مسلم امہ کے لیے چیلنج

موجودہ دور میں امت مسلمہ کو جو مسائل درپیش ہیں، ان میں جہالت، ناخواندگی اور فرسودہ نظام تعلیم بنیادی اہمیت کےحامل ہیں۔


[email protected]

موجودہ دور میں امت مسلمہ کو جو مسائل درپیش ہیں، ان میں جہالت، ناخواندگی اور فرسودہ نظام تعلیم بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ بدقسمتی سے علم اور تعلیم کے حوالے سے یہ مسئلہ اس قوم کو درپیش ہے، جن کی اساس علم اور تعلیم ہے۔ چنانچہ حکم ''اقراء'' سے ان کے لیے آسمانی اور الہامی پیغام کا آغاز ہوا اور دنیا کو اس نے تعلیم و تہذیب سے منور کرنے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔

اسلامی نقطہ نظر سے بنی نوع آدم نے اپنے سفر کا آغاز تاریکی اور جہالت سے نہیں، بلکہ علم اور روشنی سے کیا ہے۔ چنانچہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تخلیق آدم کے بعد خالق کائنات نے انسان اول (حضرت آدم) کو سب سے پہلے جس عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا، وہ علم تھا۔ ''علم'' ہی کی بدولت اﷲ علیم و خبیر اور عالم الغیب والشہادہ نے حضرت آدم اور بنی نوع آدم کو جملہ مخلوق پر عزت و عظمت اور فضیلت بخشی، اسے لائق عزت و تکریم ٹھہرایا گیا۔

معلم انسانیت نے علم، تعلیم اور اہل علم کے بے شمار فضائل بیان فرمائے، آپ نے حصول علم کو امت کا دینی، ملی اور اجتماعی فریضہ قرار دیا، آپ نے ابلاغ اور فروغ علم کے فضائل بیان فرمائے، اور کتمان علم کو انفرادی اور اجتماعی جرم اور گناہ عظیم قرار دیا۔ آپؐ کی ان تعلیمات اور فرامین کی بدولت دور رسالت میں علم اور تعلیم کا ایک ہمہ گیر انقلاب برپا ہوا، مکہ معظمہ میں دارِ ارقم، مدینہ منورہ میں صفہ اور دیگر درسگاہوں کے ذریعے وہ علمی اور تعلیمی انقلاب برپا ہوا جس نے دنیا کو مثالی تہذیب اور آئین حیات عطا کیا۔

معلم انسانیت حضرت محمد کی بعثت اور حکم اقراء کے فیضان سے علوم و فنون، فکر و فلسفے، مثالی تہذیب و تاریخ، سائنس و ٹیکنالوجی اور عظیم تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا اور دنیا علمی، تہذیبی وثقافتی حوالے سے نئے دور میں داخل ہوئی اور امت مسلمہ کئی صدیوں تک تعلیم، تہذیب و ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں دنیا کی امام رہی۔ موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی اسی مثالی عہد کی یادداشت اور پیداوار ہے۔

مکہ و مدینہ، کوفہ و بغداد، قرطبہ و غرناطہ، قاہرہ ودمشق، موصل و نیشاپور نے دنیا کو علم اور تہذیب و تمدن کے نور سے روشن کیا۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے دور عروج میں اندلس کی اسلامی ثقافت یورپ کی سب سے بلند اور ترقی یافتہ ثقافت تھی۔ مشہور مورخ اور سیاح ابن حوقل نے بیان کیا ہے کہ اس وقت اسلامی دنیا میں تعلیم و تعلم (Education & Literacy) کی ترقی یہاں تک تھی کہ صرف سسلی جیسے چھوٹے شہر میں 600 پرائمری اسکول تھے۔ اسی طرح مکہ و مدینہ، دمشق، حلب، بغداد، موصل، مصر، بیت المقدس، قرطبہ، نیشاپور، خراسان اور کئی دیگر اسلامی شہر اسکولوں، کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی وتحقیقی اداروں اور جامعات سے معمور تھے، جامعہ نظامیہ بغداد جو پانچویں صدی ہجری سے نویں صدی ہجری تک دنیا کی عظیم ترین یونیورسٹی تھی اس میں باقاعدہ طلبا کی تعداد 6000 رہتی تھی۔ اس قابل فخر تہذیب و ثقافت کی علمبردار اور ماضی میں شان دار علمی اور تہذیبی روایات کی امین امت مسلمہ تعلیمی حوالے سے کس مقام پر ہے، اس حوالے سے حقائق انتہائی افسوسناک ہیں۔

آج امت مسلمہ کی تعلیمی حالت کسی پر مخفی نہیں، وہ مہذب معاشرے میں جہالت اور ناخواندگی کا شکار ہیں۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں دیگر اقوام سے حد درجہ پیچھے ہیں۔ اعداد و شمار اور حالیہ کم و بیش بیشتر غریب اور پسماندہ مسلم ممالک کے تعلیمی جائزے کے مطابق اونچی آمدنی کے حامل ملکوں میں بالغان کی شرح ناخواندگی چار فیصد، بحیثیت مجموعی پوری دنیا میں پینتیس فیصد اور کم آمدنی والے ملکوں میں ناخواندگی کی شرح چالیس فیصد۔ کم ازکم سترہ مسلم اکثریتی ممالک میں بالغان کی شرح ناخواندگی پچاس فیصد سے بیاسی فیصد تک۔ مسلم افریقہ میں ستر فیصد سے زائد افراد ناخواندہ۔

پاکستان اور بنگلہ دیش میں پینسٹھ فیصد، مصر میں باون فیصد، ایران میں چھیالیس فیصد اور الجزائر میں تینتالیس فیصد افراد ناخواندہ جب کہ دنیا بھر میں 56 اسلامی ممالک کی مجموعی اوسط شرح خواندگی 20 تا 30 فیصد ہے۔ اسلامی ممالک میں سب سے اعلیٰ درجے والا ملک برونائی ہے، جس کا عالمی رینک 25 واں ہے۔ اس کے علاوہ کویت، بحرین، قطر، ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات کو اعلیٰ درجے کی فہرست میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا عالمی مقام 39 واں ہے۔ تین چوتھائی اسلامی ممالک ایسے ہیں جو اپنے سالانہ بجٹ کا چار فی صد بھی تعلیم پر خرچ نہیں کرتے، حالت یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا سائنس وٹیکنالوجی پر اپنی مجموعی پیداوار کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد سے بھی کم خرچ کرتی ہے۔

اس وقت پوری اسلامی دنیا میں صرف 500 یونیورسٹیاں ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کو اگر ہم مسلمانوں کی مجموعی تعداد پر تقسیم کریں تو ایک یونیورسٹی 30 لاکھ مسلمان نوجوانوں کے حصے آتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں صرف امریکا میں 5,758 یونیورسٹیاں ہیں اور ٹوکیو شہر میں 1000 یونیورسٹیاں ہیں۔ عیسائی دنیا کے 40 فیصد نوجوان یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہیں، جب کہ اسلامی دنیا کے صرف دو فیصد نوجوان یونیورسٹی تک پہنچ پاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں اکیس لاکھ لوگوں میں سے صرف 230 لوگوں کو سائنس کا علم ہوتا ہے، جب کہ امریکا کے دس لاکھ شہریوں میں سے 4 ہزار اور جاپان کے 5 ہزار شہری سائنس دان ہوتے ہیں۔ پوری عرب دنیا میں صرف 35 ہزار فل ٹائم سرچ اسکالرز ہیں جب کہ صرف امریکا میں ان کی تعداد 22 لاکھ ہے۔

پوری اسلامی دنیا اپنے جی ڈی پی کا صرف اعشاریہ دو فیصد ریسرچ پر خرچ کرتی ہے جب کہ عیسائی دنیا اپنی آمدنی کا پانچ فیصد حصہ تحقیق اور تعلیم پر صرف کرتی ہے۔ اس وقت دنیا میں200 بڑی یونیورسٹیاں ہیں، ان دو سو یونیورسٹیوں میں سے 54 امریکا، 24 برطانیہ، 17 آسٹریلیا، 10 چین، 10جاپان، 10 ہالینڈ، 9 فرانس، 9 جرمنی، 9 کینیڈا اور 7 سوئٹزرلینڈ میں ہیں۔ ان دو سو یونیورسٹیوں میں اسلامی دنیا کی صرف ایک یونیورسٹی ہے، جب کہ اس فہرست میں بھارت کی تین یونیورسٹیاں آتی ہیں۔ اگر ہم اس فہرست کا ذرا سا کڑا جائزہ لیں تو دنیا کی پہلی بیس یونیورسٹیوں میں 18 یونیورسٹیاں امریکا میں ہیں، کمپیوٹر کے پہلے دس بڑے ادارے امریکا میں ہیں اور دنیا کے 30 فیصد غیرملکی طالب علم امریکا میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، پوری دنیا میں امریکا اعلیٰ تعلیم پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرتا ہے، امریکا اپنے جی ڈی پی کا دو اعشاریہ چھ فیصد ہائر ایجوکیشن پر صرف کرتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں یورپ ایک اعشاریہ دو اور جاپان ایک اعشاریہ ایک فیصد خرچ کرتے ہیں۔

مسلم ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں۔ اس سلسلے میں 2000 میں بڑے دلچسپ اعداد و شمار تھے، چنانچہ جاپان میں ہر 10 لاکھ کی آبادی میں ساڑھے تین ہزار سائنس دان اور انجینئر تھے، امریکا میں دو ہزار سات سو، یورپ میں سولہ سو، ایشیا میں (جاپان شامل نہیں) 100 اور افریقہ میں 10 لاکھ آبادی میں سائنس دانوں اور انجینئروں کی تعداد 50 تھی، مسلمانوں کے اعداد و شمار دستیاب نہیں تھے مگر قیاس یہی ہے کہ سائنس دانوں اور انجینئروں کی تعداد ڈیڑھ سو اور سو فی ملین کے درمیان تھی۔ اس سے کسی حد تک مغرب کی ترقی اور مسلمانوں کی واضح پسماندگی کا سبب سمجھ میں آجاتا ہے۔

اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دنیا بھر میں نوے فی صد تحقیق تقریباً پینتیس ملکوں میں مرتکز ہے جن کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا پچیس فیصد ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد بدستور ناخواندہ اور ناقص تربیت یافتہ ہے۔ سائنس اور تحقیق کے شعبوں میں تو مسلمان اور بھی پیچھے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان تقریباً مکمل طور پر مغرب کے دست نگر ہیں۔جب تک تعلیمی پالیسی میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کی مد میں اخراجات میں نمایاں اضافہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک مسلمان بنیادی علم، سائنسی تحقیق اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی میں پیچھے ہی رہیں گے۔ ٹیکنالوجی اور سائنس سے طویل المیعاد وابستگی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ سائنسی کاوشوں میں مغرب سے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور تعاون کا عمل بھی مفید ثابت ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں