غیرملکی مزدوروں کے لیے بیگار کیمپ
اس سال فروری کے وسط میں سعودی عرب میں ایک سال سے پھنسے ہوئے 700 پاکستانی محنت کشوں کے ساتھ...
اس سال فروری کے وسط میں سعودی عرب میں ایک سال سے پھنسے ہوئے 700 پاکستانی محنت کشوں کے ساتھ ہونیوالے فراڈ کی خبر اس وقت منظر عام پر آئی جب ان میں سے ایک محنت کش کی 10 فروری کو کام کے دوران حادثے میں موت واقع ہوگئی۔ ترکی کی ایک تعمیراتی کمپنی نے ایک سال پہلے 700 پاکستانی محنت کشوں کو ویزے جاری کیے لیکن سعودی عرب پہنچنے پر صرف یہ انکشاف ہوا کہ ان محنت کشوں کو دیے جانے والے ویزے جعلی تھے بلکہ ان محنت کشوں کے ساتھ مختلف پیشوں اور تنخواہوں کے حوالے سے کیے جانے والے معاہدے بھی جھوٹے ہیں۔ اس وسیع پیمانے کی جعلسازی کا شکار ہونے کے بعد محنت کشوں میں کمپنی کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا لیکن قانون کی جکڑ بندیوں کی وجہ سے یہ محنت کش گزشتہ ایک سال سے اسی کمپنی کے کیمپوں میں قیدیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
چونکہ سعودی قانون کے مطابق آپ کو جس کمپنی کی طرف سے ویزا جاری کیا گیا ہے آپ کو اسی کمپنی میں کام کرنا پڑے گا اور اگر آپ اس کمپنی میں کام نہیں کرنا چاہتے تو آپ کو صرف لاکھوں روپے خرچ کرکے نیا ویزہ خریدنا پڑے گا بلکہ نئے ویزے کے حصول کے لیے آپ کو پہلے سعودی عرب سے واپس اپنے ملک آنا پڑے گا۔ یہ محنت کش جو لاکھوں روپے خرچ کرکے کمپنی میں مزدوری کی غرض سے گئے تھے اس فراڈ کے باوجود اپنی غربت کے مارے ہوئے ایک سال تک سعودی حکام کی جانب سے انصاف کے منتظر رہے۔ لیبرکورٹ میں کمپنی کے خلاف درجنوں درخواستیں دینے کے باجود سعودی حکام نے اس معاملے پر کوئی توجہ نہ دی۔ 10 فروری کو ایک محنت کش کی جان کی قربانی نے اس فراڈ کو منظرعام پر لایا جس پر صدر زرداری کو بھی اس واقعے کا کھلے عام نوٹس لینا پڑا۔
جس کے بعد سعودی عرب حکام نے مداخلت کرتے ہوئے کمپنی افسران جو اس فراڈ میں ملوث تھے کہ خلاف قانونی کارروائی کی اور ان سات سو محنت کشوں کو اس بیگار کیمپ سے نجات دلاتے ہوئے یہ اختیار دیا کہ چونکہ ان کے ساتھ ہونیوالے فریب میں کمپنی افسران قصور وار ہیں اس لیے یہ محنت کش چاہیں تو کسی دوسری کمپنی میں نوکری تلاش کرسکتے ہیں یا واپس اپنے ملک چلے جائیں اور کمپنی کی جانب سے دیے جانے والے جعلی ویزوں کو کارآمد قرار دے دیا گیا۔ غریب اور ظلم وجبر کا یہ چھوٹا سا واقعہ عرب کے تپتے صحراؤں میں محنت کی بھٹی میں اپنا لہو جھلسانے والے غیرملکی محنت کشوں کی حالت زار کی معمولی سی عکاسی کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ہمیں سامراجی ذرایع ابلاغ میں عموماً یہ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ چین کے نام نہاد کمیونسٹ حکمران اپنے ملک کے سماجی اعداد وشمار کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے لیکن اس سے کئی زیادہ ان ذرایع ابلاغ نے سعودی عرب کے رجعتی حکمرانوں کی وحشت اور بربریت کے حوالے سے مجرمانہ خاموشی اپنا رکھی ہے۔
سعودی عرب میں ایک بھاری تعداد غیرملکی محنت کشوں کی ایسی ہے جو آزاد ویزے حاصل کرکے اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں لیکن درحقیقت سعودی عرب کے ویزا قوانین کیمطابق آزاد ویزا کوئی ہے ہی نہیں، کیونکہ کسی بھی غیرملکی محنت کش کو ویزا یا تو کفیل کی یا کمپنی کی وساطت سے جاری کیا جاتا ہے ۔ وہ تمام سعودی جو ویزوں کے کاروبار سے کروڑوں روپے کماتے ہیں،انھوں نے اپنے منافعوں کو بڑھانے کے لیے آزاد ویز ایجاد کیا ہے جو ایک جانب سعودی قانون کی نظر میں غیرقانونی ہے لیکن غیرملکی محنت کشوں کے لیے کسی حد تک سہولت ہے جس میں کم ازکم ایک حد تک یہ آزادی ہوتی ہے کہ آپ اپنی مرضی سے کام تلاش کرکے اس کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
لیکن آزاد ویزے کے اجراء کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک سعودی اپنا ایک فرضی کاروبار دستاویزات میں دکھا کر ویزے حاصل کرتا ہے اور تقریباً تین سے چھ لاکھ پاکستانی روپے یعنی 12 سے 20 ہزار ریال میں ہر ایک ویزا فروخت کرتا ہے۔ اس ویزے کی فروخت اس معاہدے سے مشروط ہوتی ہے کہ آزاد ویزا حاصل کرنیوالا محنت کش جب کسی جگہ ملازمت حاصل کرے گا تو وہ سعودی اس کو دستاویزی اجازت نامہ جاری کرے گا تاکہ وہ اپنا اقامہ (رہائشی کارڈ)اور لیبرکارڈ نئے نام سے بنواسکے اور اکثر اس معاہدے کے باوجود 2 سے 4 ہزار ریال مزید اس سعودی کو دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے۔ سعودی قوانین کیمطابق کوئی محنت کش اپنا کفیل یا کمپنی تبدیل نہیں کرسکتا، ایسا کرنے سے اسے نیا ویزہ خریدنا پڑے گا۔ لیکن اس قانون کے باوجود آزاد ویزوں کے اجراء اور فروخت کا ایک بہت بڑا کاروبار ہے جو مسلسل پھیلتا جارہا ہے۔
ان دنوں سعودی حکومت اس قانون کو زورشور سے نافذ کر رہی ہے کہ تمام ایسے محنت کش جو اپنے کفیل کے پاس کام نہیں کر رہے ہیں وہ سعودی قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، اس لیے ان کے خلاف اقدامات اٹھاتے ہوئے انھیں واپس اپنے ملک بھیجا جارہا ہے۔ سعودی قانون کے مطابق ہر غیرملکی محنت کش کو سعودی عرب پہنچنے پر ایک رہائشی کارڈ جسے اقامہ کہتے ہیں اور ایک لیبرکارڈ بنوانا پڑتا ہے اور یہ دونوں کارڈ بنوانے کی ذمے داری اس محنت کش کو سعودی عرب کا ویزہ دلوانے والی کمپنی یا فرد (کفیل) پر ہے۔ اقامہ اور لیبر کارڈ کی سالانہ تجدید ہوتی ہے، جس کی بالترتیب پہلے سات سو اور ایک سو سعودی ریال فیس تھی جو حالیہ دنوں میں اضافے کے ساتھ 2400 اور 3000 سعودی ریال کردی گئی ہے۔
اس کے علاوہ اقامہ کی فیس میں اضافے کی وجہ سے تمام چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں اور کمپنیوں کے مالکان نے ان کے ہاں کام کرنیوالے غیرملکی محنت کشوں کے اقامہ جات کی تجدید کرانے سے انکار کردیا ہے چونکہ وہ 700 سعودی ریال کی جگہ 2400 سعودی ریال ادا نہیں کرسکتے، اس کے باعث ہزاروں محنت کش اپنے رہائشی کارڈ کارآمد نہ ہونے کی وجہ سے غیرقانونی قرار دیے جارہے ہیں۔ اور ان کو زبردستی واپس اپنے گھروں کو بھیجا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑی کمپنیاں بھی فیسوں میں اس اضافے کو مکمل طور پر یا نصف سے زیادہ رقم محنت کشوں کو اپنی تنخواہوں سے ادا کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ حالیہ عرصے میں سعودی حکام نے اس قانون کو بھی زور و شور سے نافذ کرنا شروع کیا ہے کہ تمام بڑی نجی کمپنیاں مزدوروں کی کل تعداد کا کم ازکم نصف سعودی باشندوں کو ملازمتیں دیں ورنہ ہر اضافی غیرملکی مزدور رکھنے کے لیے 200 ریال ماہانہ فی مزدور ادا کریں۔
دوسری جانب شاہی خاندان دنیا کے امیر ترین ارب پتی بنتے جارہے ہیں۔ فاربس جریدے نے حال ہی میں جب 2013 کے امیر ترین افراد کی فہرست شایع کی تو ایک سعودی شہزادے کو 20 ارب ڈالر کے اثاثے کی ملکیت کے ساتھ دنیا کا 26 واں امیر ترین فرد قرار دیا، جس پر اس شہزادے نے احتجاج کیا کہ جریدے نے اس کی دولت کم بتاکر اس کی توہین کی ہے۔ شہزادے نے کہا کہ اس کے اثاثوں کی مالیت 29.6 ارب ڈالر ہے اور یہ دنیا کے 10 امیر ترین افراد کی فہرست میں آتا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کا موجودہ بادشاہ 17 ارب ڈالر کی دولت کا مالک اور دنیا کا تیسرا امیر ترین بادشاہ ہے۔ ایک سعودی معیشت دان جس نے وزارت خزانہ میں ذمے داریاں سرانجام دی ہیں اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر نیویارک ٹائمز اخبار کو بتایا کہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی بتا سکتا ہے کہ شاہی خاندان تیل کی دولت میں کتنا ہڑپ کرجاتا ہے ہم یہ تو جانتے ہیں کہ بجٹ کے لیے کتنا دیا جاتا ہے۔
وکی لیکس نے ریاض میں امریکی سفارتخانہ سے 1996 میں بھیجے گئے ایک خفیہ مراسلے کو شایع کیا جس میں شاہی خاندان کی لوٹ مار کا تذکرہ کچھ یوں ہے۔ ''تیل کی دولت نے تمام اہم ممبران کو ماہانہ 2.5 لاکھ ڈالر اور خاندان کے غریب ترین اور غیر اہم ترین ممبران کو 800 ڈالر ماہانہ وظیفے دیے جاتے ہیں''۔ امیر اور غریب کی یہ خلیج صرف بادشاہت کی وجہ سے نہیںبلکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ بھی ہے۔ جیساکہ امریکی آئل کمپنی اور دیگر غیرملکی کمپنیوں کی لوٹ مار کے علاوہ آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں اور سود کی ادائیگی وغیرہ۔ یہ خلیج اس سرمایہ داری میں بڑھ تو سکتی ہے لیکن گھٹ نہیں سکتی۔ جس کے نتیجے میں سعودی عرب میں 25 فیصد لوگ بے روزگار ہیں۔ اس کے خاتمے اور تمام لوگوں کی برابری اور جینے کے حق کے لیے ایک غیرطبقاتی سماج کی ضرورت ہے جو محنت کشوں اور دسترخوان پر سب کھائیں گے اور ایک جیسی رہائشیں، علاج اور تعلیم مہیا ہوگی۔ یہ غیرطبقاتی سماج پورے عالم عرب اور دنیا بھر میں رائج ہوکر ہی اس نابرابری، ظلم و بربریت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