تھنک ٹینک
عام لوگوں کو چونکہ تھنک ٹھینک کا مطلب معلوم نہیں ہے۔
یہ خبر اس ہفتے بلکہ مہینے بلکہ سال اگر کوئی اچھا سا ''ریاضی دان '' مل جائے تو صدی کی بھی سب سے بڑی خبر قرار دی جا سکتی ہے کہ اے این پی کے تھینک ٹینک کا اجلاس چارسدہ میں منعقد ہوا۔ عام لوگوں کو چونکہ تھنک ٹھینک کا مطلب معلوم نہیں ہے اس لغات اور پھر خاص طور پر مولوی عبد الحق مرحوم کی اردو انگلش ڈکشنری سے استفادہ کرنے کے بعد ہم نے '' تھنک ٹینک '' کا جو ترجمہ وضع کیا ہے وہ '' غور کے حوض '' بنتا ہے اب یہ پتہ لگانا تو ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اے این پی کا یہ غور کا حوض کہاں واقع ہے اور اس میں کون کون سی مچھلیاں ڈبکیاں لگاتی ہیں یا خواص اس حوض میں تیراکی کرتے ہیں لیکن یہ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ایک پشتو کہاوت کے مطابق ہی ہو سکتا ہے ۔ اسی کہاوت
''خڑے اوبہ ڑااندہ مہیان
کا بھی سلیس ترجمہ گدلا پانی اندھی مچھلیاںبنتا ہے
ایک اور بات جو ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اے این پی کے اس غور کے حوض میں پانی یقینًا '' چلو بھر '' سے بھی کم ہوگا ورنہ اب تک اس تھنک ٹینک یا غور کے حوض کی اندھی مچھلیوں کے ڈوبنے بلکہ خود کشی کرنے کی خبر آچکی تھی اور تھنک ٹینک '' پھنک پھنک '' ہو چکا ہوتا ۔
ایک ایسی کوئی خبر نہیں آئی جس کا مطلب ہے کہ اس تھنک ٹینک یا غور کے '' حوض '' میں پانی چلو بھر بھی نہیں ہوگا ہو سکتا ہے کہ صرف ایک '' قطرہ '' ہو اور اس میں ان کا دجلہ دکھائی دے گیا ہو ۔ایسا ہی ہوا ہوگا کیونکہ لفظ ''دھاندلی '' تو بچوں کو بھی آتا ہے اور دھاندلی ہی وہ قطرہ ہے جس میں ہر کوئی اپنا ''دجلہ '' بہا بھی سکتا ہے اور اس میں نہا بھی سکتا ہے بلکہ نہا کر دودھ کا دھلہ بھی بن جاتا ہے ۔
جہاں تک دھاندلی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں ہم کچھ زیادہ اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ نہ کبھی ہم نے خود دھاندلی کی ہے نہ ہمارے ساتھ ہوئی ہے کہ ہم اس بدبُو دار گندے گلے سڑے گٹھر کے پاس کبھی گئے نہیں یا نہیں جا سکے ہیں جسے '' ساہ ست '' کہتے ہیں۔ یہ دنیا کی تمام سیاہوں کو جمع کر اس کا ست یا جوہر کو کہتے ہیں ۔
لیکن اتنا جانتے ہیں کہ اس کی ابتداء ایک بطل جلیل حضرت جناب ڈبل بیرل خان شیر سرحد، مرد آہن جناب خان اعظم خان عبد القیوم خان نے کی تھی چونکہ وہ ہر لحاظ سے '' ٹو ان ون '' تھے، نام کے ساتھ ایک خان آگے اور ایک پیچھے ہوتا تھا '' خان اعظم '' کے نام سے اس کا رشتہ چنگیز خان سے بھی جا ملتاتھا، شیر سرحد اس لیے کہ سرحد میں انھوں نے کوئی خرگوش یا ہرن نہیں چھوڑا تھا، ذات کے کشمیری اور ''پات '' کے پختون تھے، سیاست کانگریس سے شروع اور مسلم لیگ میں آئے، اس لیے اس کا کام حالات و واقعات اور صفات کو مدنظر رکھ کر بھٹو نے اسے ڈبل بیرل خان کا خطاب دیا تھا ۔
یحیٰ خان کو بھی یہ زرین و خونین مشورہ اسی نے دیا تھا کہ میں نے پختونوں جیسے جنگجوؤں کو صرف پولیس اور ملیشا سے سیدھا کیا ہے اور تمہارے پاس اتنی سیکیورٹی فورسز ہے اور ان بزدل بنگالیوں کو سیدھا نہیں کر سکتے اور وہ یہ مشورہ مان گیا ۔مطلب کہنے کا یہ ہے کہ جس طرح اکثر ایجادات کا سرا جاکر ''آئن سٹائن ''سے ملتا ہے اسی طرح سیاسی ایجاد کا باوا آدم بھی ڈبل بیرل خان ہی ثابت ہو جاتا اس کمال کا آدمی یا ہپناٹزم کا بھی ماہر تھا کہ قائد اعظم کی آشیر واد سے سرحد کی حکومت کو 3کے مقابل صرف سولہ مجاہدوں سے فتح کیا، اس طرح وہ مختیار خلجی کا ہم پلہ ہو جاتا ہے جس نے 18آدمیوں سے ایک پورا قلعہ فتح کیا تھا۔ آج تک اس کلیے کو ریاضی کے کسی ماہر نے حل نہیں کیا کہ 36سے 16کیسے زیادہ ہو جاتے اگر ایک کو ڈبل بیرل بھی کر دیا جائے تو 32بن جاتے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دھاندلی تو پاکستانی سیاست کا زیور ہے اور یہ جو سکت کھا کر دھاندلی دھاندکی کر رہے ہیں یا وہ دھاندلی نہیں کر چکے ہیں ۔
ہمیں کچھ اور پارٹیوں سے لینا دینا نہیں لیکن اے این پی سے ہے جو غیر آئینی طور پر خدائی خدمت گار تحریک اور باچا خان ولی خان کی وارث بنی ہوئی ۔ اس حد تک بھی ہمیں کوئی شکایت نہیں ان دونوں اکابرین کی ذاتی جائیداد زمینوں اور وارثوں پر بے شک ان کا حق ہے لیکن آخر کس اصول کے تحت وہ ان کے نظریات کی وراثت کے مدعی ہیں۔
نظریات و عقائد تو محکمہ مال کے خانہ ملکیت میں نہیں ہوتے کہ ان کا انتقال وراثت ان کے نام ہو جائے اس کے لیے کوالیفائی ہونا پڑتا ہے ۔
موجودہ اے این پی کے منتخب خاندانی وراثوں کے علمبردار ذرا یہ تو بتائیں کہ ولی خان نے اپنی زندگی ہی میں اجمل خٹک کو پارٹی صدر کیوں بنایا اس وقت تو ان کے رشتہ دار بھائی بھتیجے اور بیٹے سب کے سب موجود تھے تو خاندان بلکہ نسل سے بھی تعلق نہ رکھنے والے ایک بے بضاعت اور درویش صفت شاعر کو صدارت کیوں سونپ دی تھی۔ اس لیے کہ ولی خان ایک بہت بڑے مدبر اور جمہوریت کے علمبردار تھے اور وہ نہیں چاہتے کہ نظریات کو خاندانی ملکیت اور وراثت بنائیں، دستار اسی سر کو سجے گا جو دستار کے قابل ہوتا ہے۔ خوشحال خان خٹک کا یہ شعر قابل غور ہے ۔
چہ دستار تڑی ہزار دی
ددستار سڑی پہ شمار دی
ترجمہ، دستار باندھنے والے تو بہت ہیں لیکن دستار کے لائق سر گنتی کے ہوتے ہیں ۔
لیکن موجودہ اے این پی نے باچا خان اور ولی خان کے تمام نظریات کا وہ حشر نشر کر دیا کہ شاید دوسرے بھی ایسا نہ کر پاتے بلکہ میں تو ان لوگوں کو مشورہ دوں گا جنہوں نے باچا خان اور ولی خان کے نام بیچ کر عہدے اور کرسیاں حاصل کی ہوئی ہیں کہ خدا کے لیے اب تک جتنا ظلم کر چکے ہو اس کا ازالہ بھی انتہائی مشکل ہے یہ نہ کوئی'' جائیداد '' ہے اور نہ ہی کوئی صوفیانہ گدی نشینی ویسے بھی تیسری پیڑھی کا المیہ تاریخ کا ایک مستقل سلسلہ ہے ۔ہم خود تیری پیڑھی میں ہیں ہمارے دادا نے ساری جائیداد ہاری تھی، والد کو دمہ نے قبل از وقت مار دیا ہماری چار پانچ نوکریاں قربان ہوگئیں یوں ہم اور اسفند یار ایک ہی پیج پر ہیں بلکہ ہمارا خیال ہے کہ کچھ وکلاء سے مشورے کے بعد ان پر مقدمہ دائر کریں کہ ہمارے بزرگوں نظریات اور مقاصد کو ان لوگوں نے بیج دیا ہے ہار دیا ہے اس کا ہر جانہ ان خاندانوں کو دلایا جائے جو اس تحریک پر قربان ہوئے ہیں ۔