چیلنجز اور مواقعے

عمران خان کو اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر اپنی جماعت کے ارکان کو ذاتی مفاد اور سیاسی عناد سے بالاتر ہونا پڑے گا


اکرام سہگل August 08, 2018

وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے پُر اعتماد عمران خان ایک اتحادی حکومت کے سربراہ ہوں گے۔ معیشت پر بڑھتا ہوا دباؤ اس وقت سنگین چلینجز میں سے ایک ہے۔ قرضوں کی ادائیگی اور تجارتی خسارے کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر آچکے ہیں۔ اس مشکل سے نکلنے کے لیے ، دس سے پندرہ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا۔ یہاں ایک اور دشواری کا سامنا ہے، آئی ایم ایف میں امریکا کی رائے وزن رکھتی ہے اور اس وقت پاک امریکا تعلقات کم ترین سطح پر ہیں۔

اس صورت حال میں اچانک امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کی جانب سے پاکستان کو متنبہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف کو خبردار کیا گیا ہے کہ چینی بونڈ ہولڈرز یا چین کے مفاد کے لیے آئی ایم ایف کا امریکی ڈالر میں کسی کو بیل آؤٹ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔ ان دوباتوں کے مابین تعلق انتہائی پیچیدہ ہے، بظاہر یہی محسوس تا ہے کہ آیندہ کے لیے آئی ایم ایف کا آپشن بند ہوسکتا ہے۔ چین کی جانب سے کوئی بیل آؤٹ ابھی تک یقینی نہیں، اس لیے تحریک انصاف کی حکومت کو عملی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکا سے رابطہ کرنا چاہیے، اور خطے کی صورت حال میں آنے والے تغیرات کی بنیاد پر دونوں ممالک کے مابین تعمیری تعلقات کے حوالے سے اپنا مؤقف پیش کرنا چاہیے۔

2018کے مالیاتی سال کے ابتدائی دس ماہ میں پاکستان کے جاری حسابات(کرنٹ اکاؤٹ) کا خسارہ 50 فی صد بڑھ کر 14.03ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس خسارے کی وجہ سے پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 9ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔25جولائی کے انتخابات کے بعد مستحکم ہونے سے قبل ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 130روپے فی ڈالر سے زائد ہوچکی تھی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے مجموعی قرضے 24.5ٹریلین روپے تک پہنچ گئے جو کہ ہماری مجموعی معیشت کا 72فی صد بنتا ہے(اس میں 16.5ٹریلین ملکی اور 8ٹریلین روپے کے غیر ملکی قرضے ہیں)۔ اس وقت مالیاتی اور تجارتی خسارہ ہماری تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔

عمران خان نے بڑے پیمانے پر اصلاحات، بزنس کمیونٹی اور نجی شعبے کی مشاورت سے حکمت عملی کی تشکیل اور پالیسی سازی کے وعدے کیے ہیں۔ اپوزیشن نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے، تاہم عمران خان خیر سگالی کا یہ پیغام دے چکے ہیں کہ جن حلقوں میں بے ضابطگیوں کا دعوی کیا جارہا ہے، وہاں تحقیقات کرانے کے لیے وہ تیار ہیں۔ اس وقت عملیت پسندی کی اشد ضرورت ہے، نو منتخب حکومت کو نئے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے، حزب مخالف کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے ممکنہ حد تک اقدامات کرنے چاہئیں۔ عمران خان کو اب ایک مدبر، غیر جانب دار اور محبت وطن رہنما کے طور پرسامنے آنا ہوگا، قومی مفاد اور عوامی امنگیں جس کے پیش نظر ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ لیڈر ہی تبدیلی لاسکتا ہے ، چاہے وہ تبدیلی کتنی ہی غیر مقبول کیوں نہ ہو۔

اگرچہ جمہوریت کے لیے مضبوط اپوزیشن ناگزیر ہوتی ہے، لیکن حکومتی تجاویز کے متبادل مؤقف پیش کرکے اس پر عام بحث و مباحثے کی فضا پیدا کرنا ہی اس کا اصل کردار ہے۔ اسے تنقید برائے تنقید کے رویے سے گریز کرنا چاہیے، بدقسمتی سے پاکستان میں جس کی ریت پڑ چکی ہے۔ سبھی اپوزیشن جماعتوں کو جمہوری عمل پر کڑی نگرانی کا فریضہ انجام دینا چاہیے اور مخالفت برائے مخالفت سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہیے۔ عمران خان نے سی پیک کی کامیابی کا وعدہ کیا ہے، ساتھ ہی غربت کے خاتمے اور پاکستان کے پس ماندہ طبقات کے حالات میں بہتری کے لیے چینی ماڈل سے سیکھنے کے لیے وہاں اپنی ٹیمیں بھیجنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ تحریک انصاف کے منشور میں بھی چین سے دوستی کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ پاکستان میں غیر ریاستی عناصر کی موجودگی ہم پر اضافی بوجھ ثابت ہوگی۔

18ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کو ایک اور چیلنج کا سامنا ہوگا، جہاں غیر ریاستی عناصر کا موضوع زیر بحث آسکتا ہے۔ 26جولائی کو نشر ہونے والے خطاب میں عمران خان نے، پرچیوں یا نوٹس کی مدد لیے بغیر، قوم کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں مثالی تحمل اور انکساری کا مظاہرہ کیا اور کسی پر الزام تراشی کے بجائے مستقبل کی بات کی۔ انھوں نے سیاسی انتقام سے بیزاری اور ریاستی اداروں کو صحیح معنوں میں آزاد بنانے کا پیمان بھی باندھا۔ خود کو احتساب کے لیے پیش کیا اور امریکا سمیت پڑوسی ممالک سے پُرامن تعلقات کی بات کی۔ پاکستان اور دنیا بھر میں عمران خان کی اس تقریر کو سراہا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اس تقریر میں وہ محض سیاستدان کے بجائے ایک مدبر دکھائی دیے۔

عمران خان کو کرپشن کے خلاف جنگ اور لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے، بلا امتیاز احتساب اور کم ازکم 100صنعتوں کی بحالی سے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔ نئی قانون سازی سے اس عمل کی غیر جانب داری کو یقینی بنانا ہوگا۔ قومی مجرموں ، منی لانڈرنگ اور دیگر ذرایع سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے غیر ملکی حکومتوں سے نئے روابط قائم کرنا ہوں گے اور معاہدے کرنے پڑیں گے۔ سنگین ہوتا پانی کا بحران، توانائی کی قلت، داخلی اور خارجی سلامتی کے پہلوؤں سمیت کئی دیگر چیلنجز کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ مسلم لیگ ن چار سال تک مستقل وزیر خارجہ نہیں لاسکی ، اس کی وجہ سے خارجہ پالیسی کو درپیش چلینجز کئی گنا بڑھ چکے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج بھی متاثر ہوا ہے۔ ''نیا پاکستان'' کی جانب جانے والے راستے میں ہر گام رکاوٹیں اور مشکلیں ہیں، یہ ہرگز کوئی آسان کام نہیں ہوگا، لیکن نئی حکومت کو پورے عزم کے ساتھ غیر مقبول اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔

ملک میں امن قائم کرنے کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے افواج پاکستان کے سپاہیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پانچ برس قبل دہشت گردی ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا، جو اب ایک مسئلے کی حد تک محدود ہوگیا ہے۔ اگر ہمارے سپاہی خوف اور دہشت گردی کی یہ فضا ختم نہ کرتے تو پاکستانی ووٹروں کو انتخابات میں اپنا فیصلہ دینے کے لیے ساز گارماحول میسر نہیں آسکتا تھا۔ ایک قدم آگے بڑھ کر ہمارے سپاہیوں نے صاف اور شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنایا۔ اس کے باوجود شکست کھانے والوں اور اپنے مذموم مفادات کی بنا پر کچھ ملکی اور غیر ملکی عناصر نے فوج کو بے جا تنقید کا نشانہ تو بنایا لیکن اپنے دعوؤں کے حق میں کوئی قابلِ اعتبار ثبوت پیش نہیں کرسکے۔

عمران خان نے اپنے لیے جن اعلیٰ مقاصد کا تعین کیا ہے، ان کے حصول کی خاطر انھیں اور ان کی جماعت کے ارکان کو ذاتی مفاد اور سیاسی عناد سے بالاتر ہونا پڑے گا۔ مشکلات اور رکاوٹیں اہداف کے حصول اور بصیرت کو وسعت دینے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں، انھی سے اہل افراد کے لیے تبدیلی لانے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہی اہلیت کا ثبوت ہے۔ انتخابات میں پاکستان کے عوام نے عمران خان اور ان کی جماعت پر جس اعتماد کا اظہارکیا ہے، انھیں خود کو اس کا اہل بھی ثابت کرنا ہوگا۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں