جمائمہ کی عمران کو جیت کی مبارک

عمران خان اسٹیٹس کو کے لیے خطرہ ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نیچے سے اوپر ہر شخص کرپشن میں لتھڑا ہوا ہے


Zamrad Naqvi August 06, 2018
www.facebook.com/shah Naqvi

KARACHI: عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ نے انتخابات میں جیت پر عمران خان کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ بائیس برس بعد اتنی کردار کشی' رکاوٹوں اور قربانیوں کے بعد میرے بیٹوں کا باپ پاکستان کا نیا وزیراعظم ہے۔ یہ ثابت قدمی یقیناً شکست ماننے سے انکار کا ثمر ہے۔ اب چیلنج یہ یاد رکھنا ہے کہ آپ نے سیاست میں قدم کیوں رکھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس بات کی تصحیح کرنے دیں کہ عمران نے موجودہ کامیابی 22 سال کے بعد نہیں 26 سال کے بعد حاصل کی ہے۔ ان کی موجودہ کامیابی کی بنیاد ورلڈ کپ کی جیت سے بنی۔ اگر ان کی کپتانی میں ہماری کرکٹ ٹیم ورلڈکپ نہ جیتتی تو ہیرو کا درجہ نہ پاتے۔ جہاں جمائما نے عمران کی ثابت قدمی کی بات کی ہے تو وہ تو حیران کن ناقابل یقین ہے۔ مسلسل شکست کھانا پھر بھی حوصلہ نہ ہارنا۔ ایک عام آدمی تو پہلی شکست پر ہی حوصلہ ہار دیتا ہے۔ لاہور مینار پاکستان پر 2010ء میں تاریخ ساز اجتماع کے بعد 2013ء کے الیکشن میں ان کی کامیابی یقینی تھی۔ اس الیکشن سے عین پہلے عمران خان اسٹیج سے گر کر زخمی ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی وہ الیکشن ہار گئے۔

عمران خان اسٹیٹس کو کے لیے خطرہ ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نیچے سے اوپر ہر شخص کرپشن میں لتھڑا ہوا ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ عمران خان پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ اقربا پروری نہیں۔ اقربا پروری تو ایسی بیماری ہے جو پوری قوم کو لاحق ہے۔ اس میں تو بڑے بڑے پارسا بھی اس (گندگی) میں پورے طرح ڈوبے ہوئے ہیں۔ پارٹی ٹکٹوں کے موقع پر خواتین کی مخصوص نشستیں گھر کی خواتین میں ریوڑی کی طرح بانٹی گئیں۔ نام کیا لینا عوام بخوبی واقف ہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ عمران نے پارٹی ٹکٹ اپنے خاندان میں بانٹا۔ ہمیں ایسا ہی لیڈر چاہیے جو اپنی ذات اور خاندان سے بالاتر ہو۔ بحیثیت قوم ہم بہت ہی بدقسمت نکلے۔ کرپشن تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن گئی۔ جمہوریت کے نام پر بادشاہت یا آمریت دیکھنے کو ملی۔ کیونکہ احتساب نہیں تھا۔ زندہ با ضمیر قومیں کیسی ہوتی ہیں اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہمارے ہمسایہ ملک چین میں صرف 15 لاکھ سے زائد کرپشن کرنے والے کو پھانسی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مال جائیداد ضبط۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پندرہ لاکھ سے کم کرپشن کرنے والے کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں۔

انھیں عمر قید' مال جائیداد ضبط کے علاوہ ان کے بیوی بچوں کو کڑی سزا دی جاتی ہے کہ انھوںنے عوام کے مال پر عیش کیے۔ ابھی چند دن پہلے چین سے خبر آئی ہے کہ انھوںنے 36000 سے زائد لوگوں کو اس بات پر سزائیں دیں کہ انھوںنے عوام ی سرکاری خزانے کا پیسہ سرکاری گاڑیوں کا استعمال' چائے اور دوسرے لوازمات پر خرچ کیے۔ ان میں سے عام سرکاری اہلکار افسر سے لے کر وزیر کی سطح کے لوگ شامل تھے۔کیا ہمارے ملک میں ان چیزوں پر سزا مل سکتی ہے۔ کرپشن بحیثیت قوم ہمارے خون میں شامل ہو چکی ہے۔ اسی لیے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ ہمارا ملک میں روزانہ دس ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ چھوٹے اہلکار سے لے کر بڑا ا ہلکار وزیر کی سطح پر بیشتر کرپشن کر رہے ہیں۔ اس کرپشن کا بڑا حصہ ان اہلکاروں کے گھروں میں جاتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ ان اہلکاروں کے اہل خانہ نے ان کرپشن کے ذمے داروں کا بائیکاٹ کیا ہو۔ سالانہ چار سے پانچ ہزار ارب کی کرپشن پھر عوام فاقے نہ کرے تو کیا کرے۔ بیروز گاری، غربت، مہنگائی، بیماری، جہالت اس کا مقدر نہ ہو تو کیا ہو۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن۔ قانون کا یکساں نفاذ چاہے کوئی امیر ہو یا غریب کمزور ہو یا طاقتور میرٹ کا نفاذ اور سادہ طرز زندگی ہے حکمرانوں سے لے کر اعلیٰ تین عہدہ داروں کا۔ اگر عمران نے اپنے وعدوں میں سے آدھے بھی پورے کر دیے۔

جمائمہ اور عمران کی شادی کی تصویریں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کاش یہ شادی ختم نہ ہوتی لیکن برا ہو دنیا کی ہوس کا جس نے یہ شادی ختم کرائی۔ ایک خوفناک پروپیگنڈا تھا۔ انھوںنے ہی یہ شادی ختم کرائی جنہوں نے بینظیر اور نصرت بھٹو کی نازیبا تصاویر کے اسکینڈل بنائے۔ آج کی نئی نسل تو اس معاملے سے بالکل بے خبر ہے۔ جب کہ پرانی نسل کی یاد داشت کمزور ہے۔ انتخابات ہو گئے اب دھاندلی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ میںنے کچھ عرصہ پہلے اس کالم میں لکھا تھا کہ اس ملک میں کچھ بھی نیا نہیں ہو رہا وہی ہو رہا ہے جو پچھلے 70 سال سے ہو رہا ہے۔ آدھا سچ جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتاہے۔ اگر قوم سے آدھا سچ بولا جائے آدھا چھپا لیا جائے تو اس سے بڑی قوم کے ساتھ دشمنی اور سازش ہو نہیں سکتی۔ ماضی میں ایسی ایسی دھاندلیاں ہوئیں کہ اگر وہ سب عوام کے علم میں آ جائیں تو قوم اپنا ہوش کھو بیٹھے۔ 1988ء کے الیکشن میں پہلی مرتبہ ہوا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے درمیان کئی دنوں کا وقفہ تھا۔ ورنہ ووٹر قومی صوبائی اسمبلیوں کے ووٹ ایک ہی ووقت میں ڈالتا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کو پنجاب میں برسراقتدار آنے سے روکا گیا۔ الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے بعد بینظیر لوگوں سے پوچھتی پھرتی تھیں کہ ہم تو جیت رہے تھے ہار کیسے گئے۔

آج دھاندلی کا شور مچانے والے عوام کے سامنے پورا سچ رکھیں۔ اگر ان کے خیال میں دھاندلی ہوئی ہے تو اس سے بھی بدترین دھاندلیاں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ اگر آج قیامت آئی ہے تو ماضی میں اس سے بھی بڑی قیامتیں گزر چکی ہیں۔ عوام سے بددیانتی نہ کریں۔ پورا سچ سامنے رکھیں۔

اگست کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں بیگم کلثوم نواز کی صحت میں بہتری کا امکان ہے۔

6 سے 10 اگست کے درمیان بارش کا امکان ہے۔

سیاسی حوالے سے 5 سے 8 اگست اہم تاریخیں ہیں۔

سیل فون 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں