جمال نقوی کی جرأتِ رندانہ آخری حصہ
وہ لکھتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی سے علیحدگی اورلاتعلقی میں ایک کردار ندیم اختر کا بھی رہاجو کبھی پارٹی سے وابستہ رہے تھے۔
1980ء میں جمال صاحب اور نذیر عباسی ایک جگہ سے اور ایک ساتھ گرفتار ہوئے۔ جمال صاحب یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اور نذیر کچھ وقت کے لیے گرفتار ہوئے ہیں لیکن کچھ ہی دنوں بعد انھیں یہ حتمی خبر مل گئی کہ اب وہ نذیر سے کبھی نہ مل سکیںگے اور اس کا انجام بھی حسن ناصر جیسا ہوا ہے۔ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر آکاش انصاری نے اس کی یاد میں ایک نظم لکھی۔ اس سندھی نظم کا اردو ترجمہ ابراہیم صالح نے کیا۔ یہ نظم ہم سب کے دلوں کو دو نیم کرتی ہے۔ یہ ایک ایسے نوجوان کا مرثیہ ہے جو آدرش وادی تھا اور جس نے اپنے خوابوں کے لیے بد ترین تشدد برداشت کیا، یہاں تک کہ جان سے گزر گیا۔
ڈاکٹر آکاش کی اس نظم کے چند بند آپ کی نذر ہیں۔ ان کے لیے میں ندیم اختر، اسلم خواجہ اور راجا عاطف گوتم حیات کی ممنون ہوں۔ یہ نظم مجھے میسنجر پر دو مرتبہ بھیجی گئی اور دونوں مرتبہ یہ ''گونگی'' ہوگئی۔ گوتم نے مجھے لکھ کر بھیجا اور اب اس کے چند بند آپ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
جمال نقوی اپنی کتاب میں ہمیں تفصیل سے بتاتے ہیں کہ جیل میں ان پر کیا گزری اور یہ بھی کہ مہینوں ان کے گھر والے کس اذیت سے دو چار رہے۔ وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ جمال صاحب زندہ ہیں بھی یا نہیں اور اگر زندہ ہیں تو کن اذیتوں سے گزارے جارہے ہیں۔ نذیر عباسی کی ہلاکت کی اطلاع سب کو مل چکی تھی اور اس کے ساتھ اٹھائے جانے والوں کے رشتے داروں پر ہر لمحہ یہ عذاب گزر رہاتھا کہ کہیں وہ بھی نذیر جیسے انجام سے دو چار نہ ہوئے ہوں۔
جمال صاحب ایک اندھیری اور مرطوب کوٹھری میں مچھروں سے جنگ آزما رہے۔ اندھیرا ایسا تھا کہ رات اور دن سیاہ رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ کچھ فاصلے پر گزرتی ہوئی ریل اس بات کی خبر دیتی تھی کہ جہاں وہ قید کیے گئے ہیں وہ جگہ ریلوے لائن سے قریب ہے۔ فوجی افسران کے سامنے پیشیاں کبھی ختم نہ ہونے والے سوالات، قید تنہائی جو انسان کے اندر سے سب کچھ نچوڑ لیتی ہے اور انسان کو اندر سے خالی کر دیتی ہے۔ ایسے عالم میں جمعدار سے بات کرنا یا کھانا لانے والے کا چہرہ دیکھنا بھی ایک نعمت محسوس ہوتا ہے۔
ایسے ہی دن تھے جب 1981ء میں پی آئی اے کی فلائٹ 326 کو الذوالفقار کے ٹیپو اور اس کے دوسرے ساتھیوں نے اغوا کرلیا۔ اس تنظیم کی سربراہی ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کررہے تھے۔ ان لوگوں کا مطالبہ تھا کہ وہ اس پرواز سے سفر کرنے والوں کو اس وقت رہا کریںگے جب پاکستانی جیلوں میں قید سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے دمشق پہنچایا جائے گا۔ یہ ایک ایسا ایڈونچر ازم تھا جس کی حمایت نصرت بھٹو اور بینظیر نے بھی نہیں کی۔ جمال نقوی اور جام ساقی کو رہا ہونے سے انکار نہیں تھا لیکن وہ دمشق جانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان لوگوں کو دمشق بھیجنے پر راضی کرنے کے لیے فوجی اہلکاروں نے ان پر بد ترین تشدد کیا لیکن آخر کار انھیں اس میں ناکامی ہوئی۔
500 دنوں کی قید تنہائی کاٹنے کے بعد جب وہ پہلی مرتبہ اپنے اہل خانہ سے ملتے ہیں تو اس ملاقات کاذکر انھوں نے بہت دردمندی سے کیا ہے۔ معمول کی ملاقات کے لیے ان کے گھر والوں کو جن مشکلات سے گزرنا پڑتا تھا وہ ہمیں ان کی تفصیل بھی بتاتے ہیں۔ قید کے دنوں میں وہ اپنے برادر نسبتی پروفیسر نصیرکا ذکر کرتے ہیں اور خاص طور سے سبط حسن صاحب کا جن سے نظریاتی اختلاف کے باوجود، سبط صاحب نے ان کے خاندان کی مدد کی اور ان کی بڑی بیٹی افشاں صبوحی کے ذریعے انھیں کتابیں، اخبارات اور خبروں کے تراشے بہم پہنچائے جس سے ان کا انٹلیکچوئل سفر جاری رہا۔
وہ اس مقدمے کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں جو حیدر آباد جیل میں خصوصی فوجی عدالت میں چلایا گیا۔ یہ غداری کا مقدمہ تھا اور اس میں ملوث تمام افراد کے سروں پر پھانسی کا پھندا جھول رہا تھا۔ اس مقدمے میں بینظیر بھٹو، ولی خان، غوث بخش بزنجو اور ملک کے دوسرے اہم اور معتبر سیاسی رہنمائوں نے ان لوگوں کی بے گناہی کی گواہی دی۔ وہ بینظیر بھٹو کی نہایت توصیف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ لڑکی جو صدموں سے چور تھی پانچ گھنٹوں تک کھڑی رہی اور ہماری حمایت میں بولتی رہی۔
جنرل ضیا کی مارشل لا حکومت میں سخت گیر خطوط پر چلنے والا یہ مقدمہ طویل مدت کے بعد ختم ہوا۔ اس سے پہلے سات برس بعد وہ ایک عزیز بچی کی شادی کے موقع پر چند گھنٹوں کے لیے پیرول پر رہا کیے گئے تو یہ ان کے اور ان کے خاندان کے لیے خوش ہونے کا ایک نادر موقع تھا۔ اس کے بہت بعد جب وہ آخر کار رہا ہوئے تو ان کا استقبال کرنے کے لیے جیل کے دروازے پر ان کے گھر والے، دوست اور ہم خیال اکٹھا ہو گئے تھے اور ان سب لوگوں نے ایک چھوٹے سے جلوس کی صورت اختیار کر لی تھی۔ وہ اس جلوس کی قیادت کرتے ہوئے سخی حسن کے قبرستان جاتے ہیں اور وہاں نذیر عباسی کی قبر پر ایک جوشیلی تقریر کرتے ہیں۔ نذیر ان تمام لوگوں کی علامت تھا جنھوں نے پارٹی کی خاطر مارش لا کے ہاتھوں جانیں دیں۔
اب وہ آزاد تھے اور دیکھ رہے تھے کہ کمیونسٹ پارٹی کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو کس طرح پارٹی میں داخل کیا جا رہاہے اور کون سے حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کو بچانے کے لیے اپنی سی کوشش کرتے رہے لیکن آہستہ آہستہ سوویت سماج کے بارے میں ان کی رائے بدلتی چلی گئی جس کا پہلا سبب وہ روسی خاتون بنی جو ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں پاکستان آئی تھی اور اپنے سماج کی زبردست ناقد تھی۔ جمال صاحب اس کی باتوں سے بہت مضطرب تھے لیکن ان ہی دنوں یہ ہوا کہ ان کی بیٹی افشان صبوحی جو ان دنوں پارٹی کے خواتین ونگ میں کام کررہی تھی، اسے چند دوسری پاکستانی خواتین کے ساتھ سوویت یونین جانے اور ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ وہ اپنے خوابوں کی سرزمین گئی تھی لیکن وہاں سے دل برداشتہ آئی۔
