الیکشن ٹریٹ

گیارہ مئی 2013 سے پہلے بہت سے لوگوں کے دلوں میں خدشات و ابہام تھے کہ کیا مقررہ وقت پر الیکشن ہوسکیں گے؟


Shehla Aijaz May 19, 2013

گیارہ مئی 2013 سے پہلے بہت سے لوگوں کے دلوں میں خدشات و ابہام تھے کہ کیا مقررہ وقت پر الیکشن ہوسکیں گے؟ یہ سوال ایک معمہ بن چکا تھا جو خدا کا شکر ہے کہ گیارہ مئی کے ڈھلتے سورج کے ساتھ ہی بخوبی حل ہوکر کہیں کھوگیا۔ اس الیکشن کے حوالے سے بڑے فسانے بنے کچھ گھڑے گئے کچھ الجھائے گئے اور کچھ الجھ کر بھی سلجھ گئے۔ یہ دن پوری قوم کے لیے جوش وجذبے کا دن تھا لوگوں نے اسے بھرپور انجوائے کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سارا دن نتیجے بھی آتے رہے، ساتھ ساتھ ٹی وی چینلز کے تبصرے بھی چلتے رہے اور لوگوں کے درمیان گرما گرم بحثیں بھی چلتی رہیں۔ کچھ رنجشیں کچھ غم کچھ خوشی کچھ حیرانگی ہم جیسے لوگوں میں ابھرتی اور بیٹھتی رہی۔ لیکن دنیا بھر میں پاکستان کا نام بدنام نہ ہوا بلکہ سب سے زیادہ ووٹ ڈالنے کے حوالے سے ٹرن اوور نے اتنا تو ثابت کردیا کہ پاکستانی قوم باشعور ہوچکی ہے اور اس کے شعور کو مزید اجاگر کرنے کے لیے اس میں ہمارے میڈیا کا بھی بھرپور ہاتھ ہے، اس سے انکار کرنا ممکن نہیں۔

پاکستان کا نوجوان کس قدر جوشیلا ہے اپنے ملک کے حوالے سے اس بات کا اندازہ ہمیں اپنے قریبی ملنے والے کی گفتگو سے ہوا۔ ان کی نواسی کا ووٹ ڈالنے کے حوالے سے یہ پہلا الیکشن تھا، کہنے لگے صبح سویرے وہ اٹھی نہائی دھوئی اور سب گھر والوں کو بھی جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اٹھایا کہ سب کو ووٹ ڈالنے جانا ہے، سب جو چھٹی کا دن سمجھ کر سوتے رہنے کی خواہش لیے پڑے تھے مجبوراً اٹھے اور اس نوجوان کی پرزور خواہش پر گھر سے ووٹ ڈالنے نکلے، گھر والوں کے مختلف حلقوں میں ووٹ کا اندراج تھا لہٰذا اس بہانے کچھ تفریح بھی ہوگئی کیونکہ ناشتہ کیے بغیر ہی گھر سے نکلے تھے کہ کہیں دیر ہوجائے تو لمبی قطاروں میں نہ لگنا پڑے، لہٰذا ناشتہ بھی باہر انجوائے کیا گھر پہنچے تو ٹی وی پر الیکشن کی تازہ ترین صورت حال کے لیے ٹی وی آن کیا۔

چائے کے دور بھی چلتے رہے اور ساتھ ساتھ تبصرے بھی ہوتے رہے، یوں پورا دن ہلہ گلا، عید کی طرح گزرا کیونکہ اس دن ذرا اہتمام سے کھانے بھی پکے، ان کی اس الیکشن ٹریٹ کو سن کر خاصا مزہ آیا۔ جس طرح ایک نوجوان لڑکی اپنے گھر والوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے متحرک کرسکتی ہے، ہماری پوری قوم بھی اسی طرح تبدیلی کی غرض سے متحرک ہوسکتی ہے۔ لیکن نوجوانوں کی جیت ہر لحاظ سے رہی، چاہے وہ مسلم لیگ ن ہو، تحریک انصاف ہو یا ایم کیو ایم۔ ان تمام الیکشن میں ہماری نوجوان نسل نے بھرپور حصہ لیا اور شاید اسی نوجوان لڑکی کی طرح اپنے گھر کے بڑوںکو متحرک کرنے کی وجہ سے ٹرن اوور بھی زبردست رہا۔

الیکشن کے ہی حوالے سے بڑی دلچسپ خبریں بھی سننے اور دیکھنے کو ملیں، جیسے ایک موصوف جن کا تعلق پنجاب سے تھا اپنی بارات لے کر پولنگ اسٹیشن پہنچ گئے، دولہا بنے ووٹ ڈالتے وہ کیسے بھی لگ رہے ہوں لیکن اسی بہانے پورے پاکستان نے دولہا صاحب کو پاکستان کے اور ان کی زندگی کے اہم یادگار دن کے موقع پر دیکھا، ان کے لیے ٹی وی چینلز کی یہ ریکارڈنگ ان کی شادی کا بہترین تحفہ ثابت ہوئی۔ اسی طرح پنجاب ہی کے ایک ظالم شخص کی خبر سن کر دل غمزدہ ہوگیا جب اس کم ظرف نے اپنی بائیس سالہ بیٹی اور بیوی کو محض اس لیے قتل کردیا کہ وہ ووٹ ڈالنے گئی تھیں، ووٹ اس کی پسندیدہ پارٹی کو نہیں ڈالا گیا تھا یا کوئی اور ایشو تھا لیکن کیا اب اس کی بیوی اور بیٹی دوبارہ لوٹ سکیں گی؟ یہ الیکشن تو پھر پانچ برس بعد لوٹ ہی آئیں گے۔

سوشل نیٹ ورک نے بھی اس الیکشن کے لیے بھرپور کام کیا، زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے اسے اپنی پبلسٹی کے طور پر بھی استعمال کیا وہ قابل قبول ہوسکتا ہے لیکن غلط بیانی اور پروپیگنڈہ بھی خوب رہا۔ کسی کے چہرے پر اپنے پارٹی کے مخالف کا چہرہ لگا کر سرخیاں بنائی گئیں، صرف یہی نہیں کچھ انتہائی واہیات قسم کی تصاویر کے ساتھ سیاسی لیڈران کی شکلیں جوڑ کر بس تماشا ہی بنایا گیا، اپنی مرضی سے جو دل میں آیا مخالفین کے لیے لکھ ڈالا، لعنتیں ملامتیں اور نجانے کیا کچھ۔ الیکشن سے پہلے یہ چلتا ہی رہا لیکن الیکشن کے بعد کچھ ویڈیوز بھی پوسٹ کی گئیں جو کچھ تو ٹی وی چینلز پر بھی چلتی رہیں تو کچھ باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ مخالفین جماعتوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کی گئیں، جو مبہم تھیں لیکن اس کے ساتھ اپنی مرضی کی سرخی لگائی گئی کہ الیکشن میں یوں بھی ہوا۔ اس سلسلے میں ہماری بھی ایک خاتون اے پی او سے بات چیت ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ووٹرز کا اندراج فہرستوں میں ہوتا ہے لیکن جن ووٹرز کا اس فہرست میں اندراج نہیں تھا ہم انھیں واپس بھیج رہے تھے، ایک خاتون جو برقعہ پوش تھیں، مجھے شک بھی ہوا کہ جیسے یہ صبح ووٹ کاسٹ کرکے جاچکی ہیں تو میں نے ان سے پوچھ گچھ کی، اس پر ان خاتون نے کہا کہ میں تو صبح سے گھر پر کپڑے دھورہی تھی اب وقت ملا ہے تو آئی ہوں، جس پر شک کچھ بڑھا اور انھوں نے ان برقعہ پوش خاتون سے چہرہ دکھانے کو کہا، خاتون نے اپنا چہرہ دکھایا جو شناختی کارڈ کی تصویر کے مطابق ہی تھا لہٰذا سوال جواب کی گنجائش ختم ہوگئی تھی، ان خاتون نے ووٹ ڈالا اور چلی گئیں۔ دھاندلی کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ان کا پولنگ اسٹیشن حساس علاقے میں تھا جس کے باہر پارٹیوں کے کارکن منتظر تھے کہ انھیں ذرا بھی دھاندلی کا پتہ چلے تو وہ خدا جانے کیا کرتے، بہرحال ایک جماعت کی خواتین ایجنٹ خاصی بہانے باز تھیں۔ جیسے ہی ووٹنگ ختم ہوئی وہ سرپر پہنچ گئیں کہ جلدی سے رزلٹ دیں ہمارے بچے گھر پر رو رہے ہیں۔

جب ان سے کہا گیا کہ باقاعدہ گنتی کے بعد ہی رزلٹ دیے جائیں گے، اس طرح رزلٹ نہیں دیے جاتے حالانکہ اس دوران بجلی کی آنکھ مچولی بھی ہوتی رہی یہ کام اتنا آسان نہ تھا۔ موبائل فونز کی ٹارچوں سے کام چلایا گیا لیکن ان خواتین نے جو یومیہ اس جماعت سے ہزار روپے وصول کر رہی تھیں اپنے لوگوں میں جاکر نجانے کیا بہانہ گھڑا کہ وہ تن کر سامنے آگئے، بہرحال کوئی برا واقعہ پیش نہیں آیا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ پیسے لے کر کام کرتے ہیں ان کی غرض صرف اپنی پارٹی سے ہوتی ہے، کس بات سے کیا ہوسکتا کتنا بڑا فسانہ بن سکتا ہے انھیں احساس تک نہیں ہوتا۔ ہم نے ان سے پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں پولیس کے پاس جو اسلحہ ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ جدید قسم کا اسلحہ ان لوگوں کے پاس تھا جو دھاندلی کی بو سونگھتے پھر رہے تھے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پولیس والے اپنی بساط کے مطابق جتنا کرسکتے تھے انھوں نے کیا۔ بہرحال کرپشن میں گھرے ملک میں یہ الیکشن پھر بھی اتنے برے نہ رہے۔

اس بات سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ ہمارے سیکیورٹی کے ادارے بھی الیکشن کے اسٹامپ کی طرح ہیں، اس میں ان کا کوئی قصور نہیں جہاں دل چاہا انھیں لگادیا گیا، اب اسٹامپ گہری لگتی ہے یا دھیمی یہ بات ہے قسمت کی۔ الیکشن میں دھاندلی ہوئی یا نہیں لیکن جسے خدا نے مقام دینا تھا وہ دے دیا تمام سیاسی تجزیے، پیش گوئیاں کچھ بیٹھی کچھ اکھڑیں۔ اب وقت ہے کہ ملک کو اس مثبت سمت میں چلانا ہے جہاں اس اداس قوم کو خوشگواری نصیب ہو۔ آمین!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں