نفستنفس و تندرستی
رئیس امروہوی میرے روحانی استاد ہیں، نفسیات وما بعد نفسیات پر لکھی گئیں ان کی کتب بچپن سے میری رہنمائی کرتی آئی ہیں،
رئیس امروہوی میرے روحانی استاد ہیں، نفسیات وما بعد نفسیات پر لکھی گئیں ان کی کتب بچپن سے میری رہنمائی کرتی آئی ہیں، میں خوش نصیب تھا کہ اس دور میں جب انسانی ذہن ذرا سی اشتہا پر بہک اٹھتا ہے میرے پاس امروہوی مرحوم کی کتابیں موجود تھیں جو دنیا اور نفس کی ان چھپی ہوئی باتوں کے بارے میں میری رہنمائی کرتی تھیں جس کا تذکرہ ہماری سوسائٹی میں اس وقت دبے الفاظ میں تو ہوتا تھا لیکن بڑے ان موضوعات پر بچوں کی رہنمائی سے کتراتے تھے (جو میں سمجھتا ہوں کہ لڑکپن کے دور سے تمام لڑکوں اور لڑکیوں کی صحیح تربیت اور رہنمائی کے لیے ضروری ہیں)۔
اب تو دور کافی بدل چکا ہے، ایسے بہت سے موضوعات جن پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا اب کھلے عام ہمارے سامنے ہیں لیکن اعتدال سے ہٹی ہوئی یہ روش بھی خطرناک ہے، نتیجتاً معاشرے میں اخلاقی برائیوں کا ایک سیل رواں ہے جس میں نوجوان نسل ڈوبتی جارہی ہے۔ کاش آج بھی گھر کے بڑے اپنی ذمے داریوں کو سمجھتے ہوئے بچوں کی اخلاقی تربیت کے ساتھ صحیح عمر سے ''نفس'' کی کارفرمائیوں سے آگاہ کریں تو معاشرے کو بتدریج سنبھالا جاسکتا ہے۔ اخبار کی پالیسی کے مطابق کافی باتوں کا کھل کر اظہار مناسب نہیں تاہم قارئین سمجھدار ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے وہ نوجوان جو ''نفس'' کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں اس کالمی سلسلے میں دی گئی سانس کی مشقیں لازمی کریں۔
سانس کی مشقوں سے دل و دماغ، حافظہ، یادداشت، جذباتی کیفیت، ذہنی حالت اور دماغی صحت پر جو اثرات پڑتے ہیں ان کا تفصیلی بیان گزشتہ کالموں میں کیا جاچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو مشقیں انسانی وجود کے 'بادشاہ' (دماغ) کے لیے اس قدر فائدہ مند ثابت ہوں گی، ان کا اثر ماتحت اعضاء، معدہ، جگر، گردے، جنسی غدود اور اعصاب و عضلات پر کتنا دیرپا اور گہرا پڑتا ہوگا۔ میں اس سے قبل عرض کرچکا ہوں کہ نہ کوئی مرض سو فیصدی جسمانی ہوتا ہے نہ سو فیصدی نفسیاتی! ہر مرض کی نشوونما میں (اتفاقی حادثات کو چھوڑ کر مثلاً برقی کرنٹ سے اتفاقاً مجروح ہوجانا) انسانی ذہن اہم ترین حصہ لیتا ہے، خواہ اس شکایت کی نوعیت بظاہر جسمانی ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر معدے کے جتنے امراض ہیں، بدہضمی سے لے کر سرطان معدہ تک، ان سب کے پیچھے دماغ (یعنی انداز فکر) کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اگر آپ کی سوچ بیمار ہے تو ممکن ہی نہیں کہ جسم صحت مند رہ سکے۔ تندرستی درحقیقت ''من درستی'' کا نام ہے۔
مریض بڑے بڑے حادثہ مرض کو سکون سے جھیل جاتا ہے، شرط یہ ہے کہ ذہن شدت مرض سے متاثر نہ ہو۔ جذبات اور جسمانی کیفیات میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ ہم سوچ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ ایک معمولی مثال لیجیے، بھوک میں غصہ آجاتا ہے اور غصے میں بھوک غائب ہوجاتی ہے یا خوف کی حالت میں جنسی ہیجان فرو ہوجاتا ہے، رعب کے سبب آدمی ہکلانے لگتا ہے، حزن و ملال کے عالم میں درد سر شروع ہوجاتا ہے اور درد سر کے سبب حزن و ملال کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ الغرض اس ضمن میں بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ جسم میں جذبات کی لطافت و شدت کو محسوس کرنے والا عضو صرف ''قلب'' ہے، ہم پر جو کچھ گزرتی ہے دل سب سے پہلے اس سے متاثر ہوتا ہے۔ خوشی سے دل باغ باغ ہوجانا، مسرت سے غنچہ دل کھل جانا، خوداعتمادی سے دل کا قوی ہوجانا یا اس کے برعکس ڈر کے مارے دل دھڑکنا، ہجوم غم سے دل بیٹھ جانا، کشش حسن کی تاثیر سے دل ہاتھ سے نکل جانا
دل می رود زد ستم دلاں خدارا (حافظ)
حسین مناظر کی طرف دل کھنچنا، غرض دلکشی، دلربائی، دلبری، دل افزائی، زندہ دلی، مردہ دلی، دل داری اور دلچسپی کی جتنی صورتیں ہیں اور ہوسکتی ہیں وہ سب جذبات کی کرشمہ آرائیوں سے ظہور میں آتی ہیں۔ دل کی مختلف حالتیں (دھڑکنا، ڈوبنا، اچھلنا، ڈولنا، ہلنا، بیٹھ جانا، مسکرانا، رونا) ہی امراض قلب کا سبب ہیں، ہارٹ اٹیک کے اسباب میں شدت جذبات بھی شامل ہے، اگر جذبات میں اعتدال پیدا ہوجائے تو دل خواہ مخواہ کی زیر باری، تشویش اور اضطراب سے بچ سکتا ہے۔ اس طرح جگر کی بیماریوں اور پھیپھڑے کی تکالیف (مثلاً تپ دق کہ غم کھانے اور شدید حساسیت کے سبب لاعلاج ہوجاتی ہے) کا تعلق بھی جذبات کے اتار چڑھائو سے ہی ہے، رہے جنسی امراض (نامردی، گرم ہوکر یکایک سرد ہوجانا، سرعت، خود لذتی یا جنسی انحراف کی اور بے شمار قسمیں، ہم جنس پرستی وغیرہ) تو سو فیصدی نہ سہی نوے فیصدی ان کے اسباب ذہنی اور صرف ذہنی ہوتے ہیں۔
لکنت، امراض جگر، جنسی اور دماغی امراض کے سیکڑوں مریضوں نے سانس کی مشقوں پر عمل کرکے یا تو مکمل صحت حاصل کرلی یا بہت حد تک اپنی بیماریوں پر قابو پالیا۔ ان مشقوں سے ہضم اور تحلیل غذا (غذا کو مکمل طور پر ہضم کرکے صالح خون بنانے کا عمل) کے نظام پر بڑا خوشگوار اثر پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں رنگ نکھر جاتا ہے، آنکھوں میں چمک اور کشش پیدا ہوجاتی ہے، آواز میں ایک قسم کی نغمگی آجاتی ہے۔ یہ تمام فائدے یقینی ہیں بشرطیکہ مشق تنفس نور، متبادل طرز تنفس (یا کوئی دوسری تجویز کی ہوئی مشق) پابندی کے ساتھ کسی استاد کی نگرانی میں کی جائے۔
ان مشقوں کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اگر ان پر پامردی سے عمل کیا جائے تو ذہن کی تمام قوتیں (خواہ وہ منفی ہوں یا مثبت) مخفی صلاحیتیں بیدار ہونے لگتی ہیں، گویا لاشعور اپنا پورا خزانہ شعور کی سطح پر انڈیل دیتا ہے، اس خزانے میں انگارے بھی ہیں اور یاقوت بھی، ہیرے بھی ہیں، پتھر بھی، سنگ ریزے بھی ہیں، جواہر پارے بھی۔ اس سے عملاً یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اندر دبے ہوئے منفی جذبات (غم، غصہ، حسد، کینہ، خوف، وسوسے، وہم، جنسی کمزوری، تشدد، اداسی، احساس کمتری وغیرہ وغیرہ) بالکل نمایاں ہوکر سامنے آجاتے ہیں اور انسان ان سے شعوری سطح پر نمٹ سکتا ہے۔ اسی طرح نفس کی تخلیقی صلاحیتیں اور مثبت جذبات مثلاً حقیقت پسندی، عمل پسندی، قوت ارادہ، خود اعتمادی، ضبط نفس، محبت، جمال پسندی، شاعری، وجدان، القا، پیش بینی، رویائے صالحہ، اشراق، کشف القلوب اور روحانیت کے جوہر بھی حسب استعداد ابھرنے لگتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ جس شخص میں جتنی خامیاں اور خوبیاں ہیں، وہ اندر سے باہر آجاتی ہیں۔
بسا اوقات یہ مشقیں انسان میں ایسی مخفی صلاحیتیں بیدار کردیتی ہے جو خیالی پیکر سپرمین میں ہوتی ہیں، سانس کی یہ مشقیں انسانی جسم کو بالکل ہلکا پھلکا کردیتی ہیں جیسا کہ آپ نے اکثر فلموں میں بدھ بھکشوئوں کو زمین سے دو فٹ اوپر معلق ریاضت کرتے دیکھا ہوگا۔ تاہم یہ بات یاد رکھیں کہ اس قسم کے نادر مظاہرے سخت ریاضت اور مجاہدے کے بعد ممکن ہیں۔ ریاضت اور مجاہدے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انڈا، مچھلی، گوشت اور تمباکو کو بالکل ترک کردیا جائے، غذا کم سے کم کھائی جائے۔ اگر اس ریاضت کے زمانے میں روزے رکھے جائیں تو سبحان اﷲ! سونے پر سہاگہ! روزے رکھنے (یا کم سے کم کھانے) سے جسم میں بڑی لطیف حیاتیاتی، کیمیاوی (بائیو کیمیکل) تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور انسان خارق العادات تجربوں (مثلاً کشف و اشراق وغیرہ) کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ مکمل ترک حیوانات کی عادت بھی مزاج و طبیعت کو یکسر بدل دیتی ہے اور لطافت روح کا اثر کثیف جسم پر پوری طرح پڑنے لگتا ہے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayan.tamseel)