یوم آزادی اور نیا پاکستان

آج جب پرانے لوگوں کو عوام نے مسترد کر دیا ہے تو یہ لوگ پاکستان کے خلاف ہی نعرے لگاتے نہیں تھک رہے۔


علی احمد ڈھلوں August 14, 2018
[email protected]

KARACHI: آج قوم آزادی کا 71واں جشن منا رہی ہے۔ ''نئے پاکستان'' کا آغاز جشن آزادی کے دنوں میں ہو رہا ہے۔اس لحاظ سے یہ ہفتہ پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین دنوں میں گنا جائے گا، جس میںمسلسل جمہوری عمل کا یہ تیسرا دور شروع ہو رہا ہے، اور پندرھویں قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں کے منتخب اراکین نے حلف اُٹھالیا ہے ،پنجاب اسمبلی کے اراکین کل اور وزیر اعظم 18تاریخ کو حلف اُٹھائیں گے۔

موجودہ جشن آزادی اس لیے بھی تاریخ ساز ہے کہ اس میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے علاوہ ایک تیسری جماعت تحریک انصاف حکومت کرنے جا رہی ہے۔ یعنی پرانے آزمائے ہوئوں کی جگہ نئے لوگوں نے لے لی ہے۔اور حقیقت میں اس ہفتے نئے قومی جذبات برآمد ہورہے ہیں۔ ایک مضبوط، محفوظ، ترقی پسند اور کرپشن سے پاک ملک کی امید، جو غیر آزمودہ سیاسی شخصیت عمران خان نے قوم کے دلوں میں پیدا کی ہے اور ساتھ یہ خوف بھی ہے کہ اگر وہ ناکام ہوگیا ، تو اس کے حامیوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں رہے گی۔

آج جب پرانے لوگوں کو عوام نے مسترد کر دیا ہے تو یہ لوگ پاکستان کے خلاف ہی نعرے لگاتے نہیں تھک رہے ، عرصہ دراز سے حکومت کے مزے لوٹنے والے مولانا فضل الرحمن کو ہی سن لیں، ارشاد ہوا ہم 14اگست کو جشن آزادی نہیں منائیں گے، جان کی امان پاؤں تو عرض کروں اس سے پہلے آپ نے کب جشن آزادی منایا؟ جس ''گناہ'' میں شریک نہ ہونے پر آپ کے بزرگ نازاں تھے، اس پر آپ جشن منا بھی کیسے سکتے ہیں؟

وصل لیلائے اقتدار کی آس میں تڑپتے قائدین انقلاب کا تو ایک ہجوم ہے، اس کے ہجر میں یوں برہم بزرگ پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ جب تک کشمیر کمیٹی کی سربراہی تھی، وفاق میں وزارتیں تھیں، ریاستی وسائل تھے، سرکاری اقامت تھی، گاڑی تھی، پٹرول تھا، نوکر چاکر اور ملازم تھے، تب تک سب ٹھیک تھا۔ جیسے ہی مراعات کا یہ بحر الکاہل خشک ہوا صاحب نے ریاست ہی کو نشانے پر لے لیا۔حیرت ہے مولانا نے کس رسان سے فرما دیا کہ چودہ اگست کو جشن آزادی نہیں منائیں گے؟

حالانکہ ان سے زیادہ کس کو علم ہوگا کہ یہ پاکستان ہمارے بڑوں نے کن قربانیوں کے عوض لیا ہے۔لندن کے ایک صحافی مسٹر رالف کی ''پاک بھارت پارٹیشن ''کتاب میں لکھے وہ الفاظ پڑھ لیں جس میں اس نے صحیح معنوں میں ظلم و ستم کی داستان رقم کی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے اُنہی دنوں کراچی سے دِہلی تک کا سفرکیا۔ جب میں کراچی سے براستہ لاہور عازمِ دِہلی ہواتو مجھے راستے میں سفاکی کا کوئی منظر نظر آیا ، نہ ہی میں نے کوئی لاش دیکھی ۔ لاہور پہنچ کر مشرقی پنجاب میں ہونے والی دہشت و سفاکیت کے آثار نمایاں نظر آنے لگے کیونکہ اُسی دِن لاہور میں خون سے لَت پَت ٹرین پہنچی تھی، یہ ٹرین 9 ڈبوں پر مشتمل تھی جس پر آسانی سے ایک ہزار مسافر سما سکتے تھے۔ اِس ٹرین کے مسافروں کو بھٹنڈاکے جنکشن پر بے دریغ تہِ تیغ کر دیا گیا تھا ۔ ہماری گاڑی اتوار کی صبح دہلی کے لیے روانہ ہوئی ۔ پاکستان کی سرحد عبور کرنے کے بعد جابجا ایسے مناظر بکھرے پڑے تھے جو لاہور کی لُٹی پُٹی ٹرین سے کہیں زیادہ ہولناک اور دہلا دینے والے تھے ۔ گِدھ ہر گاؤں کے قریب سے گزرنے والی ریلوے کی پٹری پر اکٹھے ہو رہے تھے، کُتّے انسانی لاشوں کو بھنبھوڑ رہے تھے اور فیروزپور کے مکانات سے ابھی تک شُعلے اُٹھ رہے تھے۔ جب ہماری ٹرین بھٹنڈا پہنچی تو مجھے ٹرین سے ذرا فاصلے پر انسانی لاشوں کا ایک ڈھیر نظر آیا ۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کے دوسپاہی وہاں مزید لاشوں سے لَدی بَیل گاڑی لائے۔ اُس ڈھیر پر ایک زندہ انسان کراہ رہا تھا ۔ سپاہیوں نے اُسے دیکھا لیکن وہ اپنی لائی ہوئی لاشیں ڈھیر پر پھینک کر سِسکتے اور کراہتے انسان کو وہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔ لاشوں کے ڈھیر سے تھوڑے فاصلے پر ایک بوڑھا کسان دَم توڑ رہا تھا ، اُس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے گئے تھے اور گلے سے خون جاری تھا اور ایک کُتا زمین پر اور ایک گِدھ درخت پر اُس کی موت کا بیتابی سے انتظار کر رہے تھے ۔''

یہ تھی قربانیاں جو ہمارے بڑوں نے دیں اور یہ قربانیاں دونوں طرف ان حکمرانوں نے لیں جن کے منہ میں دونوں طرف حکمرانی کے سنہرے چمچ تھے۔ جو قربانی دے کر، اپنی جائیدادیں چھوڑ کر وطن عزیز میں آئے ہمارے حکمرانوں نے ان کے ساتھ کیا کیا ؟ یہ بھی ایک الگ تاریخ ہے یہاں کے ارباب اختیار لینڈ لارڈ کیسے بن گئے ،کس کس طرح زمینیں تقسیم کی گئیں، ہمارے ساتھ الحاق کرنے والی ریاستوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا سلوک کیا، اس حوالے سے کسی دن علیحدہ کالم کا حصہ بنائوں گا،جو یہاں آئے انھیں آج بھی ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پہلے سیاستدان آپس میں لڑتے رہے پھر اسکندر مرزا،ایوب خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے عوا م کا بھرکس نکال دیا اور رہی سہی کسر ان سیاستدانوں نے نکال دی اور عوام کے اربوں ڈالر ان حکمرانوں نے بیرون ملک بھجوا کر ملک کو کھوکھلا کر دیا۔ یہاں جس کا مزاج برہم ہوتا ہے وہ پاکستان کو سینگوں پر لے لیتا ہے۔ بلیک میلنگ کی سیاست کا کلچر عام ہو چکا۔ ایک چلاتا ہے؛ کالاباغ ڈیم بنایا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ دوسرا چیختا ہے: مجھے کیوں نکالا، ایسے تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ تیسرا دہائی دیتا ہے میں کیسے ہار گیا اس طرح تو پھر تصادم ہو گا۔

پیغام واضح ہے: ہمارے مفاد ، ہمارے مزاج اور تجوری کا خیال رکھا گیا تو پاکستان زندہ باد ورنہ ہم جشن آزادی نہیں منائیں گے۔ یہی اعلان شیخ مجیب الرحمن نے مارچ 1971ء میں کیا تھا جس کے 9ماہ بعد پاکستان دو لخت ہوگیا تھا۔حالانکہ ان سیاستدانوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ جب بھٹو کی حکومت ختم کی گئی تھی تب پیپلز پارٹی نے یہ قطعاََ نعرہ نہیں لگایا تھا، جب 1999ء میں مشرف نے نواز حکومت کو ختم کیا تھا تب بھی کسی نے اس قسم کانعرہ نہیں لگایا تھا۔ جب بے نظیر کی شہادت ہوئی تب بھی کسی نے ایسے نعرے کی بنیاد نہیں ڈالی تھی۔

باہمی اختلافات سے قطع نظر قوم کے کچھ اجتماعی دن ہوتے ہیں۔ ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ چودہ اگست ہماری اجتماعی خوشیوں کا دن ہے۔ قدرت نے پاکستان کو معدنی دولت سے مالا مال کیا ہے۔جیولوجیکل سروے کے مطابق ہمارے ملک میں 6 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے میں معدنی ذخائر موجود ہیں جن میں کوئلے، تانبے، سونے، قدرتی گیس، تیل، ماربل، قیمتی پتھر، گرنائیڈ، نمک اور چونے کے ذخائر قابل ذکر ہیں۔ بلوچستان کے علاقے ریکوڈیک میں دنیا کے پانچویں بڑے تانبے کے 22 ارب پائونڈ اور سونے کے 13 ملین اونس کے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی مجموعی مالیت 500 ارب ڈالر ہے۔

اُمید ہے عمران خان انھی منصوبوں پر کام کریں گے اور کوشش کریں گے کہ انھی ذخائر پر کام کریں اور حلف اُٹھانے کے بعد قوم سے پہلے خطاب میں انھی ذخائر سے استفادہ اُٹھانے کی بات کریں گے۔ پھر پاکستان دنیا بھر میں کینو کی پیداوار میں پہلے، چنے کی پیداوار میں دوسرے، کپاس، چاول، کھجور اور خوبانی کی پیداوار میں چوتھا بڑا ملک ہے۔ اسی طرح پاکستان مچھلی، دودھ اور گنے کی پیداوار میں پانچویں، گندم کی پیداوار میں چھٹے، خشک میوہ جات، پیاز اور آم کی پیداوار میں ساتویں، قیمتی پتھروں اور سنگ مرمر کی پیداوار میں آٹھویں، چینی اور حلال گوشت کی پیداوار میں نویں جب کہ سیمنٹ اور چاول کی پیداوار میں بارہویں نمبر پر ہے۔

اقوام متحدہ کی فوڈ اور ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ گھی پیدا کرنیوالا ملک ہے جب کہ ملک میں دنیا کے سب سے بڑے نمک کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں معدنی ذخائر رکھنے والا امیر ترین لیکن اسے استعمال کرنے میں غریب ترین ملک ہے۔

ملک میں دنیا کے کوئلے کے چوتھے بڑے جب کہ سونے (100ارب ڈالر) اور تانبے (27ارب ڈالر) کے پانچویں بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن 6دہائیاں گزرنے کے باوجود بدقسمتی سے ہم ان قدرتی نعمتوں کو زمین سے نکال کر فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ جب پاکستان میں یہ سب کچھ ہے تو ہم نئے پاکستان میں اس اُمید کے ساتھ قدم رکھ رہے ہیں اور یوم آزادی پر یہ عزم کررہے ہیں کہ نئے پاکستان میں نئے مواقع پیدا کرکے نئی اُمیدوں کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا ، مگر ضرورت اس وقت نئی حکومت کا ساتھ دینے اور اس کے ساتھ کھڑے ہونے کی ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں