اب بھی وقت ہے
کب کروگے یہ؟ جب آخری کشمیری بھی شہید ہوجائے گا، کیا جواب دو گے ان لوگوں کو جنھوں نے پاکستان کے لیے جانیں دیں۔
وطن سے محبت اور اس کے لیے قربانیاں دینے کے بیانات زیادہ تر ان لوگوں اور ان کی اولادوں کی طرف سے آتے اور چھپتے ہیں جنھوں نے وطن کو زیادہ لوٹا اور عوام کوکنگال کیا ہوتا ہے۔ یہ قلم سے اخبار تک بہت سی جگہ اسپانسرڈ اور کچھ جگہ ''لفٹ'' کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ اب اتنی مہنگی ''وطن دوستی'' چند لوگ ہی کرسکتے ہیں جن کی یہ ''تجارتی حکمت عملی'' ہوتی ہے۔
''تجارتی حکمت عملی'' یوں کہ عوام کا بھی ایک مناسب فی صد حصہ ''وطن پرستی'' میں دلچسپی رکھتا ہے یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو وطن پرستی کا کاروبار کرتے ہیں ان کی کمپنی کا نام ''قوم پرست'' ہے۔ حالانکہ ملک و قوم کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے۔ قوم کے بغیر ملک نہیں ہوتے اور ملک کے بغیر قوم کا تصور محال ہے۔
مگر ہمارے ملک میں ان دونوں کے الگ الگ ''کالنگ سینٹر'' کھلے ہوئے ہیں اور ان منفی جذبات کی "SIM" وہیں ملتی ہے وہ زیادہ تر بھارتی یا افغانی ہوتی ہے اور ''امریکن نیٹ ورک'' استعمال کرتی ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب شاعری کو دوبارہ شروع کردوں اور اپنا تخلص ''نوح'' رکھ لوں، ملک و قوم کی اس تجارت کے تحت اب سفر لازم ہوگیا ہے اور سفر تو سفر ہے اردو میں ہو یا انگریزی میں۔
ایک اخبار کا ایڈیٹوریل صفحہ بہت دلچسپ تھا۔ جس میں ایک طرف ایک کالم نگار نے بھارتی میڈیا کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا کی ناکامی کا اظہارکیا ہے اور بھارت مخالف لٹریچر سے کماحقہ فائدہ نہ اٹھانے کا تاثر دیا ہے جو درست ہے ہماری نظر میں اور اس کے ساتھ دوسرا کالم ہے ''کتے کے بھونکنے کا شافی علاج'' ہرگز یہ کالم پہلے کالم کا جواب نہیں بس حسن اتفاق ہے اور حسن تو پایا ہی اتفاق میں جاتا ہے اب تو یہ لوگ مرغی انڈے تک پہ قابو پاچکے ہیں مگر ہمیں چیزوں کے اصل کو یاد رکھنے کی عادت ہے۔
فاضل کالم نگار نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ایلیزڈیوڈسن کی کتاب جس نے بمبئی حملوں کا پردہ چاک کرکے بھارت امریکا اسرائیل کی پاکستان دشمن سازش کو بے نقاب کیا ہے ۔ اس کے سوالوں کا بھارت کے پاس کوئی جواب نہیں اور وہ تلملا رہے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کے سیاسی رہنما سیف الدین سوز نے کتاب شایع کی اور لکھ دیا کہ کشمیری بھارت سے آزادی چاہتے ہیں اور اس سے بھارت کے مفاد پرستوں عرف ہندوتوا عرف ہندو قوم پرستوں کو کس قدر تکلیف ہے کہ BJP جس کو بھاگ جنتا پارٹی کہنا چاہیے کیونکہ وہ عوام کے پیچھے ڈنڈا لے کے بھاگ رہی ہے۔ ایک لیڈر نے انٹرویو دیتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ مسٹر سوزکو One Way ٹکٹ دے کر پاکستان بھیج دیا جائے۔
کالم نگار نے اول الذکرکتاب پر لندن کے انسٹی ٹیوٹ میں بھارت کے کردار کی مذمت میں کانفرنس کا ذکرکیا جس کو پاکستانی میڈیا نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کے 20 صفحات پر بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا اعتراف اور تحقیق کا مطالعہ کیا گیا ہے۔اس رپورٹ کو بھی پاکستانی میڈیا میں کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔
میں فاضل کالم نگارکے جذبہ قومی کا دل سے مداح ہوا اور ان کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ وہ تنویر سے مہتاب بن جائیں ان کا قلم سچ لکھتا رہے مگر کتنے ایسے لوگ ہیں جو ''قائد اعظم'' (اشارہ آپ سمجھ رہے ہوں گے) سے وفاداری ترک کرکے بھوکا مرنا پسند کریں گے، بہت سے نامدار ایسے ہیں جن کا دین ایمان تک یہ ہے اور وہ نہ جانے کتے کے بھونکنے کا اشارہ سیاسی مخالفین کو قرار دے رہے ہیں یا کسی اور کو بھلا کون جانے۔ ہزار منہ ہزار باتیں اور ہر ایک کے ہزار مطلب۔ راوی کی سند ضروری ہے کہ مستند رہے۔
کتنے عرصے سے کشمیر کمیٹی کشمیر کے نام پر حلوہ مانڈہ اڑا رہی تھی گزشتہ دس برس ہی میں اس کشمیر کمیٹی کو کتنی رقم دی گئی کوئی پوچھ سکتا ہے؟ اس کو اگر پہلے پوچھا جاتا تو قبل از الیکشن دھاندلی اوراگر اب پوچھ لیا جائے تو بعداز الیکشن دھاندلی یا نام نہاد احتساب اور اسلام کا نام دے دیا جائے گا۔ زرداری لیگ اور کولیگ سیفٹی نواز لیگ نے کشمیر کا معاملہ کرائے پر کشمیر کمیٹی کو دیکھنے کو دیے رکھا اور وہ مسلسل اسے دیکھتے رہے اور لقمے توڑتے رہے۔ عیوضاً دونوں لیگ کے کولیگ بشمول زئی، یار ساتھ کھڑے رہے۔ ہر دو ادوار میں گزشتہ دس سال خاص طور پر۔ ایک بزرگ کشمیری کی ویڈیو لندن کی آپ پندرہ جولائی کو دیکھ چکے ہیں۔
کشمیر کا معاملہ ان لوگوں کا کاروبار ہے۔ وزارت خارجہ خارج ازبحث ہے وہ شاید کشمیر کو مسئلہ سمجھ کر اس مسئلے سے حکم کے مطابق دست بردار رہی وہاں کے لوگوں میں سفیر لگنے کا رجحان چل رہا تھا جسے الیکشن سے پہلے امریکا میں جہانگیری کرکے وہاں کاروبار کے مواقعے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ پانامہ کا نامہ وہاں لے جانے کا پروگرام بھی ہوسکتا ہے۔ نئی حکومت اس کالم کے چھپتے آ چکی ہوگی دیکھیے کیا ہو؟
یہ درست وقت ہے کہ کشمیر میں آزادی کی آگ جل رہی ہے۔ لاکھ پاکستان میں پیدا ہونے اور بھارت میں آباد ہونے والے صحافی اسے بغاوت اور ملک سے غداری قرار دیں یہ جنگ آزادی ہے۔ ایک بار پھر برصغیر کا ایک حصہ سرگرم ہے اور بھارت کے مختلف حصوں میں یہ تحریکیں چل رہی ہیں۔ یہ صحافی ان سے بہتر ہیں جو بیٹھ کر نمک حرامی کر رہے ہیں پاکستان سے یہ کم ازکم بھارت کا کھا رہے ہیں تو اپنے آبائی وطن پاکستان کے خلاف بھارت کے حامی ہیں۔
میں اکثر ان کے کالم پڑھتا ہوں اور یہ بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر ناقد ہونے کے باوجود پاکستان دشمنی میں حکومت کے حامی ہیں اورکچھ ہمارے بے ضمیر لفافے ہیں جو صرف ''نوٹ'' مانگتے اور دینے والوں کی مانتے ہیں۔ سیر و تفریح کا بندوبست، ٹور ہی ان کے لیے بہت کچھ ہے نہ جانے کیا کچھ دیکھ لیا اور کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ان کا اصول یہ ہے کہ ایک کالم کبھی کبھار ان کے خلاف لکھ دو تاکہ حرف نہ آئے باقی وقت سرکاری کمیٹی میں رہو۔
کشمیر کا فیصلہ پاکستان کا بھی ایک فیصلہ ہے ۔ قوم کو بے عزت نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ اقوام متحدہ میں اس پر خاموش نہیں رہنا چاہیے تھا۔ کشمیر کمیٹی کے حوالے کرنے کے بجائے اس مسئلے کو دانشوروں اور سفارت کاروں کے حوالے کرنا چاہیے اور RIGID سفارت کاری انتہائی سرگرم کرنی چاہیے اور اس میں وہ سب مواد استعمال کرنا چاہیے جس کا کالم نگار نے ذکر کیا تھا۔
کب کروگے یہ؟ جب آخری کشمیری بھی شہید ہوجائے گا، کیا جواب دو گے ان لوگوں کو جنھوں نے پاکستان کے لیے جانیں دیں ، افواج پاکستان کے وہ جوان جو سرحدوں پر شہید ہوئے، دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے عام شہری یہ بھارتی فوج نہیں دہشت گرد ہیں جو سرحدوں پر پاکستان کے عوام کو شہید کر رہے ہیں، اللہ کا فضل مانگو ،
اللہ سے مدد مانگو ہر مسئلے کا حل ہے صرف امر الٰہی کے ساتھ دیانت، حب الوطنی اور اتحاد ضروری ہے اور ہم اس کے اہل ہیں۔ کشمیر منتظر ہے آہٹیں سننے کا تمہاری جو انشا اللہ وہاں پہنچیں گی۔(انشاء اللہ)