سماجی انقلاب تک ناقابل مصالحت جدوجہد

جب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا، اس وقت سے اس بات کا یقین دلایا جا رہا تھا کہ انتخابات تمام مسائل کا واحد حل ہے۔


Zuber Rehman May 17, 2013
[email protected]

PESHAWAR: جب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا، اس وقت سے اس بات کا یقین دلایا جا رہا تھا کہ انتخابات تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ پانچ سال کے بعد عوام کو اپنے حق رائے دہی کا موقع ملا ہے، وہ ہر صورت میں ووٹ ڈالیں اور نیک پارسا اور دیانت دار لوگوں کو منتخب کرکے اپنے مسائل حل کروائیں۔ کیا انتخابات کے ذریعے شہریوں کے مسائل حل ہوئے یا مسائل میں اضافہ ہوا؟ ریاست کے وجود میں آنے کے بعد بھی انتخابات شروع ہوئے اور ریاست دولت مندوں کی محافظ ہے، جو ہر پانچ سال کے بعد عوام کو دلاسا، دھوکا اور سبز باغ دکھا کر منتخب نمایندوں کو اپنی دولت میں اضافہ کرنے کا موقع دیتی ہے اور ریاست کے بنیادی ادارے ان کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ تاریخی پس منظر میں جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اس سیارہ ''دنیا'' میں عوام کی فلاح کے لیے جتنے معلوم اور معروف کام ہوئے ہیں وہ انتخابات کے ذریعے نہیں بلکہ جدوجہد، دباؤ اور انقلاب کے ذریعے ہوئے ہیں۔ فرانس کی بادشاہت ہو، جرمنی کی بادشاہت ہو یا زار روس کا تختہ ہو، یہ سب کچھ انقلاب کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔

لوئس 16، کوئن میری اور زار شاہی کو انتخابات کے ذریعے عوام نہیں ہٹا پائے بلکہ انقلاب کے ذریعے انھیں ختم کیا اور بادشاہت کا خاتمہ کیا۔ دنیا بھر میں 12 سے 16 گھنٹے شہریوں کو کام کرنا پڑتا تھا جب کہ 1886 میں شکاگو، امریکا کے محنت کشوں نے اپنے اتحاد، یکجہتی اور عظیم قربانیوں کے ذریعے 8 گھنٹے کی ڈیوٹی منوائی، جسے اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں 12/14 گھنٹے مزدوروں اور کسانوں سے کام کروایا جاتا ہے۔ 1835 میں کشمیر کے کسانوں نے حکمرانوں کو ٹیکس نہ دینے کے لیے ہڑتال کی تھی۔ اس جرم میں عظیم کسان رہنماؤں علی خان، سبز علی خان، قلی خان سمیت سات کسان رہنماؤں کو منگ میں زیتون کے درخت پر الٹا لٹکاکر کھال کھینچی گئی اور انھوں نے معافی نہیں مانگی۔ بعدازاں حکمرانوں کو شکست ہوئی۔ منگولیا میں چراگاہوں میں انقلاب کے بعد حکمرانوں نے انقلابیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیا تھا۔ چند برس قبل فرانس کے مزدوروں نے ہڑتال کے ذریعے کام کے اوقات کار ہفتے میں 35 گھنٹے کروائے۔ آج دنیا بھر کے محنت کشوں نے جو کچھ حقوق حاصل کیے ہیں وہ حکمرانوں نے خود نہیں دیے بلکہ جدوجہد کے ذریعے حاصل کیے ہیں۔

آج عالمی سرمایہ داری تیزی سے انحطاط پذیری کی جانب گامزن ہے۔ امریکا میں 10 فیصد لوگ بے روزگار اور 10 فیصد خیراتی کھانوں پر پلتے ہیں، جرمنی میں 50 لاکھ اور جاپان میں 65 لاکھ لوگ بے روزگار ہیں۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق روزانہ صرف بھوک، افلاس، غربت، غذائی قلت اور قحط سے 50 ہزار انسان مر رہے ہیں جب کہ دوسری جانب صرف دنیا کے 3 امیر ترین افراد 48 غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں۔ ایک جانب دنیا کی 7 ارب کی آبادی میں ساڑھے پانچ ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو دوسری طرف صرف اسلحے کی عالمی تجارت سالانہ 80 ارب ڈالر کی ہے۔ پاکستان اور اقوام متحدہ کی ایک مشترکہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق ہر سال زچگی کے دوران 30 ہزار خواتین جاں بحق ہوتی ہیں۔ ہر سال 4 لاکھ 20 ہزار بچے اپنی پہلی سالگرہ نہیں مناپاتے، روزانہ 1132 بچے بھوک سے مرجاتے ہیں۔ اس صورت حال میں ریاست اور انتخابات عوام کو کچھ نہیں دے سکتے۔

بل کلنٹن نے اپنے دور حکومت میں پاکستانی حکومت کی جانب سے کی جانے والی نجکاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ایشیا میں سب سے بہتر نجکاری ہوئی ہے''۔ موجودہ انتخابات سے قبل بعض سیاستدانوں کی جانب سے کہا گیا کہ گزشتہ 5 برسوں میں آصف علی زرداری کسی ادارے کی نجکاری نہیں کرپائے۔ یعنی آیندہ اقتدار میں آکر وہ سامراجی آقاؤں کے احکامات کی مزید بجاآوری کریں گے، یعنی نجکاری کے ذریعے رائٹ سازی کریں گے۔ یہ نظام ایسا ہے کہ اسے ختم کرکے امداد باہمی کا نظام رائج کرنے کے سوا عوام کی خوشحالی کی کوئی راہ نہیں ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں ہر روز 10 ہزار افراد غربت کی لکیر کے نیچے جارہے تھے جب کہ پیپلز پارٹی کے دور میں ہر روز 25 ہزار لوگ غربت کی لکیر کے نیچے گئے اور اب اس میں اضافہ تو ہوسکتا ہے کمی نہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ان سے سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے۔ حکمران طبقات اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہوگئے ہیں اور پھر اس نظام کو خطرہ لاحق ہوتے ہی سرجوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

