پی ٹی آئی اور ایم کیوایم معاہدہ
نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ رہائش جیسے اہم مسئلے پر بھی خصوصی توجہ دے
راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں کراچی کے مسائل کے حوالے سے پی ٹی آئی کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی کہ کون کون سے اہم مسائل یہاں موجود ہیں، جنھیں ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے، ان میں حیدرآباد شہر میں ایک یونیورسٹی کے قیام، خیبرپختونخوا کی طرح یہاں بھی اصلاحات اور مالی پیکیج کی ضرورت جیسے مسائل کو بھی بیان کیا گیا تھا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ آج جس وقت یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی میں عوامی مسائل کے حل کے لیے ایک معاہدہ تحریری طور پر منظر عام پر آچکا ہے، اس میں حیدرآباد شہر میں ایک یونیورسٹی کا قیام اور کراچی کے لیے پیکیج دینے کی بات بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ آبادی کے درست اعدادو شمار کے سلسلے میں بھی کوششیں کرنے کی یقین دہانیاں اچھی پیش رفت ہے، کیونکہ کراچی کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ یہاں کی آبادی کم ہی ظاہر کی جاتی رہی ہے، جس کے سبب مناسب منصوبہ بندی نہیں ہوسکی اور فنڈ بھی مناسب طور پر نہیں مل سکے، جس سے مسائل میں مزید اضافہ ہوا۔
بہرکیف راقم کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ ایک اچھی ابتدا ہے کہ کم ازکم اہم مسائل پر توجہ دی گئی اور انھیں حل کرنے کے لیے تحریری معاہدے میں جگہ بھی دی گئی، قوی امید ہے کہ بڑی حد تک ان پر عمل بھی ہوگا۔ اس شہر کے مسائل کے ضمن میں مزید عرض ہے کہ یہاں پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ 'جامعہ کراچی' بھی موجود ہے، مگر جس طرح شہر کو ماضی میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اسی طرح جامعہ کراچی کو بھی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، حد تو یہ ہے کہ سندھ کی دیگر ان جامعات کو جامعہ کراچی سے زیادہ گرانٹ دی جارہی ہے، جہاں زیر تعلیم طلبا کی تعداد جامعہ کراچی کے طلبا کی تعداد کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے۔ یوں جامعہ کراچی کو اس قدر نظر انداز کیا گیا کہ آج ہر ماہ جامعہ کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے رقم کا بندوبست کرنا ہی دشوار ہوجاتا ہے، انتظار کیا جاتا ہے کہ کب طلبا کی فیسیں جمع ہوں، اور پھر اس رقم سے تنخواہیں ادا کی جائیں، اس مالی بحران کے سبب ان اساتذہ اور ملازمین کو (جنھوں نے ساری زندگی اس جامعہ کراچی کی خدمت کی اور مستقبل کے معمار تیار کیے) کئی کئی ماہ پنشن بھی نہیں ملتی۔
طلبا کا یہ حال ہے کہ ان کے سفر کے لیے معقول تعداد میں پوائنٹس ہی دستیاب نہیں ہوتے، بڑی تعداد پبلک ٹرانسپورٹ میں روزانہ دھکے کھا کر کلاسوں تک پہنچتی ہے۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ ملکی ترقی کے لیے سائنس کے میدان میں آگے بڑھنے اور اعلیٰ معیار کی ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے مگر ملک کی اس سب سے بڑی جامعہ میں تو طلبا کو پریکٹیکل کرنے کے لیے چھوٹا موٹا سامان بھی دستیاب نہیں ہوتا، بعض طلبا خود اپنی جیب سے خرید کر لاتے ہیں۔ تعلیم اور تعلیم دینے والے اساتذہ کو یہاں کس قدر نظر انداز کیا جاتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً تمام ہی سرکاری اداروں کے ملازمین کو حکومت کی جانب سے پلاٹ مل چکے ہیں، جب کہ جامعہ کراچی اس سے محروم ہے۔ کرائے کے گھر میں رہنے والے اساتذہ کی تنخواہوں کی ایک بڑی رقم ماہانہ کرایوں میں چلی جاتی ہے، اس شہر میں دو بیڈ روم اور ایک ڈرائنگ روم پر مشتمل پورشن والے مکان کا کرایہ بھی تیس پینتیس ہزار سے کم نہیں۔
نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ رہائش جیسے اہم مسئلے پر بھی خصوصی توجہ دے، کیونکہ شہر میں اس قدر کرائے بڑھ چکے ہیں کہ ایک ملازمت پیشہ فرد کی ہر ماہ آدھی تنخواہ اس کی نذر ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں راقم نے کئی مرتبہ کالم بھی لکھے ہیں، ایم کیو ایم کی ایک سابق ایم این اے کشور زہرہ نے اس ضمن میں راقم کی تجاویز کو مدنظر رکھ کر ایک بل بھی اسمبلی میں جمع کرایا تھا اور اس کی کچھ تفصیل بھی راقم کو بھیجی تھی، اگر ایم کیو ایم کے نو منتخب اراکین اور پی ٹی آئی مل کر اس مسئلے کے حل کے لیے کوشش کریں تو یہ عوام کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد مکانات کے تیزی سے بڑھتے ہوئے کرایوں سے پریشان ہے، لینڈ اور بلڈرز مافیاؤں کی من مانیوں کے باعث شہر میں زمینوں کی قیمتیں حالیہ چند برسوں میں کئی سو گنا بڑھی ہیں اور اس کے نتیجے میں مکانات کے کرائے بھی تیزی سے بڑھے ہیں۔ اخبارات میں مختلف رہائشی منصوبوں کے جتنی تعداد میں اشتہارات دیکھنے میں آ رہے ہیں، پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے، اس کے باوجود قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے حالانکہ جب مارکیٹ میں مقابلہ بڑھتا ہے تو عموماً اشیائے فروخت کی قیمتوں میں کمی آجاتی ہے مگر حیرت انگیز طور پر شہر میں پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، یہاں تک کہ ایسے ویرانے اور جنگل کی زمین جس کی قدر کوڑیوں سے زائد نہ ہوگی، بلڈرز نے عوام کو کروڑوں میں فروخت کی اور یہی عمل اب بھی جاری ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ جب ہم کہتے ہیں کہ 'تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے' تو پھر اس کا عملی مظاہرہ بھی ہونا چاہیے اور نئی حکومت کو چاہیے کہ اس کھیل کو بند کرے۔ جب یہ ملک اس ملک کے عوام کا ہے تو پھر یہ زمین بھی عوام کی ہے اور عوام کو ہی ملنی چاہیے اور اس کے لیے حکومتی سطح پر ایک دو نہیں کئی قسم کی اسکیموں کا اجرا ہونا چاہیے۔
سرکاری ملازمین کے لیے الگ اسیکم بنائی جائے، عام لوگوں کے لیے بھی مختلف اسکیموں کا اعلان کیا جائے اور بالکل غریب لوگوں کے لیے بھی اسکیمیں متعارف کرانی چاہئیں، کیونکہ مکان ہر اس غریب کا بھی حق ہے جو زمین خریدنے کے لیے کوئی پیسہ نہیں رکھتا۔ ذاتی رہائش ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس حق سے محرومی کے نتیجے میں ہر فرد کی آدھی کمائی تو ماہانہ کرائے کی نذر ہو جاتی ہے، اگر ذاتی رہائش مل جائے تو بے شمار گھرانے غربت کی لکیر سے اوپر بھی آسکتے ہیں اور ان کا ماہانہ گزارا بہتر ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور اہم مسئلہ پاکستان اسٹیل ملز کا ہے، جس سے 25 ہزار گھرانوں کا رزق وابستہ ہے مگر افسوس انھیں تنخواہوں کی ادائیگی چار، چار ماہ بعد ہوتی ہے، جب کہ حکومتی اعلان کردہ اضافی تنخواہ تو ان کو ملتی ہی نہیں ہے، یہ مسئلہ فوری طور پر حل طلب ہے، کسی کو احساس نہیں کہ شہر کہ یہ پچیس ہزار گھرانے چار، چار ماہ اپنے گھر کا چولہا کیسے جلاتے ہوں گے؟
ہم توقع کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے کراچی پیکیج میں رہائش سے متعلق اس اہم ترین مسئلے کو بھی سامنے رکھے گی اور ایسے منصوبے پیش کرے گی کہ جس سے کرائے دار، بے گھر لوگوں کا ذاتی رہائش کا خواب بھی پورا ہوگا۔ اس قدر کرپشن کے باوجود یہاں ابھی بھی اتنی زمین موجود ہے کہ تمام بے گھر لوگوں کے لیے بڑے بڑے منصوبے بنائے جاسکیں۔ نیز یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ (عمران خان جو اپنی تقریروں میں بار بار یہ بات کہتے رہے ہیں کہ دنیا کے کسی ملک نے تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کی اور وہ اقتدار میں آکر تعلیم کے لیے سب سے زیادہ رقم مختص کریں گے)، کراچی شہر میں موجود اس ملک کی سب سے بڑی جامعہ 'جامعہ کراچی' کو نہ صرف ایک بڑا مالی پیکیج دیں گے بلکہ اس کی گرانٹ میں اضافے کے لیے بھی عملی کوششیں کریں گے۔