اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہم سب کو اپنا بندہ بنا کر بھیجا ہے اور یہ وہ اعزاز ہے کہ جس کا نعم البدل ممکن نہیں۔ بندگی وہ عروج ہے جو نفس کے زوال سے شروع ہوتی ہے۔ یہ وہ کمال ہے جو انہیں نصیب ہوتا ہے جو ایک در کے سوا کہیں کے نہیں رہتے، اور یہ ایسی معراج ہے جو اپنے آپ کو پامال کر دینے سے ملتی ہے۔
جیسے ہمارے دور میں سر، گورنر، فیلڈ مارشل، عالم فاضل کا یا کوئی اور خطاب یا تمغہ ملتا ہے، بالکل اسی طرح بندگی وہ نشانِ حیدر ہے جو اللہ والوں کے حصے میں آتا ہے۔ بندہ بننا باقی کیریئر پروفیشن کی طرح ہر وقت دماغ میں رہنا چاہیے۔ جیسے ہمیں ڈاکٹر، انجینئر یا پائلٹ بننے کی دھن سوار رہتی ہے بالکل اسی طرح بندہ بننے کی بھی کوشش جاری رہنی چاہیے۔ ڈرائیونگ، تیراکی اور شوٹنگ کی طرح بندگی وہ یونیورسل اِسکل ہے جو ہر موقع پر کام آتی ہے۔
خُدا پوچھے ان موٹیویشنل اسپیکرز سے اور بیڑا غرق کرے ان سیلف ڈیویلپمنٹ کتابوں کا، ان کا سارا فوکس اپنے آپ سے محبت کرنے پر ہوتا ہے۔ آپ کے منصوبے، آپ کا وژن، آپ کا وقت، آپ کی قابلیت و اہلیت... کاش کوئی سیلف ڈسٹرکشن پر بھی کتاب لکھ دے کہ یہ ''میں'' مرتی کیسے ہے؟ سیلف میڈ کا نعرہ لگانے والوں کو شاید اللہ پر یقین نہیں ہوتا۔
بندگی سب کچھ تیاگ کر اپنے مالک کے سامنے جُھک جانے کا نام ہے۔ میرے استاد کہتے ہیں ''خود سے اُٹھو گے تو خُدا تک پہنچو گے۔'' بندگی میں خیانت شرک کہلاتی ہے۔ بندگی میں کرپشن کو گناہ کہتے ہیں، اور بندگی کی ضد اپنی ذات ہے۔ بندہ اللہ کو نہیں، اپنے آپ کو پوج رہا ہوتا ہے۔ دل چاہا تو نماز پڑھ لی، دل چاہا تو خیرات کر دی۔ یہ تو 'دل' کی عبادت ہے۔ اللہ کی بندگی تھوڑی ہے۔ بندہ اپنے تصوّر کو ہی پوج رہا ہوتا ہے۔
انسان بڑا چالباز واقع ہوا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بندگی کی چادر میں چھید کرتا رہتا ہے اور ان سوراخوں سے پھر نفاق چھن چھن کر آتا ہے۔ سوراخوں والی چادروں کی اتنی بہتات ہوگئی ہے کہ اگر کوئی سالم چادر لے کر آجائے تو اجنبی لگتا ہے؛ اور لوگ اُسے ہی طعنے دینے لگتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ عشق میں جب تک طعنے نہ ملیں، اس پر رنگ نہیں چڑھتا۔
یہ چھوٹے چھوٹے گناہ جب بڑے ہو جاتے ہیں تو معاشرہ انہیں قبول کر لیتا ہے۔ یہ معاشرے کا حصہ بن جاتے ہیں اور پھر انہیں کوئی بُرا بھی نہیں کہتا۔ پہلے لوگ کہتے تھے کہ یوں کرو گے تو ''کوئی کیا کہے گا'' جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے یہ 'کوئی' بھی مر گیا ہے۔
دنیا میں ہر کام ہم دو طرفہ کرتے ہیں۔ محبت، بزنس، بچوں کی پرورش، احسان۔ سوائے بندگی کے۔ بس اللہ ہی ہمیں دیئے جائے، ہمیں جواب میں کچھ نہیں کرنا۔ یا تو ہمارا تعلق اس سے غفلت کا رہ گیا ہے، یا معصیت کا۔
ہم جیسے دین کے ''بیک بینچرز'' کو بندگی کا ذوق پروان چڑھانا چاہیے، اور یہ کام بہت آسان ہے۔ آپ کو صرف دو کام نہیں کرنے، دو اور کرنے ہیں؛ اور آہستہ آہستہ بندگی کا ذوق بڑھتا چلا جائے گا۔
نہ کرنے کے کاموں میں سے سب سے زیادہ اہم اور پہلا کام:
1۔ اپنا ذکر نہ کیجیے: ہر وہ بات، ہر وہ جملہ، ہر وہ کارروائی جس کے پیچھے آپ کو اپنا وجود نظر آئے، وہاں سے اپنے آپ کی نفی کر دیں۔ یہ جو ہم اپنی جاب، گاڑی، رہائش، اپنی شہریت، اپنی تعلیم، سفر، بیوی، بچوں کے کارناموں کا ذکر، حتیٰ کہ اپنے شیخ کی جھوٹی سچی بڑائیاں بیان کرتے ہیں، یہ سب ''میں'' ہی تو ہے۔ بندہ ہر ہر طریقے سے وہ بات بیان کرتا ہے جس سے اس کی شان بڑھے۔ آدمی ہر اچھی شئے کا تعلق اللہ سے جوڑ دے۔ اللہ کی توفیق سے کچھ پڑھ لیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بچوں کو قابل بنایا۔ دیکھیے اللہ نے کیسا اچھا گھر بنوا دیا ورنہ میری اتنی اوقات کہاں... اللہ نے فضل کیا اور اپنے نیک بندے کے ساتھ جوڑ دیا۔ میرے استادِ محترم کہتے ہیں ''مئے کا نشہ ایک رات میں اترجاتا ہے، مگر 'میں' کا نشہ زندگی بھر نہیں اُترتا۔'' آج سے ''منفی میں'' کے فارمولے پر کام شروع کر دیجیے۔ کبھی کبھی بندہ دین کے احکام تک صرف اس لیے بتاتا ہے کہ اس کی اپنی ''میں'' کی تسکین ہو سکے۔
وہ نیکی جو دعویٰ پیدا کرے، اس سے وہ گناہ بہتر ہے جو توڑ کر رکھ دے۔ جتنا دعویٰ کرے گا، اتنا اللہ کی بندگی سے نکلے گا۔ دعویٰ پیدا ہو جائے تو اچھے بھلے آدمی کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ یہ جو اپنی ذات کا پیالہ ہے ناں، اسے اپنی ذات کی نفی سے دھوتے رہنا چاہیے۔ ایک نہ ایک دن یہ ضرور چمکے گا۔
آپ نے کبھی قوسِ قزح دیکھی ہے؟ کتنا خوبصورت منظر ہوتا ہے ناں! مگر اس کا وجود بادلوں، ہوا، نمی اور سورج کی کرنوں پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ سب نہ ہوں تو قوسِ قزح کا وجود ہی ممکن نہیں۔ ہمیں بھی اللہ کے نیک لوگ، نسبت، اللہ کا ذکر، تربیت، کسی کی دعا اور گریہ و زاری قوسِ قزح کی طرح چمکا دیتے ہیں۔ یہ ان کی مہربانی ہے، اللہ کا فضل ہے۔ قوسِ قزح کا تو وجود ہی نہیں۔ ہم پر الگ الگ رنگ چڑھتے ہیں۔ مال و دولت کا رنگ، علم و ہنر کا، خاندان و نصب کا، نوکری و رہائش کا، جوانی و غصّے کا، شہوت و دیوانگی کا۔ یاد رکھیے! رنگ دعویٰ پیدا کرتا ہے۔ اللہ کا ذکر وہ رنگ کاٹ ہے جو سارے رنگ ختم کر کے بندگی کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ جب سارے رنگ چھٹتے ہیں تو اندر سے بندگی کا رنگ نکلتا ہے۔
2۔ اللہ کی مخلوق کو تنگ نہ کیجیے: دوسرا کام جو نہیں کرنا، وہ یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کو تنگ نہ کیجیے۔ مومن آدمی سے نفع اس طرح چھنتا ہے جیسے بادل سے بارش۔ وہ کسی کو ضرر پہنچا ہی نہیں سکتا۔ چپ رہیے اور جب تک واجب اور فرض کے درجے میں نہ آ جائے، کسی پر تنقید نہ کیجیے۔ میرے ایک اُستاد کہتے تھے ''چُپ سے بڑی بددعا کوئی نہیں۔'' بندہ جب چپ ہو جائے تو قدرت بولتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں چپ رہنا بڑی عبادت ہے۔ مسجدوں میں عموماً لکھا ہوتا ہے ''موبائل بند رکھیے۔'' اس کی جگہ اگر ''منہ بند رکھیے'' لکھا ہوتا تو کتنوں کا بھلا ہوتا!
لوگوں کا احتساب کرنا چھوڑ دیجیے۔ حقوق اللہ، حقوق العباد، معاشرے کے حقوق، حکومت کے حقوق... یقین جانیے آپ کی قبر میں اُس شخص سے متعلق سوال نہیں ہوگا۔ جس بندے کو اللہ نے ڈھیل دے رکھی ہو، آپ اس کی رسّی کیوں کھینچتے ہیں؟ رب جانے اور رب کے بندے۔ مومن سے تو بس علم و نفع کا صدور ہوتے رہنا چاہیے۔ آپ نے وہ حدیث نہیں سُنی جس میں اللہ سو قتل کرنے والے کو معاف کر دیتا ہے۔ اب نکالیے حساب حقوق العباد کا، اور پڑ جائیے اس کے پیچھے... یا اس عورت کے جو کتے کو پانی پلانے پر بخش دی گئی۔
یاد رکھیے! آپ لوگوں کی برائیاں نکال نکال کر تھک جائیں گے مگر قدرت پھر بھی کوئی نہ کوئی بہانہ اس کی بخشش کا ڈھونڈ ہی لے گی۔ الله کو جاننے کا دعویٰ کرنے والوں کو اتنا تو اس کی رحمت کا بھی ادراک ہونا چاہیے۔ جو خدا کو جانتا ہو اسے چاہیے کہ دل بڑا رکھے۔ شریعت کی لاٹھی لے کر پیچھے نہ پڑ جایا کرے۔ بس اپنی فکر کرے۔ کافر کی توبہ لا الہ الا اللہ ہے، صوفی کی توبہ اپنی نیکیوں پر بھی معافی مانگنا ہے۔ کوئی کسی غلطی پر چھوٹ جائے تو کوئی پکڑا جائے۔ اس کی ہر روز ایک نئی شان ہے۔ اس نے لوگوں کے گناہ اپنی رحمت سے، بغیر کسی وجہ کے بخش دیئے تو اسے کس کو جواب دینا ہے؟ اور وہ آپ کی زندگی بھر کی محنت سے بے نیاز ہو جائے تو کیا کریں گے؟
بندہ بن کر رہیے، خدا نہ بنیے۔ اللہ کے ساتھ اصل تعلق مالک اور بندے کا ہے۔ اس بندگی میں جب سچائی آتی ہے تو اللہ اپنی محبت اور شفقت کھولتا ہے۔ اسے نماز میں حصہ دیتا ہے۔ اپنے آپ کو پاک رکھیے؛ اور پاک کا مطلب ہے حالت اور عقیدے میں پاک۔
کسی بھی شخص کو اپنے بنائے گئے معیارات اور فریم ورک پر تولنے سے پہلے سوچ لیجیے کہ اس کا اللہ سے کیا تعلق ہے؟ اگر کوئی خاص نہیں تو چپ ہوجائیے اور اس کےلیے ہدایت کی دعا مانگیے۔ اگر کوئی تعلق ہے، تو یقین جانیے کہ اللہ آپ کی چرب زبانی کے بدلے اپنے دوست کو آپ کے حوالے نہیں کرے گا۔ عزت و شہرت مالک کی دین ہے۔ مجال نہیں کسی کی جو چھین سکے۔ دوسروں کے گناہوں تک کی تاویل کرنی چاہیے، اور پھر بھی دل نہ مانے تو یقین جانیے یہ کجی آپ ہی میں ہے۔
یہ سب نفس کے دھندے ہیں جو آپ کو آپ کے اعمال بڑے کرکے اور لوگوں کے اعمال چھوٹے کرکے دِکھاتے ہیں۔ اگر آپ نفس کو خدا پر ترجیح دیتے ہیں تو نفس کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر اللہ کے حکم کو فوقیت دیتے ہیں تو ابھی سفر میں ہیں۔ ہاں اگر اللہ کی مخلوق سے پیار ہے اور اس کے حکم کا انتظار رہتا ہے تو اللہ کا بڑا فضل ہے۔
ہر کام کرنے سے پہلے سوچ لیجیے کہ یہ کام اللہ سے قریب کر رہا ہے یا دور۔
پودوں کو پانی دیجیے کہ وہ مجبور ہیں، محروم ہیں۔ پرندوں، جانوروں کا خیال رکھیے کہ ان کی دعا سے انسانوں کو رزق ملتا ہے۔
کبھی آپ نے سوچا بھی ہے کہ آخر دنیا میں آپ کو سب میں خرابی، برائی دِکھتی ہی کیوں ہے؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ہمیشہ منہ سے کچھ برا ہی نکلتا ہے؟ یہ گناہوں کی آگ ہے جو دل میں لاوا بن کر سلگ رہی ہے؛ اور آپ اس لاوے کو صجح و شام معاشرے پر برساتے رہتے ہیں۔ اِسے اللہ کی یاد سے ٹھنڈا کیجیے۔ اللہ والوں کے پاس محبت نباہنے کا وقت نہیں ہوتا، وہ نفرت کےلیے وقت کہاں سے لائیں گے؟
اللہ کی مخلوق کو اللہ کےلیے چھوڑ دیجیے۔ درمیان سے نکل آئیے، گناہ پر گواہی نہ دیجیے۔ میرے ایک دوست عبداللہ کے گھر چوری ہو گئی۔ ہر طریقے سے ثابت ہو گیا کہ کام کرنے والی ماسی نے زیور چرایا ہے۔ مگر جب اس سے باز پرس کی تو وہ کہنے لگی: میں کمزور ہوں، مجبور ہوں، میرا کوئی سفارشی نہیں۔ کیا پھر بھی تم مجھ پر حساب قائم کرو گے؟
عبداللہ نے اُسے چھوڑ دیا اور دعا مانگی کہ اے اللہ! ایک دن میری بھی یہ حالت ہوگی، تو بھی حساب قائم نہ کیجیو۔
اللہ اپنے نام کی عزت اور اپنے ادب کا بدلہ ضرور دیتے ہیں۔ اپنی ذات کے خول سے نکل کر مخلوقِ خدا کو دیکھیے۔ خدا بھی مل جائے گا۔
ہم بارگاہِ عشق میں مقبول یوں ہوئے
خود سے بچھڑ گئے تیری قربت کے شوق میں
اب کرنے والے کاموں میں سے پہلا یہ ہے کہ:
1۔ مجاہدہ کیجیے: مجاہدہ ہر وہ شئے ہے جو نفس پر گراں گزرے۔ اس پر قائم رہیے۔ ہر چیز جس کا دل چاہے، اگر مل جائے تو طبیعت باغی ہو جاتی ہے۔ کسی کی نہیں سنتی۔ دنیا کی محبت نیچے کھینچتی ہے، مجاہدہ اوپر اٹھاتا ہے۔ دنیا میں کسی سے عشق ہوجائے اور بندہ ثابت قدم رہے تو صدیوں کہانی یاد رکھی جاتی ہے۔ ایسا کیسے ہو کہ خدا سے عشق ہو جائے اور مجاہدہ نہ آئے۔ قدرت نچوڑ لیتی ہے، جھنجوڑ ڈالتی ہے۔ ہر ہر طرح سے آزماتی ہے کہ وقتی بخار ہے، نفس کی چال ہے، طبیعت کی روانی ہے یا حقیقتاً عشق ہوا بھی ہے۔ عشق شعور میں تصرف کرتا ہے اور آپ کو وہ منزلیں طے کراتا ہے جو عقل والوں کو خواب میں بھی نصیب نہیں۔ اللہ کے عشق کو انسانوں کے عشق جیسا سمجھنا اللہ کی توہین ہے۔
محبت میں سب سے مشکل مقام محبوب کی ناراضگی کا خوف ہے۔ محبت تو ہر لمحہ خوف میں گِھری رہتی ہے۔ مجاہدہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اللہ کے قرب میں جب بندہ اپنی ذات کی محبت سے نکلتا ہے تو غیر کی محبت کہاں سے آئے گی؟ یہ صدیقیت کا مقام ہے۔
آپ روز مجاہدہ کرتے رہیے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو من و عن تسلیم کرتے چلے جائیے۔ قبولیت کی تمام راہیں سنت اعمال نے دیکھ رکھی ہیں۔ آپ کو تو صرف چلنا ہے۔ طلب وہ ایندھن ہے جسے کششِ ثقل کی پرواہ نہیں، اور عشق وہ منزل جس کا اختتام نہیں۔
تو نے دیکھی ہی کہاں عشق کی اگلی منزل
2۔ ذکر کیجیے: سب سے اہم کام ہے ذکر کرنا۔ ذکر اور محبت بالواسطہ ایک دوسرے کے مرہون منت ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کو کسی سے محبت ہو اور اس کا ذکر زبان پر نہ آئے۔ یا کسی کا ذکر بار بار کریں اور اس سے محبت نہ ہو جائے۔
عمر گزری ہے تیری یاد کا نشہ کرتے
اب ترا ذکر نہ چھیڑیں تو بدن ٹوٹتا ہے
اللہ کا ذکر بےتوجہی سے ہی کیوں نہ کیا جائے، اپنا اثر چھوڑتا ہے۔ بندہ ذکر میں جتنا ڈوبتا ہے، اتنی ہی بقا کی شان آتی ہے۔ ذکر اور محبت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ذکر سے دل میں تپش پیدا ہوجاتی ہے اللہ سے ملنے کی، اسے نماز ٹھنڈا کرتی ہے۔ ذکر والوں کی آنکھیں ہمیشہ بھری رہتی ہیں کہ اب چھلکی کہ تب چھلکی۔ انہیں ہر جگہ خدا دِکھتا ہے۔ اسی کی مشیت نظر آتی ہے۔ اسی کے ذکر سے انسان اپنے وجود کی پستی سے نکلتا ہے۔ کثرتِ ذکر سے گناہوں کی لذت ختم ہو جاتی ہے تو پھر بندہ گناہ کرے ہی کیوں؟ ذکر سے اللہ کی معرفت ملتی ہے۔
اللہ کی معرفت جب دل سے ٹکراتی ہے تو جو پہلا دروازہ ٹوٹتا ہے، وہ گناہ کا ہے۔ عظمت کی تجلی جب دل پر پڑتی ہے تو بندہ شکر کرتا ہے۔ اس کی محبت کی تجلی جب دل پر پڑتی ہے تو بندہ استغفار کرتا ہے۔ ذکر سے وصال نصیب ہوتا ہے؛ اور وصال اللہ کے حضور میں اپنی ذات کو فنا کر دینے کا نام ہے۔ جو شخص وصال کو پا کر بھی کہے کہ میں ہوں، وہ ابھی تک جدائی میں ہے، اپنے رب سے فراق میں ہے۔ وصال اسے نصیب ہی کہاں ہوا؟ عشقِ الہٰی وہ دریا ہے کہ تیرنے والا تھکتا نہیں اور ڈوبنے والا مرتا نہیں۔
آئیے دعا کرتے ہیں:
اے وسیع و عریض دروازوں کے مالک اللہ! مجھ پر اپنی ربوبیت کی تجلی کردے۔ تیرا رب ہونا مجھے راس آجائے. نماز جو بندگی کا جوہر ہے وہ نصیب ہو جائے۔
تیرا ذکر کروں تو مجھے میرا آپ بھول جائے۔ مجھے مجھ سے بچا لے میرے مالک۔ مجھے خود سے ملا دے میرے مولا۔ مجھے بندگی کا سلیقہ دے، عبادت کا ذوق دے، ذکر کا شوق دے۔ تو کیا کرے گا مجھے عذاب دے کر، میں تیرا شکر کروں، میں تجھ پر ایمان لاؤں۔
میرے پاس کچھ نہیں میرے مالک۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ نیکیاں بہتر ہیں جو دِکھاوے میں پوری ہو گئیں یا وہ گناہ جو تیرے ڈر سے ادھورے رہ گئے۔
میں تو گناہ بھی انجوائے نہ کر سکا۔ گناہ سے پہلے بھی تیرا دھیان، گناہ کے درمیان بھی تیرا خوف اور گناہ کے بعد بھی تجھ ہی سے معافی۔
اے پاک و برتر، اے بےنیاز، اے شان والے اللہ، اے معلوم پر قدرت رکھنے والے اللہ۔ اے وہ ذات جس کی صفات بتانے کی قدرت کسی میں نہیں۔ اے مجھ سے پیار کرنے والے اللہ، اے میرے گناہوں سے درگزر کرنے والے اللہ، اے میرے نبی ﷺ کو دلاسے دینے والے اللہ، اے مجھ سے قریب اللہ، اے بندگی کا حق رکھنے والی واحد ذات۔ میرے پاس نیکیاں کوئی نہیں، تو مجھے میرے ادھورے بے لطف گناہوں کے صدقے معاف کر دے!
مجھے بندگی سکھا دے!
مجھے بندہ بنا دے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