یہ انتخابات بھی خوب انتخابات تھے۔ نادیدہ ہاتھوں نے عالمی سرمایہ داروں کے آلہ کاروں کے ذریعے یہ اعلان کروایا کہ فلاں فلاں پارٹیوں کے جلسوں میں عوام نہ جائیں اور بعد میں ان کے جلسوں، جلوسوں، مظاہروں اور اجتماعات پر حملے کیے گئے نتیجتاً سیکڑوں کارکنان اور عام شہری جان سے جاتے رہے۔ اسٹیبشلمنٹ نے ایسے حالات پیدا کیے جن میں مخصوص جماعتیں کامیاب ہوں۔ اس کے باوجود ان کی تمام تر کوششوں پر پانی بھر گیا یعنی ساری مذہبی جماعتیں خواہ وہ کسی بھی فرقے کی ہوں انھیں بری طرح سے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی نے دائیں بازو کی رجعتی جماعت (ق) لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیا جسے کارکنوں نے رد کیا، نتیجتاً وہ شکست سے دوچار ہوئی، یہاں تک کہ سابقہ ڈپٹی وزیراعظم کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

جماعت اسلامی عمران خان سے پینگیں بڑھانے کے باوجود صرف 3 نشستیں لے سکی۔ پیپلز پارٹی کو اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کی پسماندہ بستیوں سے کامیابی ہوئی ہے جب کہ پی ٹی آئی کو متوسط طبقے کے شہری علاقوں سے۔ اب آیندہ پیپلز پارٹی نے اگر نجکاری اور سامراج نواز پالیسی کو مزید اپنایا تو اس کا صفایا ہوجائے گا جب کہ پی ٹی آئی کو محنت کش طبقے میں جانا ہوگا ورنہ یہ بھی صرف متوسط طبقے کی پارٹی بن کے رہ جائے گی۔ ادھر این اے 41 جنوبی وزیرستان ایجنسی سے کامریڈ علی وزیر ایڈووکیٹ نے مسلم لیگ (ن) کو شکست دے کر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کوئی محنت کش طبقے کا انقلابی رہنما قومی اسمبلی میں کامیاب ہوا ہے۔ 1951 میں کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ سے مزدور رہنما کامریڈ مرزا ابراہیم قومی اسمبلی کے لیے امیدوار کے طور پر لاہور سے غیر سرکاری اعلامیے کے مطابق کامیاب ہوئے تھے جب کہ انھیں سرکاری اعلان میں شکست قرار دے دیا گیا۔

عام انتخابات میں اقلیتوں کی نشست پر لاڑکانہ کے مزدور رہنما کامریڈ سوبھوگیان چندانی کو سرکاری اعلان کے مطابق کامیاب قرار دے دیا گیا تھا بعدازاں ری کاؤنٹنگ کے ذریعے ہروایا گیا۔ اب 2013 کے عام انتخابات میں این اے 41 سے جنوبی وزیرستان سے کامریڈ علی وزیر ایڈووکیٹ کی کامیابی نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ان کا انتخابی نعرہ تھا کہ ''سماجی انقلاب تک ناقابل مصالحت جدوجہد''۔ انتخابی مہم کے آغاز میں انھوں نے یہ کہا کہ ''ہم محنت کرنے والوں نے دولت والوں کو للکارا ہے''۔ حکومت کی تشکیل میں عالمی سامراج کی پالیسی پر عمل کرنے پر جو بھی آمادہ ہے امریکی سامراج اس کی حمایت کرے گا۔ افغانستان میں امریکی مداخلت، آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے قرضوں کو جاری رکھنا، نجکاری پر عمل کرنا، عوام کو دی گئی سبسڈیز کو ختم کرنا اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی کرتے رہنا۔ یہ ہوں گے سامراجی شرائط اور اس پر ہاں کیے بغیر پاکستان میں کوئی بھی حکومت نہیں بناسکتا ہے۔

اس کا واحد حل یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضہ جات کو ضبط کرلیا جائے، تمام ملکی اور غیرملکی اداروں کو عوامی ملکیت میں تبدیل کردیا جائے، دفاعی اخراجات کو ختم کرکے 18 کروڑ شہریوں کو فوجی تربیت دی جائے، عدالت، جیل خانہ، میڈیا، رینجرز اور پولیس کے اداروں کو ختم کردیا جائے، نکاح کی جبری غلامی، ونی، کاروکاری کے فرسودہ نظام کو ختم کردیا جائے۔ مذہبی جنونیت، جبر اور فرقہ پرستی کو جرم قرار دیتے ہوئے قومی ریاست کا خاتمہ کرکے نسل انسانی کا ایک امداد باہمی اور ایسا مربوط نظام تشکیل دیا جائے جہاں سارے لوگ مل کر پیداوار کریں اور مل کر کھائیں۔ تعلیم، علاج اور رہائش مفت حاصل ہو۔ کوئی ارب پتی رہے اور نہ کوئی گداگر۔ خواتین کو باورچی خانہ اور دھوبی گھاٹ سے نجات دلا کر مساوات کا معاشرہ قائم ہو۔ اعلیٰ افسر اور چپراسی، فیکٹری منیجر اور دھوبی، سائنسدان اور ایک مزدور ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ سب کی کرنسی اور کپڑے ایک جیسے ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں