آخر مظاہرے میں ایسا کیا ہوا
مولانا فضل الرحمان نے ایم ایم اے کو بری طرح داغدارکردیا ہے۔اس وقت ایسا محسوس ہو رہا ہے
الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر ہونے والے مظاہر ے میں مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا کہ ''وہ جشن آزادی نہیں منائیں گے'' بلکہ جدو جہد آزادی منائیں گے۔ اس اعلان سے انھوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بد نام کرنے کا کام کیا۔ خود مولانا کے اس اعلان کو ہر حلقے میں نا پسند کیا جا رہا ہے۔ عوام میں انھوں نے اپنی ساکھ بہت خراب کردی ہے میڈیا انھیں ایک ناپسندید ہ شخص کے طور پر پیش کر رہا ہے، پیپلز پارٹی نے فوری رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ مولانا کے ذاتی خیالات ہیں، پیپلز پارٹی اس سے اتفاق نہیں کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے یہ بیان دے کر اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔
آنے والی حکومت میں کسی مرحلے پرکوئی داؤ لگا کر وہ وفاقی مشیرکا عہدہ حاصل کرسکتے تھے لیکن وہ دروازے جو پہلے ہی بند تھے اب ان تک پہنچنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کی جانب سے الیکشن کمیشن کے دفترکے باہر ہونے والے مظاہرے میں اداروں اور عدالتوں کے خلاف نعروں کی صورت میں جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد معافی تلافی کا سلسلہ جاری ہے لیکن اسے قبولیت نہیں دی جا رہی ہے۔ آیندہ اس قسم کے مظاہرے کرنے والی جماعتیں خود اپنے لیے مشکلات میں اضافہ کرسکتی ہیں۔ انھیں سیاسی نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے تین رہنماؤں کو نا اہلی کی سزا ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ احتجاجی سیاست سے گریزکریں گے۔ مسلم لیگ (ن) گرداب میں پہلے سے ہے، اب اس قسم کے واقعات اسے مزید مشکل کے بھنور میں لے جارہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے ایم ایم اے کو بری طرح داغدارکردیا ہے۔اس وقت ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے نئے سیاسی حالات کوسمجھ نہیں سکے۔ پیپلزپارٹی وہ واحد جماعت ہے جو سوچ سمجھ کر سیاست کر رہی ہے ۔ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے، بلاول بھٹو ایک مرتبہ پریس کانفرنس کے بعد خاموش رہے لیکن اس کے اثرات پیپلزپارٹی کے لیے بہتر رہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے والی ہے، بلاول بھٹو کو قومی اسمبلی میں موثرکردار دینے کے لیے پیپلز پارٹی بھرپور تیاری کر رہی ہے۔ شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن کے بیان پر جو رد عمل دیا ہے، اس کے اثرات اچھے نہیں ہیں۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے کسی سہارے یا بیساکھیوں کے بل بوتے پر سیاست کرتے تھے جیسے ہی بیساکھیاں علیحدہ ہوگئیں سیاسی طور پر مفلوج ہوکر رہ گئے اورکسی واضح حکمت عملی کے ساتھ سامنے نہیں آئے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے ہونے والا مظاہرہ بیک فائر ثابت ہوا اور مولانا فضل الرحمن کے خطاب نے مسلم لیگ (ن)کو پیچھے ہٹنے پر مجبورکردیا۔ پیپلزپارٹی کے چیئر پرسن نے مولانا فضل الرحمن کے رویے کو قبول نہیں کیا اور پارٹی رہنماؤں کو انھیں صحیح راہ پر لانے کی ذمے داری سونپ دی۔ امکان یہ ہے مولانا کے اس رویے کی وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکرکے امیدوار خورشید شاہ اور خصوصا ڈپٹی اسپیکرکے لیے مولانا فضل الرحمان کے بیٹے اسد محمود کے ووٹوں پر فرق پڑسکتا ہے۔ تحریک انصاف نے رفتہ رفتہ اقتدارکی منزل تک جانے کے لیے اپنا راستہ بنا لیا ہے۔ 18 اگست کو وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔ امکانات ہیں کہ 15یا 17 اگست کو قومی اسمبلی میں وزیراعظم کا انتخاب ہوگا۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل کا اتحاد برائے آزادانہ منصفانہ انتخابات کا طرز عمل کیاہوگا۔ اب تک جو اقدامات ہوئے ہیں، اس سے کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی، جس سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہو کہ مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے میں بھر پور ہم آہنگی ہے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی ایم ایم اے اور دیگر جماعتوں کا اتحاد برائے آزادانہ و منصفانہ انتخابات اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی انتشارکا شکار نظر آرہا ہے۔ ایک ٹی وی چینل کے مطابق پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان دوسری سطح کی قیادت کے درمیان کچھ معاملات طے ہو رہے ہیں۔
جب کہ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت بھی احتجاج کو بہت زیادہ آگے بڑھانے کو اس لیے تیار نہیں ہیں کہ زیادہ احتجاج کے نتیجے میں اتحاد کی کوئی ایک جماعت برسر اقتدار پارٹی کے ساتھ جا ملے گی۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خصوصاً اس صورت حال میں وفاق میں کوئی عہدہ حاصل کرکے اس اتحاد سے باہر ہو سکتے ہیں، لیکن تحریک انصاف کا ایک بڑا حلقہ پہلے مرحلے میں انھیں کوئی کردار دینے کو تیار نہیں ہے۔ خصوصا ان کے بعض حالیہ بیانات فوری طور پر انھیں قبول کرنے میں رکاوٹ ہیں۔ لہذا فی الحال مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ذریعے ایم ایم اے کو الجھائے رکھنے کی پالیسی اختیارکی گئی ہے، لیکن مولانا فضل الرحمن کے رویے نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے کئی رہنماؤں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام رفتہ رفتہ سیاسی تنہائی کی طر ف بڑھ رہی ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ان کے دباؤ بڑھانے والے طریقہ کارکو ناپسندیدہ تصور کیا جا رہا ہے۔
مسلم لیگ (ن)اس بات پر آمادہ نظر آرہی ہے کہ شہباز شریف قائد حزب اختلاف کا کردار اداکریں گے، اسپیکر کے انتخابات کے بعد کوئی نئی صورت حا ل سامنے آسکتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ مقابلے میں دونوں طرف کی تعداد ہے، جس میں بہت کم ووٹوںکا فرق ہے۔اس طرح خفیہ رائے شماری تحریک انصاف کے لیے بڑا امتحان ہوگی۔ مقابلہ پیپلز پارٹی کے امیدوار سے ہے۔ جو بلوچستان کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کوگرانے میں اپنا کردار ادا کرچکی ہے۔ مقابلے میں دلچسپ صورتحال ہوگی ایم ایم اے نے مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے کو ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کے لیے کیا پیغام لاتا ہے۔ اس کا فیصلہ ووٹوں کی گنتی کے بعد ہوگا۔