جمال نقوی ان باتوں سے اضطراب میں مبتلا تھے، ان ہی دنوں سیکریٹری جنرل امام علی نازش بھی ماسکو سے لوٹ کر آئے تھے اور وہاں کے حالات ومعاملات سے خوش نہ تھی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب جمال صاحب کو ماسکو سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب دیوار برلن گرچکی تھی اور مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک انتشار اور بحران کا شکارتھے۔ جمال نقوی ماسکو اس جوش اور ولولے کے ساتھ گئے تھے جیسے کوئی عقیدہ پرست مسلمان مکے مدینے کا سفر کرے۔
ان کے لیے، ان کے قریبی دوستوں اور پارٹی کے لیے ماسکو سے ان کی واپسی ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ بقول ان کے میری آنکھوں پر جو پٹی بندھی ہوئی تھی وہ کھل گئی تھی۔ ہم نے ہمیشہ اپنی حکومتوں کی مذمت کی جنھوں نے آزادیٔ اظہار پر پابندیاں لگائیں لیکن ہم نے یہ کبھی محسوس نہیں کیا کہ ہمارے اپنے کمیونسٹ ملکوں میں آزادیٔ اظہار کا کوئی وجودنہیں۔ جمال صاحب کی یہ باتیں پڑھتے ہوئے مجھے ایماگولڈا مان، ژاں پال سارتر، سیمون دی بووا یاد آئے جو بڑے ارمانوں کے ساتھ سووین یونین گئے تھے لیکن واپس آئے تو ان کے ارمان دل کے دل میں رہ گئے تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی سے علیحدگی اور لا تعلقی میں ایک کردار ندیم اختر کا بھی رہا جو کبھی پارٹی سے وابستہ رہے تھے۔ انھوں نے جام ساقی کو بھی مشورہ دیا کہ وہ پارٹی سے لا تعلقی اختیار کرے۔ جمال نقوی کتاب کے اختتامی حصے میں پارٹی سے کنارہ کشی کو ایک جمہوریت پسند کی پیدائش سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ ان کا اتنا بڑا فیصلہ تھا جس کے لیے ہاتھی کا کلیجہ چاہیے۔ اس علیحدگی کے بعد وہ پارٹی اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنے لیکن آخری سانس تک انھیں اپنے اس فیصلے پر کبھی پشیمانی نہیں ہوئی۔ ایک سچے انسان اور دانشور کے طور پر انھوں نے وہی کہا اور لکھا جسے اب وہ درست سمجھتے تھے۔ ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی جرأت رندانہ کو سلام کرتے بنتی ہے۔
کتاب کے آخری صفحات میں انھوں نے اپنی شریک حیات کاظمی خاتون کو جس دل داری سے یاد کیا ہے، وہ بھی ایک کمال کی بات ہے۔ اپنی بیٹیوں افشاں، گیتی اور بیٹے سے گہری وابستگی ان کی لکھی ہوئی ہر سطر سے عیاں ہے۔ یہ کمال کاظمی خاتون کا ہے جنھوں نے جیل میں غداری کا مقدمہ بھوگتے ہوئے باپ کی غیر موجودگی اور دشنام کے تیر سہنے کے باوجود بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔
جمال نقوی الٰہ آباد میں گنگا جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر پیدا ہوئے وہ زندگی بھر خیالات کی گنگا جمنا میں تیرتے رہے۔ یہ ان کی زندگی کے آخری دن تھے جب وہ اساطیری دریا سرسوتی کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوئے، اپنا رستہ انھوں نے گہرائیوں میں تلاش کیا جہاں سے وہ لوٹ کر نہیں آئے۔