’’ہمیں کیوں یتیم کیا گیا‘‘

جاوید خان کے بچے قاتلوں سے جواب مانگتے ہیں


محمد ہارون May 18, 2013
محمد حسین نے اپنے تیسرے بیٹے کو حوصلہ مند سمجھ کر اسے فون کیا اور بتایا کہ بیٹا صاف بات تو یہ ہے کہ جاوید شہید ہوچکا ہے. فوٹو : فائل

دھماکے کی زور دار آواز کے ساتھ ہی سڑکوں پر بڑی تیزی کے ساتھ ایمرجنسی سائرن لگائے ایمبولینسیں، شہر کا سکون اعصاب شکن آوازوں میں دبوچنے لگیں، گھروں میں موجود خواتین اپنے پیاروں کے سروں کی دعائیں مانگنے لگیں۔

دفاتر، بازاروں میں موجود اور سڑکوں پر چلتی گاڑیوں میں بیٹھے لوگ دھماکے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے لگے، لگتا ہے پھر دہشت گرد اپنے ناپاک عزائم میں کام یاب ہو گئے، نہ جانے اس دھماکے میں کتنے بچوں کو یتیم کیا گیا ہو گا، کتنے گھر اجڑے ہوں گے، کتنی خواتین کا سہاگ ان سے چھین لیا گیا ہو گا، کتنے لوگ زخمی ہوئے ہوں گے، دھماکا خودکش ہو گا یا پھر کار بم دھماکا ہو گا ۔۔۔ اور نہ جانے اس سے ملتے جلتے کتنے سوالات کے جوابات لوگ تلاش کرنے لگے۔ ان ہی سوچوں اور خیالوں میں گم محمد حسین بھی تھا، جو اپنے موبائل پر ایکسپریس بریکنگ نیوز پر دھماکے کے حوالے سے اپنے آپ کو اپ ڈپٹ کر رہا تھا۔ اس دوران وہ اپنے ساتھی کے کہنے پراس کے ساتھ دفتر سے کام کے لیے روانہ ہو گیا، راستے میں بھی وہ اپنے دوست سے دھماکے بارے میں باتیں کر رہا تھا۔

کام پر پہنچتے ہی اس کا موبائل بجنے لگا، یہ فون کال اس کے لخت جگر جاوید خان کے فون سے تھی، جو ایک سی این جی اسٹیشن پر ملازم تھا لیکن آواز اسٹیشن کے مالک کی تھی، فون اٹھاتے ہی مالک نے اسے بتایا کہ جاوید جوڈیشیل کمپلیکس دھماکے میں شدید زخمی ہوچکا ہے اورآپ جلدی اسپتال پہنچ جائیں، محمد حسین نے ان سے پوچھا کہ مجھے صاف صاف بتاؤ کہ میرے لخت جگر کوکیا ہوا ہے مگر انہوں نے صرف اتنا کہا گیا کہ آپ اسپتال پہنچ جائیں۔ محمد حسین رکشے میں بیٹھ گیا اور راستے بھر ایک اذیت ناک کش مکش میں مبتلا رہا کہ آخر اس کے لخت جگر کو کیا ہوا ہوگا۔

اگروہ شہید ہو گیا ہو تو یہ اطلاع گھروالوں کوکیسے دوں گا، جاوید کی ماں تویہ صدمہ برداشت نہیں کرپائے گی اور اس کی جواں سال بہو کا کیا ہو گا، اس کے دومعصوم اورپھول بچوں کوکیا جواب دوں گا؟ ان ہی سوچوں میں گم وہ لیڈی ریڈنگ اسپتال پہنچے تو سی این جی کے مالک نے اسے گلے لگایا کہ جاوید دھماکے میں شہید ہو چکا ہے یہ خبر سنتے ہی محمد حسین کی تو جیسے دنیا ہی اجڑ گئی، اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا، لوگ اسے حوصلہ دینے لگے۔ یہ لمحہ کتنا سخت اور الم ناک ہوتا ہے، یہ وہی لوگ بہتر جانتے ہیں جو ایسے واقعات میں اپنے پیاروں کو ہمیشہ کے لیے کھو دیتے ہیں۔

محمد حسین نے خود پر قابو توپا لیا مگر اپنے لخت جگر کا تابوت اٹھانے سے قبل انہیں یہ غم کھائے جارہا تھا کہ اب گھروالوں کو یہ اطلاع کیسے دوں۔ جاویدحسین جو ان کے چار بیٹوں میں دوسرے نمبر پر تھا، خون میں لت پت اس کے سامنے پڑا ہوا تھا اور اس کا خون آلودوجود یہ سوال کر رہا تھا کہ اس نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جو اس کی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کے معصوم بچوں کی زندگی بھی برباد کر گیا مگر محمد حسین کے پاس تو کیا وہاں پر موجود کسی کے پاس بھی اس کا جواب نہیں تھا۔

محمد حسین نے اپنے تیسرے بیٹے کو حوصلہ مند سمجھ کر اسے فون کیا اور بتایا کہ بیٹا صاف بات تو یہ ہے کہ جاوید شہید ہوچکا ہے مگر گھر پر یہ اطلاع ابھی مت دو، صرف اتنا بتا دو کہ قرآن پاک پڑھنا شروع کر دیں اور کہ دو کہ جاویددہماکے میں زخمی ہوا ہے۔ محمد حسین نے اپنے لخت جگر کا تابوت اٹھایا اور ایمبولینس میں ڈال کر اپنے گاؤں بخشو پل ریاض گڑھی روانہ ہو گیا اورایمبولینس کے ڈرائیور سے کہا کہ وہ سائرن بجاتے ہوئے نہ جائے جب ایمبولینس گھر پہنچی تو جاوید کی ماں دوڑتی ہوئے دروازے پر آئی اورشوہر کی بہتی آنکھوں سے سوال کیا کہ جاوید کا سر تو سلامت ہے نا، وہ بچ تو گیا ہے نا، دونوں پاؤں تو سلامت ہیں نا ؟

مگران کے پاس ان سوالوں کا ایک ہی جواب تھا کہ جاوید شہید ہو چکا ہے، اس کے ساتھ ہی جاوید کی ماں پرغش کھا گئی۔ جاوید کے معصوم بچے جو تین گھنٹے پہلے اپنے باپ کے پیار سے لطف اندوز ہوئے تھے، انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ دہشت گردوں نے ان کے سر سے باپ کا سایہ چھین لیا ہے، وہ یتیم ہو چکے ہیں۔ محمد حسین جو صبح اپنے گھر کے سارے افراد کے ساتھ ناشتہ کر کے نکلا تھا، کا ہنستا بستا گھر ماتم کدہ بن گیا۔

جاوید خان، محمد حسین کا وہ بیٹا تھا، جس پر وہ نازکیا کرتا تھا۔ یوں تو والدین کو اپنے سارے بچے عزیز ہوتے ہیں مگر محمد حسین اکثر اپنے دفتر میں ساتھیوں سے جاوید کی بہت تعریفیں کیاکرتا تھا اورجاوید خان بھی والدین کا فرمان بردارتھا۔ محمد جاوید خان شہید گذشتہ پانچ سال سے حیات آباد کے ایک سی این جی اسٹیشن پر منیجرکی حیثیت سے ملازم تھا اور اسٹیشن کے حوالے سے تمام مسئلے مسائل کا ذمہ دار تھا۔ مالکان جاوید خان پر اندھا دھند اعتماد کرتے تھے۔

محمد حسین نے بتایا کہ ہر مشکل وقت میں وہ اس کے ساتھ کندھے سے کندھا جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔ جاوید خان کے والد محمد حسین کے مطابق جاوید خان نے فیس بک پر آخری الفاظ کچھ یوں درج کئے تھے کہ ''اللہ تعالیٰ نے بہت کم عمر میں اسے بہت کچھ دیا ہے'' دھماکے کے روز جاوید خان گھر سے معمول کے مطابق موٹر سائیکل پر حیات آباد کام کے لیے روانہ ہوا، جب وہ جی ٹی روڈ پر ہشت نگری کے قریب پہنچا تو سی این جی پمپ کے مالک نے اسے فون کر کے بتایا کہ کورٹ میں سوئی گیس انتظامیہ کے خلاف جو درخواست دی تھی۔

آج اس کی تاریخ ہے لہٰذا دفتر آنے سے پہلے وہ تاریخ پر حاضر ہو۔ سو وہ ادھر پلٹ گیا، جوڈیشیل کمپلیکس کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اس دوران فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں اور پھر ایک زور دار دھماکا ہو گیا جس میں جاوید خان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ جب پمپ کے مالک کو پتا چلا کہ کورٹ میں دھماکا ہوا ہے تو اس نے جاوید خان کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے اسے فون کیا مگر اس کا موبائل اس کے دل کی حرکت کی طرح بند ہو چکا تھا۔

2007 سے اب تک صوبائی دارالحکومت پشاور میں دہشت گردوں نے ہزاروں افراد کے گھر اجاڑ دیے ہیں، سیکڑوں لوگ معذورہوچکے ہیں، یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، یہ تو بتایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ آخر دہشت گرد کن مقاصد کے حصول کے لیے بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