوش ہو چکے تھے، انھیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا، چند دن اسپتال میں زیر علاج رہے، علم ہوا کہ کینسر تھا جو کہ کافی پھیل چکا تھا۔ اس سے قبل کبھی انھوں نے سر درد کی شکایت بھی نہ کی تھی۔
دس اور سات سال کے دو بیٹے... ایک بڑا گھر جس میں ہم رہتے تھے، اس کے علاوہ دو اور گھر جو کرایے پر تھے۔ چلتا ہواکاروبار اور بہت سی دولت چھوڑ کر وہ چلے گئے۔ شادی کے ان گیارہ برسوں میں انھوںنے مجھے بہت پیار سے رکھا تھا۔ ان کی اچانک وفات سے مجھ پر صدمے کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، میںنے ان کی موت کا اتنا گہرا اثر لیا کہ مجھے کسی قسم کا ہوش نہیں رہا۔ ایک سال تک میں یوں اپنے گھر بچوں اور کاروبار سے لاتعلق رہی کہ جیسے میں اس دنیا میں ہوں ہی نہیں۔ اللہ تعالی سے سوال پوچھتی کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ بچوں نے کوشش کر کے مجھے زندگی کی دلچسپیوں کی طرف مائل کیا اور اپنی کم عمری کے باوجود مجھے یہ سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ ان کا سہارا اللہ کے بعد میرے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔میں نے گھر کا بکھرتا ہوا نظام سنبھالا اور کاروبار کے لیے ملازمین رکھے، یوں ہمارے ہاں فاقوں تک نوبت آنے سے رہ گئی ورنہ جوجمع پونجی تھی وہ تو سال بھر میں گھٹتے گھٹتے خاتمے کے قریب تھی۔ جب آمدن صفر اور اخراجات اچھے خاصے ہوں کہ بچے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے تھے تو ایسی نوبت آنا بعید از قیاس نہ تھا۔ میںنے زندگی کی گاڑی کو تو رواں کیا مگر اپنے شوہر کے جانے کے غم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، اس غم کو یوں پالا کہ سب خوشیاں خود پر حرام کر لیں۔ رنگ، ہنسی تو دور کی بات، مسکراہٹ تک نہیں... سیر و تفریح، تقریبات، غرض سب سے کنارا کر لیا۔ اپنے بچوں کی کامیابیاں تک میں اپنے دکھ کے باعث ناکامیوں میں بدل دیتی، اگر وہ کہیں جانا چاہتے تو میں انکار کر دیتی، کسی خوشی کو منانا چاہتے تو میں انھیں یاد دلاتی کہ ان کے باپ کی موت کتنا بڑا سانحہ اور ناقابل تلافی نقصان تھی اور ہمیں خوشیاں منانے کا کوئی حق نہیں۔ چند برس وہ خاموشی سے یہ بات سن لیتے تھے مگر وہ اسکول سے کالج تک پہنچے تو بار ہا مجھے کہنے لگے کہ میں اس بات سے سمجھوتہ کر لوں کہ ان کے باپ کی موت دنیا کی نہ پہلی موت ہے نہ آخری...
ایک شخص کے چلے جانے سے دنیا ختم نہیں ہوتی، مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ وہی شخص میری دنیاتھا۔ ان کے اس رویے سے میں ان سے نالاں رہنے لگی۔ مجھے اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کی کوششوں سے مایوس ہو کر انھوں نے اپنی خوشیوں کو دوستوں کے ساتھ منانا شروع کر دیااور مجھے بعد میں یوں بتا دیتے تھے جیسے کوئی کسی اجنبی کو بتاتا ہے۔ میں سوچتی کہ ان بچوں کو باپ کا ذرا بھی دکھ نہیں ہے، کیسے نارمل زندگی گزار رہے ہیں، باپ کی چھوڑی ہوئی دولت پر عیش بھی کر رہے تھے اور ہنستے بھی تھے۔ جس غم کو میں نے سینے سے لگا رکھا تھا اس غم کا ان کی زندگی میں کوئی وجود نہ تھا۔ ان کی مرضی اور خواہش پر میں نے ان کی شادیاں بھی کر دیں، ان کی خوشی سے انھیں اپنے اپنے گھروں میں الگ بھی کر دیا۔ وہ گھر جو ان کے باپ نے ان کی پیدائش کے ساتھ ہی ان کے لیے خرید کر کرائے پر چڑھا دئے تھے اور اتنے سالوں سے آنیوالا کرایہ بھی انھیں دونوں کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتا رہا تھا۔
