نظریہ اصول اور ویژن ابھی سے دھندلانے لگا
آنے والے دنوں میں اٹھارویں آئینی ترمیم بھی نئے سرے سے ایک مسئلہ بن کر کھڑی ہوگی
ابھی کچھ مہینوں قبل کی بات ہے کہ ہمارے پرانے پاکستان میں پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے نئے ارکان کا انتخاب عمل میں لایا جارہا تھا اور بڑے پیمانے پر اراکین اسمبلی کی خریدو فروخت کی جارہی تھی۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کا یادگار مہربان اور محسن ڈاکٹر قیوم سومرو ان کے کہنے پر شہر شہر، گاؤں گاؤں لوگوں میں محبتیں اور چاہتیں تقسیم کرتا پھر رہا تھا اور بدلے وفاداریاں خرید رہا تھا، جس کی باتوں میں اتنا اثر تھا کہ بہت سے باضمیر ارکانِ فوراً ہی ڈھیر ہو گئے۔
نتیجتاً مسلم لیگ جو پانچ سال سے سینیٹ میں اپنی برتری کا انتظار کر رہی تھی، اس اعزاز سے محروم ہوگئی سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی ہار گئی۔ زرداری پہلے ہی حکمراں پارٹی کو باور کروا چکے تھے کہ ہم تمھیں سینیٹ کی چیئرمین شپ نہیں لینے دیں گے اور انھوں نے ایسا کر دکھایا۔ بلوچستان کی اسمبلی میں ایک بھی نشست نہ رکھتے ہوئے بھی انھوں نے نون لیگ کے وزیراعلیٰ کو جس کمال سے فارغ کردیا وہ انھی کی ذہانت کا ثبوت ہے۔ اس کامیابی کے بعد انھوں نے یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ اب ہم تمہیں پنجاب کی حکومت بھی نہیں لینے دیں گے۔ وہ اپنے اس دعوے میں بھی سرخرو ہوئے۔ مقتدر قوتوں کے تیور بھانپ لینے کا یہ ہنر زرداری سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ انھوں نے مسلم لیگ کے ہاتھوں اپنے ساتھ ماضی کی زیادیتوں کا حساب برابر کر دیا۔ نئے حالات کے ساتھ ساتھ اب ان کے اہداف بھی بدل گئے ہیں۔ ان کے نشانے پر مسلم لیگ (ن) کی جگہ اب کوئی اور آچکا ہے۔ فی الحال وہ خاموشی کے ساتھ سیاست کے پیچ و خم کا بغور مشاہدہ کررہے ہیں۔
25 جولائی کے عام انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آچکی ہے۔ اس کی اس کامیابی کے پیچھے اس کی اپنی کوششوں کے علاوہ غیبی طاقتوں کا خفیہ ہاتھ بھی کارفرما ہے۔ 15 سے 20 نشستوں پر اسے مبینہ طور پر رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کی متنازع اور مشکوک خرابی کے دوران جتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں بھی حیران کن طور پر اسے اتنی نشستیں دے دی گئی ہیں کہ وہ اپنے تاحیات نااہل شخص جہانگیر ترین کی مدد سے باآسانی وہاں اپنی حکومت بناسکے۔ پارٹی میں کوئی اور ایک شخص بھی شاید اتنا معتبر اور لائق نہیں سمجھا گیا جو آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ارکان کو پارٹی میں گھیر کر لا سکے۔ اس کام کے لیے پیسہ اور سخاوت بہت ضروری ہے۔ خود خان صاحب ان آزاد ارکان کے بارے میں الیکشن سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہی لوگ انتخابی عمل میں کرپشن کرتے ہیں۔
پہلے آزاد حیثیت میں پیسہ لگا کر جیت جاتے ہیں اور پھر خود کو نیلامی کے لیے پیش کر دیتے ہیں۔ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں خود اپنی پارٹی کے بک جانے والے کے پی کے، کے تقریباً 20 ارکان کو انھوں نے ایک ایسے ہی الزام کے تحت پارٹی سے نکال دیا تھا، لیکن آج نظریہ ضرورت کے تحت وہ یہی کام بلا کسی جھجک کیے جارہے ہیں۔ مدینے جیسی ریاست اور نئے پاکستان کی بنیادوں میں جب سیمنٹ اور بجری کا گارا ہی ناجائز ذرایع سے حاصل کیا گیا ہو تو پھر اس سے خیر اور بھلائی کی توقع بھلا کیسے ہو سکتی ہے۔ آزاد ارکان کی کھلے بندوں یہ خرید و فروخت ہمارے یہاں ہر شخص کو نظر آرہی ہے لیکن اگر نہیں نظر آرہی ہے تو ملک سے کرپشن کے خاتمے کا عزم اور دعویٰ کرنے والے حب الوطنی سے سرشار صاحب اختیار لوگوں کو نہیں آرہی ہے۔ ہمارے چیف جسٹس صاحب نجانے کیوں خاموش ہیں۔
