عمران خان کو چند مفید مشورے
عمران خان کی پی ٹی آئی کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ان کی مقبولیت ہے
موجودہ انتخابات سابقہ انتخابات سے بہت مختلف رہے ہیں، انتخابات کے نتائج غیر متوقع نہیں تھے، سوائے اس کے کہ کچھ شخصیات جنھیں جیتنا تھا وہ ہار گئیں اور کچھ شخصیات جنھیں ہارنا تھا وہ جیت گئیں۔ اس انتخاب میں سب سے زیادہ مثبت بات یہ تھی کہ عوام کا رحجان اس دفعہ نہ مذہب کی بنیاد پر تھا، نہ لسانیت کی بنیاد پر، نہ علاقائیت کی بنیاد پر، بلکہ دیکھا جائے تو جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق، جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی شکست کا مطلب یہ ہے کہ عوام سیاست میں مذہب کا نام استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی اور غلام بلور وغیرہ کی شکست بھی لسانیت، پختون قومیت کے کارڈ کو عوام نے رد کردیا۔ اس طرح پشتون قومیت کے پرچار کرنے والے اچکزئی کو بھی عوام نے رد کردیا اور مسلم لیگ نواز کے کارڈ کو بھی پذیرائی نہ ملی۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس بار پارلیمنٹ میں اعتدال پسند لوگ آئے ہیں۔ ایم کیو ایم کی شکست ان کے ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے ہوئی اور یہ ہی سبب پی ایس پی کا بھی ہے اور حقیقی کا بھی۔ عوام نے اس طرح کی تقسیم کو بالکل بھی قبول نہ کیا، اگر مستقبل قریب میں ان لوگوں نے متحد ہوکر سیاست نہ کی تو ان کا نام ونشان بھی نہ رہے گا۔
عمران خان کی پی ٹی آئی کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ان کی مقبولیت ہے۔ بحیثیت کرکٹر وہ پاکستان، ہندوستان، انگلینڈ، سری لنکا اور بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں بہت مقبول رہے ہیں، اس لیے کم ازکم پچاس فیصد ووٹ تو انھیں اسی مقبولیت کی بنیاد پر ملے ہیں، دوسرا انھوں نے اپنا پروگرام عوام میں بہترین انداز میں پیش کیا، جسے عوام نے دل سے قبول کیا، ان کی تقریر میں بھی قول وفعل کا فرق نظر نہ آیا اور انھوں نے پاکستان کی معاشی بدحالی کا سبب بدعنوانی کو قرار دیا، جو ایک حقیقیت ہے، جس میں نوے فیصد سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور ان کے اردگرد کے رفقا ملوث رہے، جس میں نوازشریف اور اسحاق ڈار کے خاندان پر الزامات سامنے آئے، اس طرح پی پی پی جب تک ذوالفقار علی بھٹو سے بے نظیر بھٹو تک ان کی قیادت میں رہی کوئی بدعنوانی کا الزام ان پر نہیں آیا، مگر جب سے پی پی پی کی قیادت آصف زرداری کے پاس آئی تو بدعنوانی کے الزامات کی بھرمار ہوگئی۔
حالانکہ پی پی پی پاکستان کی واحد جماعت ہے جس میں جمہوری سوچ کے حامل سمجھدار رہنما کثیر تعداد میں موجود ہیں، جن کی اکثریت پنجاب میں بھی تھی، لیکن آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی اتنی ناقص تھی کہ بے نظیر بھٹو کی 2007 میں شہادت کے باوجود پنجاب سے وہ حمایت پی پی پی کو نہیں ملی جو حقیقتاً ملنی چاہیے تھی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ آصف زرداری کو ملک کی صدارت کے بجائے پنجاب میں پی پی پی کی تنظیم کو سنبھالنا چاہیے تھا، کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی کی بنیاد نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کے گھر پر کی تھی اور بھٹو جب ایوب خان کی کابینہ سے فارغ ہوئے اور راولپنڈی سے ٹرین میں لاہور آئے تو اس دوران ان کا زبردست استقبال ہوا، جہاں سے پی پی پی کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ اس طرح محمد خان جونیجو کے زمانے میں بے نظیر بھٹو کا استقبال20 سے 25 لاکھ لوگوں نے کیا، جب کہ اس وقت لاہور کی آبادی 35 لاکھ تھی مگر پی پی پی کا سیاسی گراف آصف زرداری کی وجہ سے مسلسل گرتا چلا گیا، کشمیر میں حکومت ختم ہوگئی اور پنجاب میں 2013 اور 2018 میں صفایا ہوگیا اور پی پی پی کو سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مزارات کے عقیدت مندوں نے پی پی پی کو سندھ میں حکومت بنانے کا آخری موقع دیدیا ہے۔
2018 کے عام انتخابات کو خوشدلی سے قبول کیا جائے اور جو بھی نتیجہ سامنے آیا ہے جس میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور پی پی پی اکثریتی سیٹیں لے کر پارلیمنٹ میں گئی ہیں، یہ نتیجہ غیر متوقع نہیں ہے۔ ہاں کچھ اہم لوگ بہت کم ووٹوں کے فرق سے ہار گئے، ان کا حق یہ ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کریں، لیکن کچھ مذہبی اور لسانی شخصیات جو شکست خوردہ ہیں جنھیں ہارنے سے زیادہ اپنے احتساب کا خوف ہے، وہ ملک میں افراتفری اور ایجی ٹیشن کی سیاست کرنا چاہتی ہیں جو اس لیے ناکام ہوجائیں گی کہ مسلم لیگ نواز اور پی پی پی نے قومی اور صوبائی اسمبلی میں اتنی نسشتیں حاصل کرلی ہیں کہ وہ ایک مضبوط سیاست کرسکتی ہیں، اس لیے وہ کبھی ایجی ٹیشن کی سیاست کی طرف نہیں جائیں گی اور نہ ہی جانا چاہیے۔ عمران خان کو جو وزارت عظمیٰ ملنے والی ہے وہ کسی صورت بھی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ انھوں نے سو دن کا جو پروگرام دیا ہے لوگ بے چینی سے اس پر عمل کے منتظر ہیں۔
اس ملک میں پیداوار، درآمد و برامدآت میں توازن لانا ضروری ہے، من مانی قیمتوں کا اضافہ بھی روکنا ہے، اور بڑے شہروں کا انفرااسٹرکچر درست کرنا ہے۔ اسمبلی میں سب سے اہم شہر قائد ہے، یعنی کراچی، جہاں صفائی کے نظام اور نکاسی آب اور پینے کا پانی، سڑکوں کی خستہ حالی، ٹرانسپورٹ کی کمی بڑا مسئلہ ہے، جہاں گرین لائن کا منصوبہ ہو یا پانی کے ذخائر کا، دونوں وفاقی حکومت کو جلد از جلد مکمل کرنے ہیں۔ امید ہے عمران خان ہر شہر کے سیاستدانوں کو ساتھ لے کر چلیں گے اور سندھ میں گورنر کا عہدہ کسی اردو بولنے والے کو دے کر روایت کو برقرار رکھیں گے۔ اگر عمران خان پی ٹی آئی کے علاقائی مر کز کو عوامی فلاح کا ادارہ قرار دے دیں جہاں کے مکین اپنے مسائل کے لیے پی ٹی آئی کے محلے میں بنے ہوئے دفتر سے رجوع کریں اور اس دوران لوگوں کے کام ہوتے ہوئے نظر آئیں، اس طرح پی ٹی آئی کے تمام جوان قیادت کارکن مصروف ہوکر ملک اور قوم کی خدمت کرکے اپنے قائد عمران خان کے ہاتھ مضبوط کریں گے، اس کے علاوہ ہمارا عمران خان کو ایک مشورہ ہے کہ وہ عمرہ تو پہلے بھی ادا کرچکے ہیں اب جب ایران جائیں تو روضہ امام علی رضا اور عراق کربلا جاکر روضہ امام علی اور امام حسینؓ کے روضہ پر حاضری دیں، کیونکہ وہ پاکستان میں بری امام کے مزار پر جاچکے ہیں، اس لیے کربلا نجف، مشہد کی زیارت سے دنیا میں اعتدال پسندی کا پیغام جائے گا۔