اپنی زندگی کو ایک اچھے طریقے سے گزارنے کے لیے ان کے باپ نے قبل از وقت تیاری کر دی تھی۔ وہ اکثر اپنے باپ کو یاد کرتے ہیں اور اس کی دور اندیشی کی تعریف بھی کرتے ہیں اور اس کی محنت اور محبت پر اس کے ممنون احسان بھی ہوتے ہیں۔ اپنی بیویوں کو بتاتے ہیں کہ ان کا باپ کتنا عظیم آدمی تھا۔ میں انھیں اپنی بیویوں کے ساتھ خوش دیکھتی ہوں تو حسد محسوس ہونے لگتا ہے، جیسے وہ کسی اور کی اولاد ہوں اور ان کی خوشیوں کے محل میرے شوہر کی مرقد پر تعمیر کیے گئے ہوں ۔ ہر ویک اینڈ پر وہ اپنی اپنی بیویوں اور بچوں سمیت اس گھر میں آتے ہیں اور ایک رات یہاں گزارتے ہیں، ہم مل کر کھانا پکاتے اور کھاتے ہیں ، وہ ہنستے اور مجھے بھی ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں مگر میں نے اپنی شخصیت پر منفی رویے سے جو کیمو فلاج کر رکھا ہے، غم کا جو خول اپنے اوپر چڑھا لیا ہے اسے اتارنا نہیں چاہتی۔ میں کسی وجہ سے بھی خوش نہیں ہوتی کیونکہ میں خوش ہونا ہی نہیں چاہتی، دوسروںکی خوشیاں مجھے زہر لگتی ہیں، میں اتنا کڑھتی ہوں کہ میرے سینے میں جلن ہونے لگتی ہے، نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس۔ اللہ کے کسی احسان کو احسان نہیں مانتی کیونکہ اپنا ایک نقصان اس کے ہر احسان سے بڑا لگتا ہے۔ شکریہ کا لفظ منہ سے نکلتا ہے نہ شکر کا کلمہ، بچے مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں مگر مجھے اس سے کوئی خوشی نہیں ہوتی، وہ مجھے تحفے تحائف دیتے ہیں تو وہ کبھی پیکنگ سے ہی نہیں نکالتی اور نہ ہی ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں، کہتی ہوں تو صرف ایک فقرہ... '' اس کی ضرورت نہیں تھی مجھے!! '' وہ مجھے دیکھ کر رہ جاتے ہیں!!''
'' کیا واقعی؟ ایسا کیوں کرتی ہیں آپ؟ '' میںنے حیرت سے پوچھا ، میں تو اس طرح کے رویے کو برداشت ہی نہ کر سکوں... میں کیا کوئی بھی نہ کرسکے۔
'' اب میں سوچتی ہوں کہ میں نے زندگی کو غلط انداز سے بتایا اور غلط رویوں سے ساری خوشیوں کو قتل کر دیا ہے... لیکن اب میرے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے، مجھے سمجھ میںہی نہیں آتا کہ کس بہانے سے میں غم کا یہ چولا اتاروں اور کسی اور کے ساتھ نہیں تو کم از کم اپنے بچوں، بہوؤں اور ان کے بچوں کے ساتھ زندگی سے لطف اندوز ہوں ؟''
''آپ کے پاس خوش رہنے، مسکرانے اور ہنسنے اورکھلکھلانے کے لیے کئی جواز ہیں!! '' میں نے کہا، '' آپ کے پیاروں کو آپ کا یہ غم کا چولا قطعی پسند نہیں ہو گا، آپ جب بھی اسے اتاریں گی تو میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ وہ آپ کے ساتھ خوش ہوں گے، آپ کو خوشیوںمیں شریک پا کران کی خوشیوں میں اضافہ ہو گا!!''
آج اس کے دو سال کے بعد آپ نے مجھے ایک تصویر بھیجی ہے... میں کتنی ہی دیر تک تو پہچان نہیں سکی، ایک صحت مند، فربہی مائل خاتون، جس کے لب نہیں، آنکھیں بھی مسکرا رہی ہیں، اس کے گرد پانچ پیارے پیارے بچے گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، ان کے بازو ان کی گردن کے گرد حمائل ہیں، وہ سب بھی مسکرا رہے ہیں... تصویر کے نیچے لکھا ہے، '' اب بتاؤ، کیا خوشیاں کسی کو اسمارٹ رہنے دیتی ہیں ؟ ''
'' آپ اب پہلے سے زیادہ پیاری لگ رہی ہیں آپا!! '' میںنے انھیں جواب لکھا ہے، '' اللہ کی رحمتوں کے سائے میں ہر ایک پل سے لطف انداز ہوں !! ''
آپ میں سے کوئی ایسا تو نہیں کہ جسے غم پالنے کا شوق ہو اور اس نے اپنے اوپر زندگی کی ہر خوشی کے دروازے اور کھڑکیاں بند کر رکھی ہوں ؟؟ اگر ہے تو اپنے اس پالتو کو کھول کر گھر سے باہر نکال دیں، مسکرائیں کہ زندگی فقط ایک بار ملتی ہے!!