وقت کا سیل رواں
آج اپنی 74 ویں سالگرہ کے موقع پر گزری ہوئی زندگی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو بے اختیار سر اظہار شکر میں جھک جاتا ہے۔
گزشتہ 28 برسوں کی طرح اس بار بھی سالگرہ کی مبارک باد کا پہلا فون صبح سات بجے ممبئی انڈیا سے آیا اور دوسری طرف سے گلزار بھائی کی وہی محبت بھری اور خوبصورت آواز سنائی دی جو ان کی شخصیت کا آئینہ ہے۔ ان سے جب بھی بات ہوتی ہے زندگی کی کئی مثبت اقدار سے اٹھا ہوا ایمان پھر سے تازہ اور محکم ہو جاتا ہے کہ وہ بھی عقیدوں کی روایتی تفریق سے قطع نظر انسانیت کے رشتے کو باقی ہر چیز سے آگے اور عزیز تر رکھتے ہیں۔
گزشتہ کچھ برسوں سے ہماری گفتگو میں پاک بھارت تعلقات کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار ایک مستقل موضوع بنتا چلا جا رہا تھا کہ اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کی نئی نسلیں ایک دوسرے سے لاتعلق اور دور ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور بالخصوص پیشہ ور تجزیہ نگاروں کی جارحانہ روش کے باعث دونوں طرف سے الزام تراشی کی Blame Game کے شور شرابے میں ہر امن دوست اور انصاف پسند آواز دب جاتی تھی اور دلوں میں خوامخواہ کی گرہیں پڑتی چلی جاتی تھیں۔
رہی سہی کسر ہمارے سیاسی اکابرین پوری کر دیتے تھے کہ ان کی دکانوں میں بھی سب سے زیادہ اور ہر آسانی سے یہی مال بکتا ہے لیکن بہت دنوں کے بعد اس بار غار کے دوسرے کنارے پر روشنی کی صورت حال کچھ بہتر دکھائی دے رہی ہے۔ اللہ کرے کہ ہم اچھے ہمسایوں کی طرح مل جل کر اور پیار محبت سے رہنے کا طریقہ سیکھ لیں۔ لوگ آسانی سے ایک دوسرے سے مل سکیں اور ماضی کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنے کا رویہ باہمی احترام اور برابر کے حوالے سے نہ صرف اپنا سکیں بلکہ اس پر قائم بھی رہیں۔
سنگ میل پبلی کیشنز کے برادر عزیز افضال احمد نے اس سالگرہ کے حوالے سے میرا نیا شعری مجموعہ ''زندگی کے میلے میں'' اپنے مخصوص خوبصورت اور دیدہ زیب انداز میں شائع کر کے جو تحفہ دیا ہے اس کی خوشی اپنی جگہ لیکن فیس بک پر ہزاروں کی تعداد میں جس طرح سے احباب نے اس کے سرورق کی تعریف اور محبت کا اظہار کیا ہے اس سے دل کو بہت تسلی ہوتی ہے کہ فی الوقت گوناگوں مسائل کی وجہ سے کتاب، اردو کتاب اور بالخصوص شاعری کی کتاب خرید کر پڑھنے کا رواج تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے کہ آج کے قاری کے پاس اس تک پہنچنے کے ذرائع اس قدر زیادہ اور سہل الحصول ہو گئے ہیں کہ اب اس کی لائبریری کی وسعت موبائل فون کے ایک گوشے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے میں اتنی بڑی تعداد میں قارئین کا کسی کتاب کی اشاعت کو خوش آمدید کہنا بلاشبہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔
اتفاق سے سالگرہ کے اس سلسلے کی پہلی تقریب اصل تاریخ یعنی 4 اگست سے بھی ایک دن پہلے ہوگئی۔ تفصیل اجمال کی یہ ہے کہ برادر عزیز سعید میو خاص طور پر ٹورانٹو کینیڈا سے اپنی پارٹی پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالنے کے لیے پاکستان آئے تو حسب معمول ازراہ محبت مجھ سے ملاقات کا موقع بھی نکالا اور جب انھیں کتاب اور سالگرہ کا پتہ چلا تو بضد ہو گئے کہ وہ اپنی اور اپنی برادری کی طرف سے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کریں گے۔ میں نے انھیں بتایا کہ 1988ء کے (''ذرا پھر سے کہنا'' کی اشاعت کے وقت) سے میں نے اپنے کسی شعری مجموعے کی تقریب رونمائی وغیرہ نہیں کی حالانکہ اس دوران میں میرے گیارہ شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں اور نہ ہی میرا آئندہ احیا کرنے کا ارادہ ہے کہ میرے نزدیک یہ طریقہ اب اپنی عمر طبعی تقریباً مکمل کر چکا ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ سالگرہ کا کیک کاٹنے کی رسم تو اب بھی قائم اور جاری ہے۔ سو آپ اس کے بہانے آ جائیے۔
اب میرا مسئلہ یہ ہے کہ محبت کی دلیل کے آگے میری ساری دلیلیں ہتھیار ڈال دیتی ہیں۔ تقریب میں میو برادری کے سو سے زیادہ احباب جمع تھے جن میں سب سے آگے سعید میو اور ان کے عزیز چوہدری عبدالغفور تھے (جو گزشتہ حکومت میں صوبائی وزیر بھی رہے ہیں) لیکن ان کا اصل تعارف وہ سادگی، محبت اور خوشدگی ہے جس کی وجہ سے وہ آج بھی محبت اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ جہاں تک عزیزی سعید میو کا تعلق ہے وہ پی ٹی آئی کے اولین ممبران میں سے ہے اور اس نے اس تعلق کو میو برادری کی روایتی وفاداری اور جوش و جذبے کے ساتھ نبھایا ہے۔
مجھے اس بات کی مزید خوشی ہوئی کہ دونوں دوستوں نے میری سالگرہ کی مبارک باد کے ساتھ دس دن بعد آنے والی وطن عزیز کی 71 ویں سالگرہ کا بھی خصوصی ذکر کیا اور مل کر دعا بھی کہ رب کریم ہماری غلطیوں اور سختی کو معاف فرما دے اور اس ملک کو ترقی کے اس راستے پر ڈال دے جس کے لیے اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
آج اپنی 74 ویں سالگرہ کے موقع پر گزری ہوئی زندگی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو بے اختیار سر اظہار شکر میں جھک جاتا ہے کہ رب کریم کی عنایات اس سفر کے ہر موڑ پر میرے ساتھ ساتھ رہی ہیں۔ ایسے میں کوئی چار دہائیاں قبل کی کہی گئی ایک نظم ''سال گرہ'' پر نظر پڑی تو بہت دیر تک اس حیرت میں گم رہا کہ زندگی کس قدر تیزی سے بدلتی ہے اور انداز نظر کے بدلنے سے کیسے چیزوں کی جیسے کایا ہی پلٹ جاتی ہے۔
اس عمر کی جذباتی فضا میں تفکر کی آمیزش نے جس جگہ لاکھڑا کیا تھا اب اس کو دیکھیں تو یہ کسی اور کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ زندگی کی حقیقت کس طرح افسانے سے بھی زیادہ ناقابل یقین ہو جاتی اس کے مظاہر ہم سب کی داستان حیات میں اپنے اپنے رنگ میں نظر آتے ہیں۔ سو آئیے اس ایک مخصوص رنگ کو پھر سے دیکھتے ہیں جس میں نہ صرف سوال بلکہ ان کے بہت سے جوابات بھی بدل گئے ہیں۔
سال گرہ
برتھ ڈے کیک پہ جلتی ہوئی شمعوں کے بجھا دینے سے
کب بجھیں گے یہ شب و روز کے انگار، جنھیں
چھو نہ سکا، وقت کا سیل رواں
وقت کا سیل رواں جس کے خم و پیچ میں گم
ہم اور تم
ہم اور تم سے ہزاروں لاکھوں۔ گم سم
کون! کب! کون سی منزل پہ ملا
کس طرح بچھڑا، کہاں پر بچھڑا
کس کو فرصت ہے کرے ان کا حساب
اور اگر ہو بھی تو اس کام میں رکھا کیا ہے
آخر کار وہی سیل رواں ہوگا جواب
وقت کا سیل رواں
جس کے اس پار کہیں رکھی
گمشدہ عمر کے لمحوں کی کتاب
اور اس پار فقط، خواب ہی خواب
جو بھی رت آئے کھلا کرتے ہیں
تیری یادوں کے کنول، تیری جدائی کے گلاب