اپنی گمشدہ ہنسی کی تلاش میں
وہ وجہ تو بالکل نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں یعنی یہ انتخابات وغیرہ یا ان سے متعلق واقعات یا تبدیلیاں وغیرہ۔
نہ جانے آج کل ہماری طبیعت جگر مراد آبادی کی طبیعت سے بالکل الٹی سمت میں جا رہی ہے۔ ان کوتو شکایت تھی کہ
طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
لیکن ہمیں ان کی دوسری والی بات لاحق ہوتی جا رہی ہے۔یعنی کہ
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
بلکہ اس سلسلے میں ہماری حالت غالبؔ کی طرفدار بنی ہوئی ہے کہ
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
اندازہ اس سے لگائیں کہ ٹی وی پر اینکروں کو دیکھ کر بھی ہنسی نہیں آتی حالانکہ وہ بچارے آٹھ دس دانشوروں کو ایک ساتھ بولنے کا جو ایکٹ کرتے ہیں وہ اچھا خاصا ہنسانے والا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا دل ہنسنے کے بجائے رونے کوچاہتا ہے۔ یہاں تک کہ ٹرمپ کی تصویر دیکھ کر بھی ہنسی نہیں آتی اور اداکارہ میرا کے بیانات پر بھی ہمارے ہونٹوں پر تبسم تک نہیں آتا اور اس عارضے سے ہمیں تشویش لاحق ہو چکی ہے کہ کچھ توایسا ہوچکا ہے جس نے ہمارے ہونٹوں کی سدا بہار ہنسی چھن لی ہے۔
وہ وجہ تو بالکل نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں یعنی یہ انتخابات وغیرہ یا ان سے متعلق واقعات یا تبدیلیاں وغیرہ کیونکہ ان سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہماری قسمت تو جو تھی وہ اب بھی ہمارے ساتھ ہے، اس جانور کی طرح کہ دنیا میں کچھ بھی ہوجائے، اس کی قسمت میں وہی ایک پائو ''جو'' کھانے اور کوڑے کے ڈھیر پر لوٹنے کی عیاشی لکھی ہوتی ہے یا وہ کہ ساری دنیا دریا ہو جائے تو بھی اس کی قسمت میں چاٹنا ہی لکھا ہوتا۔ مطلب یہ کہ ہمیں اس سے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا کہ کون آیا اور کون گیا،گائو آمد یا ''وہ'' رفت کیونکہ ہم بھی مومن خان مومنؔ سے کم نہیں
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہو گی
پھر وہی پائوں وہی خار مغیلاں ہوں گے
پھروہی ہاتھ وہی سنگ وہ ہی سر اور داغ جنون
وہی ہم ہوں گے وہ ہی دشت و بیاباں ہوں گے
تو پھر آخر کیوں آج کل ہمیں کسی بھی بات پر ہنسی نہیں آرہی ہے اور ہماری زندگی کا سارا ہست و نیست اور حال و متاع وہی ہنسی تو تھی جس کے سہارے ہم برے بھلے جی رہے تھے۔ جہاں کہیں کوئی ''غم'' حملہ آور ہوتا ہم اس ہنسی کو آگے کرکے اس کا تیاپانچہ کر دیتے تھے بقول حافظ شیراز :
اگر '' غم '' لشکر انگیزد کہ خون عاشقاں ریزد
من و ''ہنسی'' بہم سازیم و بنیادش بر اندازیم
یعنی غم اگر لشکر جمع کرکے بھی ہم پر حملہ آور ہو جائے تو میں اور میری ہنسی آپس میں مل کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ ویسے حافظ نے ہنسی کی جگہ ''ساقی'' کو اپنا اتحادی بنایا ہوا تھا ۔
من و ساقی بہم سازیم۔ لیکن ہمیں اتنی سہولت حاصل نہیں کہ ساقی کے ساتھ مل کر ''غم'' قلع قمع کریں صرف ہنسی تھی اور یہ بھی ہمارے لیے بہت تھی لیکن افسوس کہ اب وہ بھی نہیں رہی نہ جانے کس جہاں میں کھو گئی۔
موجودہ حالات و واقعات کو تو بالکل یک طرف کر دیجیے جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ''دودھ کا دھلا'' گیا یا گنگا ''نہایا ہوا'' آگیا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں مانتے ہیں اور پہچانتے ہیں کہ آج کل دودھ بھی خالص نہیں ملتا اور رام کی گنگا بھی بہت ''میلی'' ہوچکی ہے۔
اب یہ جو نئے خادم آئے ہیں قومی صوبائی مخصوص اور سنیئر وغیرہ ملا کر پوری تعداد تو ہمیں معلوم نہیں ہے لیکن ہر ایک کے ساتھ اس کا پورا ''کنبہ'' بھی خدمت میں مصروف ہوتا ہے تو آٹھ دس ہزار تو سمجھ ہی لیجیے یہ سارے کے سارے ''بلا معاوضہ'' قوم و ملک کی خدمت کریں گے۔
تو قوم کا تو بھلا ہی بھلا ہو گا لیکن غم ہمیں اپنی ہنسی کے روٹھ جانے بلکہ کھو جانے کا ہے کہ آخر ایسی کیا نئی بات ہو گئی ہے کہ ہماری ہنسی میکے چلی گئی ہے، شاید کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لیے
پہلے ہر شام امیدوں میں گزر جاتی تھی
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
اور یہی بات ہم کھوجنا چاہتے ہیں لیکن کوئی امید بھر نہیں آتی ،کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ایک چھوٹی سی وجہ کچھ کچھ سمجھ میں آرہی ہے لیکن ایسی محرومیاں اور بدنصیبیاں تو ہمارے ساتھ ہمیشہ لگی رہتی ہیں، ہوا یوں کہ محترمہ گلالئی نے مہربانی ،کرم اور نوازش کرکے ہمارے نوشہرہ کے ایک حلقے میں نزول اجلال فرمایا اور اپنے قدوم میمنت لزوم سے ہمارے اس محروم ضلع کو شرف یاب کیا لیکن ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ ٹوٹی کہاں کمند، وہ ہمارے ایک پڑوسی حلقے کو اپنے نگا ہ کرم سے نواز گئی۔ ورنہ کم از کم ہم وہ خوشی تو ضرور حاصل کرتے جو ایک ووٹر نے حاصل کی کہ اپنی پرچی پر ''آئی لو یو'' لکھ کر اپنی تمنا کا اظہار کر دیا۔ اگر یہ سعادت ہمیں ملتی تو کم از کم ہمارے ہونٹوں کی ہنسی تو غائب نہ ہوتی لیکن افسوس صد افسوس بلکہ ہزار افسوس کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت۔ ہمارا بد نصیب ووٹ دوسرے حلقے میں ہونے کی وجہ سے دیکھتا رہ گیا۔ اور سعادت دوسروں کے حصے میں آئی
اس کا مطلب یہ مت نکالیے کہ ہم کچھ ایسے ویسے ہیں یا ایسے ویسے خیالات رکھتے ہیں یا کچھ ایسا ویسا ہم بھی لکھنا چاہتے تھے، ہماری عمر اب ایسی باتوں کی رہی بھی نہیں ہے، جب تھی تو مواقعے نہیں تھے، مطلب یہ کہ جب دانت تھے تو اتنے ''چنے'' نہ تھے اور اب ''چنوں'' کی کثرت ہو گئی ہے تو منہ میں دانت اگر ہیں بھی تو کم از کم چنے چبانے کے نہیں ہیں۔ ویسے بھی آج کل چنے لوہے کے زیاد ہ ہوتے ہیں۔ ہم تو گلالئی کے بیلٹ بکس میں ووٹ پر یہ مشورہ درج کرنا چاہتے تھے۔
اب تو ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو
یہ عورت لوگ بھی کچھ عجیب میٹریل کے بنے ہوتے ہیں۔ یہ بات جواب ایک ووٹر نے اپنے ووٹ کی پرچی پر لکھی ہے یہی بات خود اسی کے بقول اگر عمران خان نے ایس ایم ایس پر لکھی تو اس میں برا کیا تھا ۔
لیکن وہ سچ ہم آپ سے نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ بہت بری بات ہوگی کہ اس عمر میں کوئی خاتون لیڈر یا آزادی نسواں کی علمبر دار این جی او والی خاتون ہم پر ہراسانی ہر اسگی یا ہراسمنٹ کا مقدمہ ٹھوک ڈالے۔
صرف ایک لطیفہ سنا سکتے ہیں کہ کسی جگہ خواتین ایک مکان کی چھت پر کھڑی عید کا چاند دیکھ رہی تھیں ۔ آخر کار چاند نظر آگیا تو کچھ خواتین دعا، کچھ مبارک باد میں مصروف ہو گئیں لیکن ایک خاتون ناک پر انگلی رکھے چاند کو دیکھ رہی تھی اور برے برے منہ بنا رہی تھی۔ دوسروں نے دیکھا تو ماجرا پوچھا۔ وہ خاتون بولی، ٹھیک ہے چاند تو ہے لیکن اس سے پیاز کی بو آرہی ہے اور یہ بات بعد از تحقیق معلوم ہوئی کہ وہ اسی وقت پیاز کاٹ کر آئی تھی اور بو اس کی ناک پر رکھی ہوئی انگلی سے آرہی تھی۔
خیر مسئلہ اب بھی ہمارا وہی ہے کہ ہماری ہنسی کیوں ہمیں داغ مفارقت دے گئی۔ کہیں اس کے پیچھے یہ والا واقعہ تو نہیں ہے بہر حال ابھی تحقیق و تفتیش جاری ہے شاید کہیں مل جائے یا واپس آجائے۔