فقیری باتیں
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی پنجابی زبان سے محبت کس طرح اردو کی محبت کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کا نام پہلی بار جب میری نظر سے گزرا اس وقت میری عمر بارہ تیرہ برس تھی اور میں غالباً ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا' ہمارے ہمسائے آقا بیدار بخت صاحب کے گھر پر روزانہ بہت سی ڈاک آتی تھی جس میں سے رسائل وغیرہ پڑھنے کی آزادی انھوں نے مجھے دے رکھی تھی انھی رسالوں میں پہلی بار ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی زیر ادارت شایع ہونے والے ماہنامے ''پنجابی'' میں پہلی بار مجھے اپنی ماں بولی کو تحریری شکل میں دیکھنے کا موقع ملا ۔ یہ تجربہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ پر لطف بھی تھا کہ اردو فارسی یا شاہ مکھی اسکرپٹ میں لکھے گئے پنجابی کے الفاظ پہلی نظر میں کچھ کے کچھ پڑھے جاتے تھے۔
ذرا بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ پنجابی کی صوفی شاعری اپنی جگہ پر ایک جہان دیگر ہے اور یہ کہ اس کی جدید ترین شکلیں میاں محمد صاحب کی سیف الملوک اور خواجہ غلام فرید کی کافیاں ہیں جن کا زمانہ تصنیف بیسویں صدی کے آغاز کو چھو رہا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کو شروع ہوئے اٹھارہ برس ہو چلے ہیں مگر اب بھی پنجابی زبان کے آخری دو سب سے بڑے شاعر یہی محترم حضرات ہیں کہ ان کے بعد اہم اور عمدہ شعرا تو خاصی تعداد میں ہیں لیکن ''عظمت'' والا سلسلہ وہیں رکا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ فی زمانہ جن لوگوں نے اس پرچم کو بلند کر رکھا ہے ان میں سے اہم ترین نام ڈاکٹرفقیر محمد فقیر کا ہے کہ جو بلند مرتبہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ محقق' نقاد' مدیر' ماہر لسانیات اور زبان کے حوالے سے پنجابی تہذیب اور روایت کے ایک ان تھک نمایندہ اور سیوک بھی ہیں اور اسی رعایت سے انھیں ''بابائے پنجابی'' بھی کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے میرا دوسرا تعارف کوئی تیس برس بعد ان کے نواسوں عزیزی سہیل احمد اور پرویز جنید اکرم کی معرفت ہوا کہ یہ دونوں میرے دل سے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے فن کے ماہربھی ہیں۔ اتنا تو مجھے علم تھا کہ ہمارے دوست ڈاکٹر مجاہد کامران (سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی) نے زبان و ادب کی سرپرستی کے لیے اوری اینٹل کالج لاہور میں ریسرچ کے حوالے سے بہت سے ادارے اور چئیرز قائم کی ہیں جن میں سے ایک بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے نام سے بھی ہے اور یہ بھی پتہ چلا تھا کہ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کے نواسے اور پنجابی کے شاعر اور ادیب پروفیسر جنید اکرم کو اس ادارے میں بطور ریسرچ اسکالر ایک پوسٹ بھی دی ہے لیکن ان کے کام اور اس ادارے کی پیش رفت کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں۔
سو ایسے میں جب گزشتہ دنوں ایک ساتھ اس کی تین مطبوعات ''فقیر نامے'' ''ساڈی ڈاک'' اور سنگی (گمشدہ مثنوی) ملیں تو بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ تینوں کتابوں میں تحقیق کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان و ادب کے حوالے سے تاریخی اعتبار سے ایسی مستند اور اہم معلومات سامنے آئیں جو بیک وقت چشم کشا بھی ہیں اور حوصلہ افزا بھی۔ان کتابوں کے مندرجات پر کوئی بات کرنے سے قبل اس بات کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری ہے کہ وطن عزیز کے طول و عرض میں بولی جانے والی سب نمایندہ زبانیں اسی ترقی اور سرپرستی کی اہل اور حق دار ہیں جس کا اہتمام ہم اپنی قومی اور رابطے کی زبان یعنی اردو کے لیے کرتے ہیں ۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ معاملہ مقابلے یا ترجیح کا نہیں بلکہ بنیادی حقوق کا ہے اور یوں بھی ان زبانوں کے ساتھ اردو کے لسانی' رسم الخطی' تہذیبی اور تاریخی روابط ایسے ہیں جیسے یہ کسی ایک ہی خاندان کے مختلف افراد ہوں یعنی دیگر پاکستانی زبانوں سندھی' پنجابی' بلوچی' پشتو اور ان کی ہم زاد سرائیکی' براہوی اور ہندکو وغیرہ کی انفرادی حیثیت کے باوجود ان کے مشترکہ عناصر اس قدر زیادہ ہیں کہ اردو سمیت کسی ایک زبان سے واقفیت ہمیں خود بخود باقی زبانوں کے قریب تر لے جاتی ہے جب کہ تاریخی اور لسانی حوالوں سے پنجابی زبان کا اسٹرکچر اردو سے اور بھی زیادہ ملتا جلتا ہے یوں کسی بھی زبان کی ترقی دراصل ان روابط کی ترقی ہے جو ہماری تمام زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر سے متعلق ان تینوں کتابوں میں بھی یہ قدر مشترک پائی جاتی ہے کہ کسی بھی زبان کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور بحالی کے لیے کی جانے والی کوئی بھی کوشش آخری تجزیے میں ہماری رہنمائی ایک ایسے اتفاق اور افہام و تفہیم کی طرف کرتے ہیں جس کی بنیاد باہمی محبت احترام اور انصاف پر قائم ہے اور جو لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی پنجابی زبان سے محبت کس طرح اردو کی محبت کے ساتھ ساتھ چلتی ہے' اس کے مظاہر ہمیں ''فقیر نامے'' میں شامل خطوط میں جا بجا ملتے ہیں کہ بہت سے خط لکھے ہی اردو میں گئے ہیں اور ان کے موضوعات میں ڈاکٹر صاحب کی لسانی سوجھ بوجھ' معاملہ فہمی اور باہمی اشتراک کی فضا جگہ جگہ جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر جب وہ سکہ بند اردو ادیبوں مولانا غلام رسول مہر اور ایم ڈی تاثیر کو پنجابی میں لکھنے پر آمادہ کرنے کے لیے بات کرتے ہیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے ان کی مراد دونوں زبانوں میں مقابلے اور موازنے کے بجائے وہ دوستی اور بھائی چارہ ہے جو اپنے اظہار کے لیے اسکرپٹ اور لہجے سے بالاتر ہو کر ان جذبوں اور آدرشوں کی بات کرتا ہے جو ہم سب کا مشترکہ ورثہ اور سرمایہ ہیں۔ قارئین کے مطالعے میں سہولت کی غرض سے میں صرف ان خطوط سے مثالیں دے رہا ہوں جو اردو میں ہی لکھے گئے تھے۔
''پنجابی ادبی اکیڈمی'' نے ایک کتاب ''پنجابی قصے فارسی زبان میں'' چھاپی ہے' یہ اکیڈمی کی پہلی کتاب ہے دوسری کتاب ''دیوان غنیمت'' چھپ رہی ہے اور تیسری کتاب ''بلھے شاہ'' کی کافیاں پورا کلام اور ایک میرا تنقیدی اور تاریخی نوٹ 300صفحے کے ساتھ چھپ رہی ہے۔ انشاء اللہ تیاری پر یہ بھی بھجوائیں گے''
''سیاسیات حاضرہ اور درس و تدریس'' کے موضوع پر ڈاکٹر محمد باقر کی ایک تقریر کا احوال کچھ یوں بیان کرتے ہیں ''ڈاکٹر صاحب نے اپنا مقالہ پڑھنا شروع کیا جس کی ذہنی فکری اور تجرباتی اہمیت نے مجھے دوسروں کی طرح اپنی طرف متوجہ کرکے اپنے آخری الفاظ تک سختی سے پابند کر لیا۔ سبحان اللہ کیا مقالہ تھا، ڈاکٹر صاحب موصوف اس ادا سے حاضرین اور وقت پر ایسے چھائے رہے کہ کسی کو ان کے چہرے کی طرف سے نظر ہٹانے کی تاب نہ رہی'' لیکن جنید اکرم اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر ریسرچ سینٹر کا سب سے بڑا کارنامہ 594 صفحات پر مشتمل ان کی ایک مثنوی ''سنگی'' کی دریافت' تدوین اور اشاعت ہے ۔
جس کا دیباچہ اس وقت کے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری سر شہاب الدین نے7اکتوبر 1939کو ''پن چھان'' کے عنوان سے لکھا تھا مگر اس کتاب اور اس دیباچے کو عملی طور پر اشاعت کی توفیق تقریباً آٹھ دہائیاں بعد نصیب ہوئی کہ اس کا مسودہ بوجوہ ایسا گم ہوا کہ اگر جنید اکرم دیوانوں کی طرح اس کی تلاش میں نہ لگا رہتا تو شاید یہ ہمیشہ کے لیے گم ہو جاتا۔ یہ مثنوی میاں محمد کی سیف الملوک کی بحر میں لکھی گئی ہے اور اس میں لوک دانش اور جدید علوم سے حاصل کردہ دانش کو آپس میں اس طرح سے یک جان کر دیا گیا ہے کہ یہ شاعری اب ایک پورے دور کی ترجمان بن گئی ہے۔
دنیا بھر کی یونیورسٹیوں ان کی مختلف چیئرز اور اشاعتی اداروں میں تاریخ اور تحقیق پر جو خصوصی توجہ دی جاتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسی کی بنیاد پر ان کی علمی عظمت کا وہ ڈھانچہ استوار ہوتا ہے جو آگے چل کر ان کی پہچان بن جاتا ہے۔ یہ بہت خوش آیند بات ہے کہ پنجاب یونیورسٹی نے بھی وقت کی اس اہم ضرورت کو محسوس کیا ہے۔
اب ضرورت ہے کہ ہماری دیگر یونیورسٹیوں میں بھی زبان و ادب اور تہذیب و تاریخ کے حوالے سے اسی طرح کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ وہ مشترکہ عناصر زیادہ گہرائی اور وضاحت کے ساتھ کھل کر سامنے آ سکیں جن کے باہمی تعامل سے ہم ایک معاشرے اور قوم کی وہ شکل اختیار کر سکتے ہیں کہ جس میں ماضی حال اور مستقبل ایک ہی سلسلے کی لڑیاں بن جائیں اور ہماری تمام مقامی تہذیبیں اور زبانیں ہم سب کے ایسے مشترکہ خدوخال کی صورت اختیار کریں جو ہمارے عکس کی ترجمان بھی ہو اور ہمارے خوابوں کی نگہبان بھی۔