اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں
جمہوریت کا سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو بہت جلد ہم ایک خوشحال اورکامیاب ریاست کے امین کہلائے جائیں گے۔
اب تک تو جمہوریت کو ایک بہترین نظامِ حکومت گردانا جاتا تھا لیکن 2013ء کے انتخابات کے نتائج نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے اِس نعرے کی بالکل صحیح معنوں میں توثیق وتصدیق کردی کہ جمہوریت ہی ایک بہترین انتقام ہے۔پاکستان کو کرپشن کے دلدل میں ڈال کر اٹھارہ کروڑ عوام کو غربت و مفلسی کے اندھیروں میں غرق کرکے مزے اور عیش اُڑانے والوں کو اِس الیکشن میں ہمارے عوام نے ایسا سبق سکھایا ہے کہ وہ اب نعرے کو دہرانے سے بھی ڈرتے اورگھبراتے ہیں۔
اِس ملک کی روایتی سیاست اور عوام کے سابقہ اندازِ فکر کو دیکھتے ہوئے حکمراں پارٹی کے کرتا دھرتا یہ خیال کیا کرتے تھے کہ اِس ملک کے عوام ہماری تمام ناکامیوں اور بداعمالیوں کے باوجود ہمیں اُسی طرح ووٹ دیں گے جس طرح وہ گزشتہ پانچ سالوں تک تمام ضمنی الیکشنوں میں بھاری بھرکم مینڈیٹ سے ہمیں نوازتے رہے ہیں لیکن حالیہ الیکشن کے نتائج کے بعد اُن کی یہ ساری خوش فہمیاں دور ہو گئیں۔اُن کا مضبوط ووٹ بینک جو ہمیشہ ہر الیکشن میں اُن کا ساتھ نہیں چھوڑا کرتا تھا اِس بار اُنہیں خیر باد کہہ کر کسی اور کے بیلٹ باکس میں جا گرا ہے۔
سارے ملک کی اکژیت نے اُنہیں بتا دیا ہے کہ اب اگر تم نے اپنا طرز عمل نہیں بدلا تو مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں حالات اس سے زیادہ تمہارے خلاف جا سکتے ہیں ۔صرف صوبہ سندھ میں اُنہیں جو کامیابی ملی ہے اُس میں اکثریت اُن وڈیروں اور جاگیرداروں ہی کی ہے جن کے آگے غریب کسان، ہاری ،کاشتکار اور مزدور اگر اُسے اپنے علاقے میں رہنا ہے تو وہ بالکل چوں چرا نہیں کر سکتا۔اُس کے پاس اِس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں تھاکہ وہ ایک بار پھر اُنہیں وڈیروں کو اپنا رہبر و رہنما مان لیں جنہوں نے65سالوں سے اُنہیں مفلسی اور غربت کے علاوہ کچھ نہ دیا۔
2013ء کے الیکشن کے نتائج اِس لحاظ سے بڑے خوش آیند اور حوصلہ افزاء ہیں کہ پہلی بار ہمارے عوام نے اپنی سوچ اور فکر تبدیل کرتے ہوئے عوام کی خدمت نہ کرنے والوں کو یکسر مسترد کر کے رکھ دیا ۔ یہی جمہوریت کا وہ ثمر ہے جو رفتہ رفتہ ہمارے حالات میں ایک خود بخود خوش رنگ تبدیلی کا باعث بن رہا ہے۔ جمہوریت کا تسلسل ہی ہماری مشکلات اور تکالیف کا حل ہے۔ لوگوں میں شعور،بصیرت اور روشن خیالی اِسی کے تسلسل میں پنہاں ہے۔ اب یہاں جو عوام کی خدمت خلوصِ نیت اور ایمانداری سے کرے گا وہی کامیاب و کامران ہوگا۔
جمہوریت کا سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو بہت جلد ہم ایک خوشحال اورکامیاب ریاست کے امین کہلائے جائیں گے۔ گزشتہ پانچ سال تک جنہوں نے اِس ملک کو کچھ نہ دیا صرف کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم رکھا وہ آج ناکام ٹھہرائے گئے ہیں۔اُن کی مفاہمتی پالیسی نے اِس ملک کے عوام کو کچھ نہ دیا۔ جس مفاہمتی پالیسی کو وہ اپنی حکمت عملی سمجھا کرتے تھے وہ صرف اقتدارکو قائم و دائم ر کھنے کی غرض سے ترتیب دی گئی تھی ۔ عوامی مفاد ہرگز مقصود و مطلوب نہیں تھا۔اُن کے تمام اتحادی صرف مال بناتے رہے۔ کراچی پانچ سال تک خون میں نہاتا رہا اور وہ ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی کرتے رہے اور مفاہمت بھی قائم و دائم رہی۔روز لڑتے بھی رہے اور مال ِ غنیمت پر شیرو شکم بھی ہوتے رہے۔
بلوچستان کا وزیرِ اعلیٰ ایک ایسے شخص کو بنایا گیا جو معاملات پر صحیح طور پر توجہ نہ دے سکا۔ صوبہ بموں کے دھماکوں سے لرز تا رہا اور وہ مضحکہ خیز گفتگو میں ہی مگن رہا۔ لوگ مرتے رہے اور وہ چین کی بانسری بجاتا رہا۔ صوبہ خیبر پختون خواہ جس کے نام کی تبدیلی کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جاتا رہا وہاں کا حال بھی بلوچستان سے قطعی مختلف تھا۔ وہاں کی حکمراں پارٹی نے اپنے نظریئے اور منشور کو پسِ پشت ڈال کر بہتی گنگا میں جو اشنان کیا اُس کی سزا وہاں کے عوام نے اُسے دے دی ہے۔ اب چاہے بیگم نسیم ولی کسی کو بھی اِس کا ذمے دار قرار دیتی رہیں لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا، جب اے این پی کے رہنما پارٹی کی دیرینہ سیاست کو خیرباد کہتے ہوئے ایوانِ صدر سے رشتہ ِ مال و اسباب بناتے رہے۔
قوم کو وہ دن بھی اچھی طرح یاد ہے جب صدرِ مملکت کا انتخاب ہو رہا تھا اور صوبہِ سرحد کے ارکانِ اسمبلی دِکھا دِکھا کر ووٹ ڈالتے ہوئے اپنا وعدہِ وفا نبھا رہے تھے۔صوبہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے پورے دورِ اقتدار میں جو رویہ اپنائے رکھا اُس کا حساب کتاب وہاں کے عوام نے بخوبی کر دیا ہے۔ جنوبی پنجاب کا شوشہ چھوڑکر یہ سمجھا گیا تھا کہ وہ اِس طرح مسلم لیگ (ن) کے لیے کچھ مشکلات پیدا کر سکیںگے لیکن یہاں بھی اُن کی تدبیر اُلٹی ہوگئی اور جنوبی پنجاب کے عوام نے اپنے اصل خیر خواہ کے حق میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ یہ وہ سیاسی مکرو فریب اور دھوکا دہی کی چالوں میں ہرگز نہیں آئیں گے ۔جناب منظور وٹو کو پارٹی کی قیادت کا سونپنا اور مخدوم احمد محمود کو گورنر کے طور پر نامزد کرنا بھی کچھ کام نہ آیا۔ پنجاب کو پیپلز پارٹی کا قلعہ بنانے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام بڑے برج اُلٹ کر رہ گئے۔صدرِ مملکت کی کامیاب سیاست جس کے جناب شیخ رشید بہت معترف تھے کوئی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔ تمام چالیں اور حکمت ِ عملی دھری کی دھری رہ گئیںاور صوبہ پنجاب سے پارٹی کو شکست ہو گئی جو اِس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔
الیکشن کے نتائج سے ایک بات تو یہ ثابت ہو چکی ہے کہ ہمارے عوام میں اب اپنے اچھے اور بُرے کی تمیز پیدا ہوچکی ہے۔ وہ تمام تر پروپیگنڈے اور الزام تراشیوں کے باوجود زمینی حقائق کو جاننے اور پہچاننے کا شعور رکھتے ہیں۔ اُنہیں معلوم ہے کہ کس نے اُن کے علاقے میں ترقیاتی کام کیے ہیں ۔ کِس نے جانفشانی اور تندہی سے اپنا فرض ادا کیا ہے اور کِس نے قومی دولت سے اپنے ذاتی خزانے بھرے ہیں۔جمہوریت کے اِسی تسلسل کے سبب ہم ایک صاف اورشفاف قیادت کے چناؤ کی طرف ایک قدم آگے بڑھے ہیں ۔ دونوں سابق وزراء اعظم جناب یوسف رضاگیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی شکست بھی عوامی سوچ میں تبدیلی کی ایک دلیل ہے۔ جمہوریت کو ایک بہترین انتقام کا نعرہ دینے والے آج خود اُسی عوامی انتقام کا شکار ہو چکے ہیں ۔