لٹریچر فیسٹیول سے الیکشن فیسٹیول تک
ویسے تو اب ہم لٹریچر فیسٹیول کی اصطلاح سے اچھے خاصے مانوس ہو گئے ہیں۔ کاروبار بیشک پرانا ہو مگر نام تو ...
ویسے تو اب ہم لٹریچر فیسٹیول کی اصطلاح سے اچھے خاصے مانوس ہو گئے ہیں۔ کاروبار بیشک پرانا ہو مگر نام تو نیا رکھ لو کہ کچھ تو نئے ذائقہ کا احساس ہو۔ تو ہم لٹریچر فیسٹیول کو ادبی میلہ نہیں کہیں گے۔ حالانکہ جس جس فیسٹیول میں ہم نے شرکت کی اس میں میلہ کا سماں تھا۔ تو خیر مطلب یہ تھا کہ ہماری دانست میں لٹریچر فیسٹیول کا موسم اب گزر گیا۔ اس سے بڑے فیسٹیول نے یا میلہ نے ہمیں آ لیا۔ الیکشن فیسٹیول یعنی الیکشنی میلہ۔ اور یہ میلہ اب کے اس شان سے لگا کہ ہم ادبی میلوں کو بھول ہی گئے۔ پہلے تو ڈر رہے تھے کہ اب کے تو امیدواروں کے اور ووٹروں کی جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک ووٹ کی خاطر کون اپنی جان پر کھیلے گا۔ تو الیکشن کا دن اب کے اپنی بے رونقی کے حوالے سے پہچانا جائے گا۔ مگر پتہ چلا کہ ووٹ کا اپنا ایک طلسم ہے۔ ایسا طلسم کہ خودکش حملے بھی اس طلسم کو نہیں توڑ سکتے۔
یہ جو ایک دن کی بادشاہی کا طلسم ہے پتہ چلا کہ یہ ہمارے زمانے کا سب سے بڑا طلسم ہے۔
صحیح صحیح کہا کہنے والے نے کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ تو اب کے یوں ہوا کہ جوانی کی دیوانگی الیکشن کی دیوانگی سے آ کر جڑ گئی۔ لیجیے نشہ دوآتشہ ہو گیا۔ مگر دعائیں دو عمران خاں کو کہ اس نے سیاست کی فیلڈ میں اتر کر ایسے چوکے چھکے لگائے کہ اس برس کا الیکشن سچ مچ ورلڈ کپ کا میچ بن گیا۔ مگر افسوس، صد افسوس ورلڈ کپ میاں نواز شریف نے جیتا۔ عمران خاں ہاف سنچری تک آ کر ٹھٹھک گئے۔ خیبر پختون خوا کی بازی جیتی تو سمجھ لو کہ ہاف سنچری تک آ کر دم توڑ دیا۔ مگر جتنا مل گیا اسے غنیمت جانو۔ بہرحال ہوا یوں کہ میلہ کا سماں باندھا عمران خاں کے نوخیز متوالوں نے اور میلہ لوٹا میاں نواز شریف کی ٹیم نے۔
باقی رہا پیپلز پارٹی کا معاملہ تو ان سے ہمدردی ہی کا اظہار کیا جا سکتا ہے
جو ہونا تھا سو ہو چکا اے کہارو
چلو لے چلو ڈولی یاں سے کہارو
ویسے بھی اقتدار چلتی پھرتی چھائوں ہے۔ آج یہاں کل وہاں۔ اور ہر کمالے را زوالے۔ ہماری تاریخ میں سب سے لمبا اقتدار تو مغل شہسواروں کو میسر آیا تھا۔ مگر آخر کے تئیں ان کے گھوڑوں پر بھی ایسا وقت آ گیا کہ دلکی اور سرپٹ تو کیا دوڑے ہنہنانے سے بھی گئے۔ کیا عبرتناک نقشہ تھا کہ ہر پارٹی کے گھوڑے اپنی اپنی بساط کے مطابق ہنہنا رہے تھے۔ بس ایک پیپلز پارٹی کے گھوڑوں پر اتنی نقاہت طاری تھی کہ ہنہنانے سے بھی گئے۔
سو اب دوسرے گھوڑے میدان میں آن دھمکے ہیں اور اپنی اپنی بساط سے بڑھ کر ہنہنا رہے ہیں۔ لیجیے بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہم کہہ یہ رہے تھے کہ لٹریچر فیسٹیول کا جو موسم بہت شان سے چڑھا تھا وہ اتر گیا۔ اب معاملات اور ہیں۔ سردی کی بات مت کرو رنگ فلک اب اور ہے۔ مگر غلط بالکل غلط۔ ایک لٹریچر فیسٹیول پھر سر پہ آیا کھڑا ہے۔ عطاء الحق قاسمی نے، کہ لاہور آرٹ کونسل کے چیئرمین ہیں، پہلے یہ سے ایک ادبی میلہ برپا کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔
ابھی الیکشن سے پہلے جب وہ آرٹ کونسل میں بیٹھ کر اپنا منصوبہ پیش کر رہے تھے تو ہم حیران ہو رہے تھے کہ ایسے بدلتے موسم میں جب کسی کو یہ خبر نہیں کہ کل کیا گل کھلنے والا ہے وہ کتنے عزائم کے ساتھ اپنا منصوبہ پیش کر رہے ہیں۔ مگر جو گل کھلا خوب کھلا۔ اور ایسا کھلا کہ عطاء الحق قاسمی کے عزائم اب پہلے سے بڑھ کر بلند نظر آ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ سچ مچ بین الاقوامی فیسٹیول ہو گا اور اب تو ہندوستان کے ساتھ تعلقات کا نقشہ بھی سنورتا نظر آ رہا ہے۔ تو سمجھ لو کہ ادھر سے نامی گرامی ادیبوں کی ایک قطار آنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔
ارے ہاں ادب کے پہلوان تو خیر ہوں گے ہی۔ مگر یہاں سچ مچ کے پہلوان بھی زور آزمائی کرتے نظر آئیں گے۔ مطلب یہ کہ بیک وقت کئی اکھاڑے جمیں گے۔ کئی زبانوں کے کھلاڑی، کئی اکھاڑوں کے پہلوان، تو یہ تو سچ مچ میلہ کا سماں ہو گا۔
میلہ کے آخر کا احوال بھی سن لو وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ
پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی سبیل
یہاں اہل قلم قطار اندر قطار ہوتے ہیں اور ہر اہل قلم اپنے قلم کے حاصل کو لے کر یہاں پہنچا ہوتا ہے اور کس کھلے دل کے ساتھ اپنی تصانیف تقسیم کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ نوبت آجاتی ہے کہ سامنے سے اگر کوئی اہل قلم آتا نظر آیا تو ہم کنی کاٹ کر دوسری طرف نکل جاتے ہیں۔ کیونکہ اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ یہ حضرت اپنی تصنیف لطیف ہمارے سر منڈھیں گے۔ مگر کتنی تصانیف کا بوجھ یہ ایک غریب سر اٹھا سکتا ہے۔ البتہ قدر داں اس شان سے یہاں آتے ہیں کہ کاندھے میں ایک بڑا سا تھیلا لٹکا ہوتا ہے۔
سوچ سمجھ کر گھر سے نکلتے ہیں کہ آج میلہ کا آخری دن ہے۔ اہل قلم اپنی اپنی تصانیف کے گٹھر سر پہ رکھ کر یہاں پہنچیں گے اور کسی اہل قلم کی دل شکنی تو نہیں کرنی چاہیے۔ سو جس محبت سے وہ اپنی نئی شایع شدہ کتاب نذر کرتا ہے اسی محبت سے وہ کتاب وصول کرتے ہیں۔ آنکھوں سے لگاتے ہیں اور تھیلے میں ڈال دیتے ہیں۔ آخر میں یہ ہوتا ہے کہ صاحب تصنیف اپنی تصانیف کا بوجھ لاد کر یہاں آتا ہے اور بوجھ یارو اغیار کے سر منڈھ کر ہلکا پھلکا گھر واپس جاتا ہے۔ جو ہلکے پھلکے آتے ہیں۔ وہ تحفہ میں ملی ہوئی کتابوں سے لدے پھندے گھر واپس جاتے ہیں۔ یہ ہے حاصل ادبی میلہ کا۔