نئی سوچ

پہلی بار بہتری کی طرف گامزن ہونے کی اُمید پیدا ہوئی ہے اور یہ اُمید ہی سب کچھ ہے


راؤ منظر حیات August 08, 2018
[email protected]

شخصیت پرستی مکمل طورپرہمارے معاشرے کو گرفت میں لے چکی ہے۔ہرشعبہ میں ایک عجیب طرح کی یکسانیت ہے۔ساتھ ساتھ خوداعتمادی کی کمی اورتوہم پرستی،گھن کی طرح ہمیں کھاچکی ہے۔مانتاکوئی نہیں۔ مگر عملی طورپرزمینی خداؤں کی پرستش کاکام بھرپورطریقے سے جاری ہے۔کسی بھی تعطل کے بغیر،مسلسل!

برصغیردنیاکے ان بدقسمت خطوں میں ہے جہاں معاشرتی کمزوریوں نے دیو بنکرپورے علاقے کونگل لیا ہے۔اگرہندوؤں کی مقدس اشلوک پڑھیں توان میں تو طویل سفرکوبھی ہرطریقے سے تقریباًممنوع قراردیا گیا ہے۔ہماراانقلابی مذہب جب برصغیرپہنچاتوجنوبی برصغیر میں مسلمان تاجروں کے غیرمتعصب اوراعلیٰ کاروباری رواج کودیکھ کرخطے میں اسلام نے جڑپکڑی۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ برصغیرمیں ترک غلاموں اوروسطی ایشیاء میں ہارکریہاں آنے والے مغل صدیوں حکومت کرتے رہے۔مگرتکلیف دہ اَمریہ ہے کہ علاقے کے رسم ورواج اورروایات آہستہ آہستہ ان تمام لوگوں پر حاوی ہوگئیں۔

جدیدتعلیم سے نفرت،تحقیق سے مکمل بیزاری اور دلیل پرمبنی رویے سے مکمل اجتناب نے ہمیں صدیوں پرانی جہالت کی غارمیں پھینک دیاجہاں گھپ اندھیرا تھا۔سرسیدوہ پہلے شخص تھے،جنہوں نے اس سقم کو پہچانا اورکمال محنت سے مسلمانوں میں جدیدتعلیم کاشعور بیدار کیا۔ ان کی حددرجہ مخالفت کی گئی۔تضحیک کی گئی۔ انکاہرجگہ مذاق اُڑایاگیا۔مگرسرسید،علی گڑھ میں وہ بیج بوگئے جس سے ہزاروں مسلمان لڑکے اورلڑکیاں، شعور کی جدیدسطح پرپہنچ گئے۔

سرسیدکومغربی دنیا کا ایجنٹ، کافر اور غیرمسلم قراردیاگیا۔قیامت یہ ہوئی کہ برصغیر کے سب سے بڑے مذہبی مدارس نے جدیدرویوں کو کمتر قرار دیدیا۔ خیر،بالکل یہی مخالفت محمدعلی جناح کی بھی ہوئی۔ان پر ہندوتوتنقیدکرتے ہی تھے۔مگرانھیں سب سے زیادہ دشنام درازوں،مسلمانوں سے جھیلنی پڑی۔ ان کی ذات پر مذہبی حلقوں کی طرف سے ہر رکیک حملہ کیا گیا۔انھیں کافرقراردیدیاگیا۔ مغربی قوتوں کانمایندہ کہاگیا۔مگروہ عظیم شخص پاکستان بنانے میں کامیاب ہوگیا۔سب سے مشکل اَمریہ تھا کہ وہ تمام مذہبی علماء جوملک کی شدیدترین مخالفت کرتے تھے،خاموشی سے نئے ملک میں آگئے۔

نیاملک جوکہ غالب طورپرمسلمانوں کاتھا،ان مذہبی جماعتوں نے انھیں مزیدمسلمان بناناشروع کر دیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ انھوں نے قوم بنانے کے بجائے معاشرے میں فرقہ پرستی، ایک دوسرے سے نفرت اور عام لوگوں کے ذہن کو منتشرکر ڈالا۔ اب کچھ لوگ اچھے مسلمان بن گئے۔ظاہری حلیہ کو مذہب سے منسلک کر دیا گیا۔یہ تقسیم کسی نہ کسی طرح آج تک ہمیں مغلوب کر رہی ہے۔پیری فقیری،توہم پرستی نے جکڑکرکھاہواہے اورہمیں مکمل طورپر منجمد کر ڈالاہے۔مگردویاتین دہائیوں سے سوسائٹی میں ایک تغیرآچکاہے۔نوجوان نسل کی اکثریت دینی شعار پابندی سے اداکرتی ہے مگرذہنی طورپرمکمل آزاد خیال ہے۔صرف پاکستان نہیں۔تمام اسلامی ممالک میں بالکل ایک جیساحال ہے۔اس تبدیلی کوکم ازکم ہمارے معاشرے میں کسی سیاسی یا غیرسیاسی جماعت نے سنجیدہ طریقے سے پہچانا نہیں۔ نتیجہ آپکے سامنے ہے۔

اس الیکشن کانتیجہ میرے لیے اسی ذہنی تغیرکانتیجہ ہے۔نوجوان نسل نے کھل کراپنی رائے کا ووٹ کے ذریعے اظہارکیاہے۔یہ ذہنی رویہ بنیادی طور پراس بین الاقوامی جدت سے جڑاہواہے جسکی بدولت فکری سرحدیں مکمل طورپربوسیدہ ہوچکی ہیں۔سوشل میڈیا نے تمام دنیاکوجوڑدیاہے۔ہمارے جیسے ملک اس میں شامل ہیں۔نوجوان نسل کوجتنامتاثرجدیدترین سوشل میڈیانے کیاہے،کسی اورچیزنے نہیں کیا۔ تبدیلی کی بنیاد وہ معلومات ہیں جواب صرف ایک لمحہ میں سامنے آجاتی ہیں۔جمودکوتوڑنے کااس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں ہے۔ جس سیاسی فریق کویہ نکتہ سمجھ آگیا،اس نے بڑے آرام سے مخالف فریق کوچت کرڈالا۔

صرف چنددن پہلے کی مثال دیناچاہتاہوں۔مئی اورجون کے مہینے میں سعودی عرب میں بارہ خواتین کو گرفتار کرنے کی خبر منظر عام پر آئی ۔کینیڈانے اس پر آوازاُٹھائی، دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلے پر تلخی بڑھ گئی ۔سعودی عرب نے کینیڈا سفارتی تعلقات ختم کرڈالے۔ حالانکہ اس ایشو پرسب سے زیادہ شور امریکی اخباروں اور دانشوروں نے اُٹھایا ۔ایران کے بارے میں بھی ایسی اطلاعات ملتی رہتی ہیں ۔

سوشل میڈیاپر معلومات منٹوں میں پوری دنیامیں پھیل جاتی ہیں۔ایران اورسعودی عرب،حددرجہ طاقتور نظام کے باوجودسوشل میڈیاکے سامنے بے بس ہیں۔وہ فیس بُک بندکرتے ہیں،توسماجی طورپرمنسلک ہونے کا کوئی دوسراجدیدذریعہ سامنے آجاتاہے۔ واٹس ایپ پر پابندی لگاتے ہیں،تو"ایمو"مفت بات چیت کانیاطریقہ بن جاتاہے۔قصہ کوتاہ یہ کہ سوشل میڈیا کے سامنے سب ہارتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ نوجوان نسل مکمل طور پر سوشل میڈیاسے ایک دوسرے سے منسلک ہے۔پرانے بت اورقدیم سوچ نحیف سے نحیف ترہوتی جارہی ہے۔ یہی مسئلہ ہمارے ملک میں بھی ہے۔ہمارانظامِ حکومت حددرجہ کرخت اورادنیٰ ہے۔اس کووقت کے ساتھ تبدیل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔مگرحالیہ چندبرسوں میں جس بھی سیاسی فریق نے نئی آواز اُٹھائی، پوری قوم اس کے پیچھے چل پڑی اوراسے تخت پر بٹھا دیا۔

نوجوان نسل اس کام میں آگے آگے تھی۔محترم نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمٰی ختم ہونے کے بعدانقلابی بننے کی بھرپورکوشش کی۔مگرانکاماضی دیکھ کربیشترلوگوں نے ان کی بات پریقین نہیں کیا۔ہاں،اگروہ حکومت میں رہتے ہوئے جدت پسندہوتے توآج بھی اس ملک کے وزیراعظم ہوتے۔ان کے انقلابی اقوال میں ذاتی کشمکش اورمجاہدہ کاوہ عمل نہیں تھاجس سے سیاسی کوئلہ، ہیرے میں تبدیل ہوجاتاہے۔

مذہبی جماعتوں کے جیدسربراہان توبالکل ہی معاملے کوسمجھ نہ پائے۔ان میں کئی نیک سیرت لوگ موجود ہیں۔بے داغ رہنمابھی ہیں۔مگروہ بھی نئی سوچ کے لشکر کودیکھ نہ پائے۔ایک مشکل بات کرنا چاہتاہوں۔ایم ایم اے کاانتخابی نشان "کتاب" ہے۔ الیکشن کمیشن کے نشان پرصرف اورصرف کتاب درج ہے۔ تمام مذہبی جماعتیں اس انتخابی نشان کو ہماری مقدس کتاب کے طورپرپیش کرتی رہیں۔یہ صرف اس الیکشن کی بات نہیں۔ بلوچستان،کے پی اوردیگرعلاقوں میں مذہبی حلقے اس انتخابی نشان کا مذہبی فائدہ اُٹھانے کی بھرپورکوشش کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ بھی سامنے ہے۔

ان تمام رہنماؤں کو سیاسی طور پر مستردکردیاگیا۔یہ تمام لوگ سیاسی پختگی کے باوجودیہ ادراک نہ کرسکے کہ اکثریت صرف خاموش ہے۔ لاعلم یابیوقوف نہیں ہے۔ اگردیکھاجائے توجیدعلماء کوسوشل میڈیاپرحددرجہ تنقید کانشانہ بنایاگیا۔یہ تمام معتبر لوگ،سمجھ ہی نہ سکے،کہ ان کے ایک ایک بیان اور طرزِعمل کو"جدیدٹیکنالوجی"کے ذریعے پورے ملک میں دیکھا جارہاہے اوراس پرمنفی ردِعمل ہورہا ہے۔ مسلم لیگ ن کو اس یلغارکامعلوم ہواتواس وقت بہت زیادہ پانی پلوں کے نیچے سے گزرچکاتھا۔وہ بھی جدیدطرزِعمل کونہیں پہچان سکے۔

تحریک انصاف نے اس نئی بلایعنی سوشل میڈیاکوگزشتہ دس برس سے قابو کیا ہواہے۔مریم نواز صاحبہ نے اس جہت میں کافی محنت کی مگران کے ساتھ ہر وقت چوری کھانے والے دانشور تھے۔ ان کا پورا سیل، ادراک ہی نہ کرپایاکہ نوجوان نسل کس طرح سوچ رہی ہے اوراس کے ارادے کیاہیں۔جوحقیقت سب کونظرآرہی تھی،وہ یہ سیاسی جماعتیں بالکل نہ دیکھ سکیں۔نتیجہ آپکے سامنے ہے۔اب تک ہمارے ہارنے والے معتبر سیاستدان، شاک(Shock)کی کیفیت میں ہیں۔ انھیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ان کے ساتھ ہواکیاہے اورکیوں کرہوا ہے۔بوسیدہ اورپرانے طریقے سے نئی سوچ کو جانے بغیر، اس کا مقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔

ایک اے پی سی، دوسری اے پی سی بلکہ درجنوں اے پی سینرکے بعدبھی کچھ نہیں ہوگا۔ وجہ صرف ایک،پوری دنیاایک دوسرے سے منسلک ہے۔سویڈن میں سماجی انصاف کی ایک مثال،پوری دنیامیں سوشل میڈیاکے ذریعے ایک منٹ میں پھیل جاتی ہے۔پاکستان میں یہ نئی سوچ پیدا کرتی ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف اسی سطح کا ہونا چاہیے۔ انسانی حقوق اسی معیارکے ہونے چاہیں جو اس وقت مغربی ممالک میں موجودہیں۔آزادی اظہارکاوہی معیار ہوناچاہیے جوہالینڈمیں ہے۔یہ سوچ نہ صرف جدیدہے بلکہ حیران کن حدتک ایک جیسی ہے۔پورے نظام کوسماجی انصاف کی بنیادپر استوارکرنے کی یہ خواہش،پاکستان سے لے کرسعودی عرب اوروہاں سے لے کرایران تک موجود ہے۔

پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کاامکان موجودہے۔ذہن کا نیا اور بے باک زاویہ،ذہنی جمودکوتوڑنے کی استطاعت رکھتا ہے۔زمینی خداؤں کواوندھے منہ گرانے کی قوت بھی رکھتاہے۔یکسانیت کے بت کوبھی پاش پاش کر سکتا ہے۔ پہلی بار،بہتری کی طرف گامزن ہونے کی اُمیدپیداہوئی ہے۔یہ اُمیدہی سب کچھ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں