پاکستان کی محبت میں
اِس شاندار ملک، پاکستان ، کے تہی دستوں کو اب بھی میری اشد ضرورت ہے۔
کمزور ،ضعیف اور چھوٹے سے قد کی اس خاتون نے اپنے جھریوں بھرے ہاتھوں کو اُلٹتے پلٹتے ہو ئے کہا: ''خدا نے یہ ہاتھ مجھے اس لیے عطا کیے کہ مَیں اِن سے دکھی انسانیت کی خدمت کر سکوں۔ پچھلے ساٹھ برسوں سے مَیں مسلسل اِن ہاتھوں کی مدد سے تاریک ہوتی آنکھوں کو روشنی دے رہی ہُوںاور اس کا صلہ کبھی کسی سے نہیں چاہا۔ اندھی ہوتی آنکھوں کے آپریشن کرتے ہُوئے کبھی مَیں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میرا مریض کس مذہب ، ذات اور قومیت سے تعلق رکھتا ہے۔میری عمر اب 84سال ہو رہی ہے۔ پوتوں،پوتیوں اور نواسوں، نواسیوں والی ہو چکی ہُوں۔ سب اپنے اپنے گھروں میں راضی خوش ہیں۔مجھے اب ملازمت کی ضرورت ہے نہ روپے پیسے کی لیکن اِس شاندار ملک، پاکستان ، کے تہی دستوں کو اب بھی میری اشد ضرورت ہے۔ اسی لیے چوراسی سال کی عمر میں بھی خدمت کر رہی ہُوں اور کبھی نہیں تھکی۔اب تک مَیں 5لاکھ آپریشن کر چکی ہُوں۔ ''
ہمارے سامنے ایک عظیم پاکستانی خاتون ڈاکٹر تشریف فرما تھیں۔اُن کی باتیں سُن کر بے اختیار اُن کی دست بوسی کو جی چاہا۔ اس عظیم ہستی کا اسمِ گرامی ہے: ڈاکٹر پرامیلا لعل۔ پاکستان، اپنی محبت اور دکھی انسانوں کی خدمت کے لیے ڈاکٹر پرامیلا لعل صاحبہ نے اپنے والدین، بہن بھائی اور اپنا آبائی ملک بھی تیاگ دیا۔ ڈاکٹر پرامیلا اور اُن کے شوہر، ڈاکٹر ارنسٹ لعل، نہایت کم گو ہیں۔
اخبار نویسوں سے تو بالکل ہی دُور رہتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر پرامیلا کی مہربانی تھی کہ بہت سی گزارشات کے بعد آخر کار وہ ہمارے ساتھ مکالمہ کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔ ساٹھ سال قبل وہ بھارت کو الواداع کہہ کر اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آ ئیںاور ٹیکسلا کے مشہور ترین ''کرسچین اسپتال'' سے وابستہ ہو گئیں۔ یہ اسپتال، جسے تقریباً ایک صدی قبل ڈاکٹر مارٹن کی قیادت میں امریکیوں نے ٹیکسلا اور اس کے آس پاس کے افتادگانِ خاک کی خدمت کے لیے بنایا تھا، پاکستان بھر میں آنکھوں کے امراض کی شفایابی کے لیے بے مثال شہرت کا حامل ہے۔
ڈاکٹر پرامیلا لعل نے اپنے ڈاکٹر شوہر کے ساتھ ٹیکسلاکے اِس اسپتال میں پہلا قدم رکھا تو پھر دوسرا قدم کبھی باہر نہ نکال سکیں۔انھیں ایشیا میں سب سے زیادہ آنکھوں کے آپریشن کرنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہو چکا ہے۔1976ء میں وہ پاکستان کی پہلی خاتون ڈاکٹر تھیں جنہوں نے ایک خاص طریقے سے آنکھ کی پیوند کاری میں کمال حاصل کیا۔
ڈاکٹر پرامیلا، تقسیمِ ہند سے قبل، انڈیا کے مشہور شہر ''بنارس'' میں پیدا ہوئیں۔ تین اگست1932ء کو۔چنائے میڈیکل کالج میں اُن کی ملاقات ارنسٹ لعل سے ہُوئی اور یوں دونوں نے زندگی بھر یکجان و دو قالب رہنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر پرامیلا نے ایام ِ رفتہ کی بازیافت کرتے ہُوئے مسکرا کر کہا؛ '' ارنسٹ صاحب میرا ہاتھ مانگنے ایک روز ہمارے گھر آگئے۔ وہ ہمارے ہم مذہب ہی تھے۔ میرے والدین نے انھیں پسند کیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ اپنے والدین کی اجازت لو پہلے۔''
پھر وہ دوبارہ مسکراتے ہُوئے بولیں: ''ارنسٹ لعل کے گھر والوں نے اجازت تو دے دی لیکن ساتھ یہ بھی لعل صاحب سے کہا کہ دیکھو، لڑکی کالی اور موٹی نہ ہو۔'' پھر مسکرائیں اور یہ کہا: '' بنارس کی ہوا چونکہ گرم اور مرطوب ہوتی ہے، اس لیے لعل کے گھر والوں کو خدشہ تھا کہ لڑکی کہیں کالی نہ ہو اور مَیں تو کالی اور موٹی بالکل ہی نہیں تھی۔'' اُنہی دنوں پاکستان بنا تھا۔ دو دل ملے تو سوال پیدا ہوا کہ اب ڈاکٹر ارنسٹ لعل کو تو پاکستان جانا تھا، پرامیلا کیا کرے؟
پرامیلا کے کھاتے پیتے والدین نے ڈاکٹر لعل سے کہا: آپ یہیں نئے بھارت ہی میں رک جائیے، ہم آپکو گھر اور کلینک بنا دیتے ہیں، دونوں میاں بیوی مل کر کام کرنا۔ڈاکٹر لعل مگر نہ مانے کہ نئے وطن، پاکستان ، سے محبت کا جوش ٹھاٹھیں ماررہاتھا۔''مَیں نے کہا، جہاں لعل جائے گا، مَیں بھی وہیں جاؤں گی۔ جو وطن اُن کا، وہی میرا۔'' ''مَیں نے ارنسٹ لعل اور پاکستان کی محبت میں والدین، بھائی بہن، اپنا وطن چھوڑ دیا اور اُن کے ساتھ پاکستان چلی آئی۔ پاکستان کی معاشی اور سماجی حالت بہت پتلی تھی لیکن ہم نے پرواہ نہ کی۔''
دونوں نوجوان میاں بیوی، ڈاکٹر ارنسٹ لعل اور ڈاکٹر پرامیلا لعل، خالی ہاتھ ہی بنارس سے پاکستان کی جانب چل پڑے۔ ڈاکٹرپرامیلا کہتی ہیں: ''پاک بھارت سرحد پر ہم دونوں پہنچے اور بھارتی بارڈر فورس کے افسروں کو جب معلوم ہُوا کہ ہم دونوں ڈاکٹر ہیں تو انھوں نے کہا، پاکستان مت جاؤ، وہاں کچھ نہیں رکھا لیکن ہم نے کہا: پاکستان ہی جائیں گے، یہی خداوند کا فیصلہ ہے، پاکستان کی خدمت کرنے کے لیے خداوند نے ہمیں چُن لیا ہے۔ ''
وہ سیدھے ٹیکسلا کے مشنری کرسچین اسپتال سے وابستہ ہو گئے، اس لیے کہ ''اُن دنوں پاکستان میں امراضِ چشم کے معالجوں کی نہائیت کمی تھی۔'' یہ ستمبر1957ء کے دن تھے۔ تب سے اب 2018ء تک ، وہ مسلسل اِسی اسپتال سے منسلک ہو کر بنی نوعِ انسان کی مسلسل خدمت میں لگی ہیں۔ اُن کی آمد سے قبل ٹیکسلا کرسچین اسپتال دو امریکی معالجین، ڈاکٹر براؤن اور ڈاکٹر نوول کرسٹی، کی زیرِ نگرانی کام کر رہا تھا۔ کچھ عرصہ بعدجب وہ امریکا چلے گئے تو اس اسپتال کی جملہ ذمے داریاں دونوں نوجوان میاں بیوی، ڈاکٹر لعل اور ڈاکٹر پرا میلا، کے سپرد کر دی گئیں۔
سچ یہ ہے کہ ڈاکٹر پرامیلا اور ڈاکٹر ارنسٹ لعل نے محبت کے ساتھ اس خدمت کو یوں نبھایا ہے کہ آج کئی عشرے گزرنے کے بعد اُن سے فیضیاب ہونے والے ہزاروںنہیں، بلکہ لاکھوں افراد بیک زبان کہہ رہے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ اِن دونوں مسیحی پاکستانی میاں بیوی ڈاکٹروں نے ذمے داریوں اور انسانیت سے محبت کا حق ادا کر دیا ہے۔
84سالہ انتھک اور محبوب صفت ڈاکٹر پرامیلا لعل مسکراتے ہُوئے کہتی ہیں: ''ساٹھ کی دہائی ہی سے مَیں یہاں صبح سحری کے ڈھائی تین بجے سے آنکھوں کے مریضوں کے آپریشن کرتی چلی آرہی ہُوں۔ اوپر والے کے کرم سے لاکھوں صحتیاب ہو چکے ہیں۔ ناکامی اور خرابی کی شکایات کم کم آئی ہیں۔''اِس دوران ڈاکٹر صاحبہ کے والدین دنیا سے رخصت ہو گئے مگر وہ اُن کی آخری رسوم میں شرکت کے لیے بھارت نہ جا سکیں۔ معصومیت سے کہتی ہیں: ''65ء کی پاک بھارت جنگ جو لگ گئی تھی۔ انڈیا کا مجھے ویزہ ہی نہ ملا۔''
بصارت سے محروم انسانوں کی شاندار خدمات انجام دینے کی تحسین کے لیے ڈاکٹر صاحبہ کو 1983ء میں بھارت کی طرف سے ''پال ہیریسن ایوارڈ'' ملا تو وہ اسے وصول کرنے ایک بار پھر بھارت نہ جا سکی تھیں ''کیونکہ وہاں جانے کا اجازت نامہ ہی نہ ملا۔ مجھے کہا گیا کہ آپکا کوئی عزیز وہاں سے یہ ایوارڈ وصول کر لے گا۔'' لندن کے رائل کالج کی طرف سے بھی انھیں فیلو شپ حاصل ہے۔ امریکی اکادمی برائے امراضِ چشم کی بھی وہ عالمی رکن ہیں۔
صدر جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر پرامیلا کو 2003ء میں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ٹیکسلا مشنری اسپتال میں افغان مہاجر مردو زن کی خدمت کرنے کو ڈاکٹر پرامیلااپنی زندگی کا حاصل سمجھتی ہیں۔ انھیں 9اگست2002ء کا دن نہیں بھُولتا جب ٹیکسلا کے کرسچین اسپتال کو دہشتگردی کا ہدف بنایا گیا تھا۔اس خود کش حملے میں کئی بیگناہ مسیحی قتل کر دیے گئے تھے۔
ڈاکٹر پرامیلا کہتی ہیں: ''وہ دن مگر ضرور طلوع ہونے والا ہے جب میرا یہ پیارا وطن، پاکستان، دہشتگردی سے مکمل پاک اور کامل امن کا گہوارہ ہوگااِس یومِ آزادی پر بھی ہمارے دل اُمیدوں سے سرشار ہیں۔'' ہم نے بھی دل کی گہرائیوں سے ''آمین'' کہا کہ پُرامن پاکستان ہر پاکستانی کی آرزُو ہے۔