تحریک انصاف میں شامل کیے گئے ان آزاد ارکان کی نیت اور ارادوں کا بھی کچھ بھروسہ نہیں ہے کہ وہ کب اپنے عہد اور وعدے سے مکر جائیں، لہٰذا اسی ڈر اور خوف سے حفظ ماتقدم کے طور پر ان سے عہد نامے اور حلف بھی لیے جارہے ہیں۔ ضمیروں کے خریداری کے جس کام کو پہلے چھپ چھپا کے کیا جاتا تھا وہ اب بڑی ڈھٹائی سے کھلے عام کیا جانے لگا ہے۔ جن مکروہ کاموں کے لیے خان صاحب اپنے مخالفوں کو طعنہ دیا کرتے تھے، آج ضرورت پڑنے پر انھیں کرتے ہوئے وہ کوئی عار محسوس نہیں کررہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب پارٹی میں پہلے صرف نیک اور پارسا لوگ لیے جاتے تھے۔
سولہ سال تک یہی اصول اور نظریہ قائم رہا لیکن 2011ء سے سارے اصول بدل گئے، سارا ویژن ہی تبدیل ہوکر رہ گیا۔ جو جتنا مالدار اور دولت مند ہو، پارٹی میں اس کا مقام اتنا ہی اعلیٰ اور بلند ہونے لگا۔ جو لوگ خان صاحب کو ہمارے روایتی سیاستدانوں سے بہتر اور مختلف سمجھ رہے تھے، انھیں اب بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہونے لگے گا۔ آنے والے دنوں میں خان صاحب بھی وہی کچھ کرتے دکھائی دیں گے جو ان سے پہلے والے حکمراں کرتے رہے ہیں۔ راست بازی اور حق گوئی کی جگہ اب پھر جھوٹ اور منافقت پروان چڑھے گی۔ نظریہ اور اصول کی جگہ پارٹی مفادات کے تابع سوچ جنم لے گی اور اتحادیوں سے مفاہمت اور مصالحت پسندی کے نئے افکار وضع کیے جائیں گے۔ اقتدار کو قائم اور دائم رکھنے کے لیے ان کے جائز و ناجائزسارے مطالبے مانے جائیں گے۔
بیرونی محاذوں پر بھی وہی کچھ ہوتا دکھائی دے گا جو پہلے ہوتا رہا ہے۔ میاں صاحب کو مودی کا یار کہنے والے اب خود مودی کے یار بن جائیں گے۔ کلبھوشن یادیو کا نام بھی زباں پر لاتے ہوئے لکنت سی لگ جائے گی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ بھی بھلادیا جائے گا۔ اس معاملے پر امریکیوں سے دو ٹوک بات کرنے کا ارادہ اور عزم بھی متزلزل ہونے لگے گا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے نئے بندھن استوار کیے جائیں گے۔ پرانے کشکولوں کو نیا نام اور نیا روپ دیا جائے گا۔ ان کے مطالبوں پر سی پیک کے معاہدوں کو آشکار اور پبلک کیا جائے گا۔ تاریک وطن پاکستانیوں سے امداد اور قرضے حاصل کرنے کے سارے دعوے ہواؤں میں تحلیل ہوجائیں گے۔ قدم قدم پر مجبوریوں کے تحت سمجھوتے کیے جائیں گے۔ آزادانہ خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے انجانے خوف ستانے لگیں گے۔ افغانستان، ایران اور ہندوستان سے دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہوئے قدم ڈگمگانے لگیں گے۔
آنے والے دنوں میں اٹھارویں آئینی ترمیم بھی نئے سرے سے ایک مسئلہ بن کر کھڑی ہوگی۔ اس کو جوں کا توں رکھنا بھی مشکل ہوگا۔ جن قوتوں کی تائید و حمایت سے یہ اقتدار ملا ہے ان کی مرضی و منشا کا بھی کچھ خیال رکھنا ہوگا۔ گیارہ بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل کرکٹ یا کسی اورکھیل میں کپتانی کرنا اور اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کا لوہا منوانا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہوتا، لیکن مسائل و مصائب میں گھرے ہوئے کمزور اور لاچار ملک کو کامیابی سے چلانا ہی کسی دانا اور زیرک لیڈر کی ذہانت اور دانشمندی کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ خان صاحب اس امتحان میںکتنے اور کیسے پورے اترتے ہیں قوم یہ دیکھنے کے لیے بے چینی سے منتظر ہے۔