ایوارڈ یافتہ مقروض سائنسدان
سن 1856ء میں پیدا ہونے والا یہ انجینئر 1943ء میں نیویارک کے ایک ہوٹل میں 87 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔
بچپن میں گلی محلے اور پھر اسکول کالج کے زمانے کی دوستیاں کھری، سچی، پکی، دیرپا اور گہری ہوتی ہیں۔ اسی لیے جب توقیر حسین نے ٹیلیفون پر آئندہ روز میری لینڈ میں اپنے گھر کا ایڈریس Text کر کے آنے کے لیے کہا تو میں نے انور سعید کو اسی وقت پابند کر لیا کہ وہ مجھے آئندہ صبح اپنے Ashburn کے گھر سے میری لینڈ لے کر جائے گا۔ گاڑی اسٹارٹ کر کے انور نے اپنا موبائل فون پکڑا گوگل Map پر ایڈریس ڈالا اور فون کی ہدایات پر روانہ ہو گیا۔
پاکستان کے شہر اور راستے چھوٹے ہیں جب کہ امریکا میں کسی دوسرے شہر پہلی بار کسی کے گھر پہنچنا ہو تو گوگل کا سہارا لیے بغیر پہنچنا ناممکن ہے۔ موبائل فون کی آواز پر ڈرائیو کرتے ہوئے دو گھنٹے کے بعد انور سعید کو ہدایت ملی کہ آپ کی منزل آگئی ہے۔ ہم نے بائیں ہاتھ دیکھا تو مکان پر مطلوبہ نمبر پڑھ لیا۔ توقیر حسین اسکول کالج تک سیالکوٹ اور پھر یونیورسٹی آف پنجاب لاہور کے بعد راولپنڈی اسلام آباد تک میرے ساتھ تھا۔ میری پہلی تعیناتی راولپنڈی کچہری میں اور اس کی فارن آفس اسلام آباد میں ٹریننگ اکٹھے ہوئی۔
توقیر حسین اور میں نے سول سروس کے امتحان کی تیاری بھی لاہور کے ایک اپارٹمنٹ میں رہائش کے دوران کی تھی۔ وہ زیادہ لائق تھا اس لیے فارن سروس میں لے لیا گیا جب کہ میں صوبائی سول سروس میں آیا۔ اتفاق سے وہ پہلی پوسٹنگ پر کینیڈا روانہ ہوا تو میرا تبادلہ گجرات ہو گیا۔ لیکن اب رابطہ خط و کتابت تک محدود ہو گیا۔ کینیڈا کے بعد توقیر سینیگال، ایران اور واشنگٹن سے ہوتا ہوا برازیل، اسپین اور جاپان میں بطور سفیر تعینات رہا۔
سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بچوں کے پاس امریکا آ گیا۔ یہاں سن 2006ء سے وہ جارج ٹائون یونیورسٹی اور پھر جان ہاپکن یونیورسٹی میں جزوقتی لیکچرر شپ کر کے خود کو مصروف رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان میں ایک بار وہ ایڈیشنل سیکریٹری پرائم منسٹر سیکریٹریٹ بھی رہا۔
میری لینڈ میں اس کے مکان پر گزارا ہوا دن مجھے گورنمنٹ ہائی اسکول اور مرے کالج سیالکوٹ سے یونیورسٹی لاء کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور لے گیا اور توقیر حسین سے پرائم منسٹر ہائوس میں ہونے والی ملاقات جہاں اس کے برابر والے کمرے میں نواز شریف براجمان تھے، یاد آنے پر میرا بدن کانپ اٹھا کیونکہ توقیر حسین تو سفارت کاری سے فارغ ہونے کے باوجود امریکا کی یونیورسٹیوں میں لیکچر دے رہا تھا جب کہ اس کا سابق باس نااہلی اور سزا یابی کے بعد اڈیالہ جیل پاکستان میں بیٹی اور داماد کے ہمراہ سزا بھگت رہا ہے۔ لالچ دولت کی ہو یا طاقت و منصب کی بہرحال بری بلا ہے۔ یہ لے ڈوبتی ہے۔
فرحان چوہدری جس کے گھر Ash Burn میں ہمارا قیام تھا ایک روز مجھے اپنی سفید رنگ کی کار میں کھانے پر لے گیا۔ میں نے نوٹ کیا کہ اس کار کا چال چلن دوسری کاروں سے مختلف تھا۔ کار کی رفتار اور آواز سے اس کے جدید اور گراں قیمت ہونے کا گماں ہوا تو اس کا نام Tesla معلوم ہوا۔ واپسی پر فرحان نے کار گیراج میں کھڑی کرکے اسے چارجنگ پر لگا دیا۔ جیسے ہم لوگ اپنا موبائل فون گھر پہنچ کر فوراً چارجنگ پر لگاتے ہیں۔ مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ وہ یہ کام روزانہ کرتا ہے۔
اس کار کی قیمت پٹرول ڈیزل والی کاروں سے زیادہ ہے اور اس وقت TESLA کے تین ماڈل 5 ,X اور 3 امریکا میں ہاتھوں ہاتھ بک رہے ہیں۔ میں نے کار کا بونٹ اٹھایا تو اس کے نیچے کوئی انجن نہ تھا۔ اس کے نیچے پوری گاڑی کے برابر چھپی ہوئی جدید بیٹری ہونا بتائی گئی جو بجلی سے چارج ہونے کے بعد 250 میل چل سکتی ہے۔ پٹرول پمپوں کی طرح مختلف جگہوں پر چارجنگ اسٹیشن ہیں جہاں سے بیس منٹ میں کار چارج ہو جاتی ہے۔ TESLA کی تعداد ابھی بہت کم ہے۔
NICOLA TESLA نامی سربیا کا رہنے والا الیکٹریکل، مکینیکل انجینئر تھا جس نے امریکا سکونت اختیار کر کے بجلی سے متعلق تحقیقات و تجربات جاری رکھے۔ وہ ایک جینیئس اور مستقبل شناس شخص تھا جو انرجی اور بجلی پر رات دن کام کرتا اس نے اسی موضوع پر ایک انٹرویو بھی دیا جس کی اشاعت 116 سال تک روک رکھی گئی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ پوری دنیا کو مفت بجلی فراہم کر سکتا ہے۔
سن 1856ء میں پیدا ہونے والا یہ انجینئر 1943ء میں نیویارک کے ایک ہوٹل میں 87 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔ گمان ہے کہ اس کا انٹرویو بجلی سے متعلق کام میں بزنس کرنے والے ٹائیکونز نے پبلک نہ ہونے دیا تھا۔
Tesla متعدد سائنسی تجربات میں ہمہ وقت مصروف رہتا تھا۔ اس نے Rotating Magnetic Field، الیکٹرک لائٹ، وائرلیس پاور، ریموٹ کنٹرول گاڑیوں، ٹیسلا کوائل اور Induction Motor جیسے پیچیدہ سائنسی تجربات کرنے کے علاوہ متعدد تحقیقی کتب بھی لکھیں۔ اسے مختلف ممالک کی طرف سے سولہ ایوارڈ بھی ملے۔ اس کی بجلی سے چلنے والی موٹر کار جس میں انجن کی جگہ کم خرچ Chargeable بیٹری استعمال ہوتی ہے بہت پاپولر ہو رہی ہے۔
ٹویوٹا کمپنی نے بھی Tesla Car بنانے کا پروگرام بنایا ہے۔ یہاں تک کہ سعودی عرب نے ٹیسلا کمپنی میں 2 بلین ڈالر لگانے کا ارادہ کیا ہے۔ لیکن اس تمام کے باوجود Nicola Tesla نے دولت نہیں بنائی اور جب وہ نیویارک کے ہوٹل میں 87 سال کی عمر میں فوت ہوا تو مقروض تھا۔