دمبورہ امن کا پیامبر ساز

دمبورہ کی تاروں کا تال میل ایک منفرد سُر پیدا کرتا ہے، یہ روحانی راگ ہے جس میں پوری دنیا میں امن کی دعا کی جاتی ہے


دمبورہ کو عام طور پر صرف ہزارگی ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دمبورہ، بلوچستان کے اکثر علاقوں میں بلوچ ثقافت کا حصہ ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

انسان کو قدیم زمانے سے اپنی ثقافت کے ساتھ ساتھ اپنی زبان میں شاعری اور اپنی روایتی موسیقی بھی پسند رہی ہے۔ انسان نے شروع سے اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کےلیے مختلف چیزیں ایجاد کیں۔ اسی طرح روح کو خوشگوار احساس دینے کےلیے موسیقی کے آلات بنائے۔ دنیا میں آج بھی سب زیادہ بلوچ قوم کو اپنی ثقافت کا امین سمجھا جاتا ہے کیونکہ بلوچ قوم نے روز اول ہی سے اپنی ثقافت سے محبت کی اور پوری دنیا کو حیران کردیا۔ بلوچ ثقافت میں موسیقی کے حوالے سے ایک اہم چیز ''دمبورہ'' ہے۔ دمبورہ، بلوچ ثقافت و موسیقی کا ایک ایسا آلہ ہے جس کی تاریخ بہت قدیم بتائی جاتی ہے۔ دمبورہ چنال اور شیشم کی لکڑیوں کو تراشنے اور مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد تیار کیا جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دمبورہ کی آواز کو سریلا اور معیاری بنانے میں لکڑی کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔

معروف بلوچی ساز دمبورہ کا اصل وطن کونسا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ دو تاروں کا یہ قدیم ساز بلوچستان میں بہت مقبول ہے۔ بلوچستان کے کاریگر اسے بڑی محنت سے تیار کرتے ہیں، جسے بیرونی ملکوں میں بھی بھیجا جاتا ہے۔



یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ لفظ ''تنبورہ'' اسم نکرہ ہے۔ تنبور، تنبورا، طنبورہ، طنبور، تمبور، تمبورہ، تنبورا، تنبورہ [(تَنْبُورَہ) {تَم + بُو + رَہ} (سنسکرت)] بھی اس سے ملتا جلتا ساز ہے جو صوبہ سندھ کی روایتی موسیقی کا اہم جزو ہے۔ البتہ تنبورا میں تین تاریں ہوتی ہیں جبکہ دمبورہ دو تاروں کی مدد سے فضا میں سُر بکھیرتا ہے۔



یہ بلوچی آلہ موسیقی کوئٹہ میں بھی بنایا جاتا ہے جسے بجانا انتہائی مشکل اور مہارت طلب کاموں میں سے ایک کام ہے۔ دمبورہ کی آواز انتہائی سریلی اور دل نشین ہوتی ہے۔

بلوچ موسیقی کا طرہ امتیاز اور منفرد ساز ہونے کے باوجود، آج تک کوئی نہیں جان پایا کہ دمبورہ کس نے اور کس زمانے میں پہلے پہل بنایا تھا۔ اس بارے میں صرف یہی کہا جاتا ہے کہ دمبورہ کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔



افسوس کی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں دمبورہ بجانے والوں کی تعداد روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔ لوگ تو اس کی سریلی آواز سننے کےلیے بے چین رہتے ہیں مگر دمبورہ بجانے والے استاد آج کل بہت کم رہ گئے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو خدشہ ہے کہ کہیں بلوچی ثقافت میں موسیقی کا یہ امتیازی آلہ اور اس سے وابستہ موسیقی، دونوں ہی بالکل معدوم نہ ہوجائیں۔

ایک بات اور: دمبورہ کو عام طور پر صرف ہزارگی ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دمبورہ، بلوچستان کے اکثر علاقوں میں بلوچ ثقافت کا حصہ ہے۔



ہماری نوجوان نسل کےلیے مشکل سازوں میں سے ایک ساز دمبورہ ہے۔ آج کل نوجوان دمبورہ بجانے کی بہت کوشش کررہے ہیں مگر انہیں وہ کامیابی اور مہارت حاصل نہیں ہورہی جو اساتذہ کا خاصّہ ہے۔ پرانے زمانے میں بلوچ شعرا نے دمبورہ کے ساتھ اپنے اشعار گا کر شہرت حاصل کی۔ اب بھی بلوچی زبان کے گلوکار اپنے گیت دمبورہ کے ساتھ، پرانی دھنوں پر گاتے رہتے ہیں۔



دمبورہ کی تاروں کا تال میل ایک منفرد سُر پیدا کرتا ہے۔ یہ روحانی راگ ہے جس میں پوری دنیا میں امن کی دعا کی جاتی ہے، کسی ایک مذہب یا فرقے کی بات نہیں کی جاتی۔ اس ساز میں محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیاجاتا ہے۔ دمبورہ کو سیکھنا مشکل ہے کیونکہ اس کےلیے پہلے خود کو فنا کرنا پڑتا ہے، خواہشات کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دمبورہ ساز بجانا ایسے ہے جیسے انسان ایک عظیم وحدانیت میں غوطہ زن ہوجائے؛ اور اس سے جو کچھ حاصل ہو، اسے ساری انسانیت میں تقسیم کردیا جائے۔

آج کل پاکستان میں کئی لوگوں کےلیے مزاروں کی مذہبی اہمیت ہے لیکن ملک کے کئی شہروں، قصبوں اور دیہات میں یہ مزار وہاں کی معیشت، سیاست اور ثقافت سے بھی منسلک ہیں۔ ان مزاروں پر دمبورہ گزشتہ تین سو سال بجایا جارہا ہے۔ اس کے سروں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی ساز و انداز بدلے ہیں۔ بلوچستان میں کسی بھی محفل سماع کا آغاز دمبورہ سے ہوتا ہے۔



برسبیلِ تذکرہ یہ بھی بتاتا چلوں کہ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے پانچ تاروں پر مشتمل ساز ''تنبورا'' ایجاد کیا تھا، اس لیے شاہ سائیں کا کلام صرف تنبورے پر گایا جاتا ہے جبکہ اس میں طبلہ، ڈھول، ہارمونیم یا اور کوئی ساز استعمال نہیں ہوتا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام 30 سروں پر مشتمل ہے جبکہ شاہ سائیں نے اپنی شاعری سے رومانوی داستانوں کو جن خواتین کرداروں کے ذریعے بیان کیا ان میں سوہنی، سسّی، ماروی اور مومل سمیت سات خواتین کو ''شاہ کی سورمیاں'' کہا جاتا ہے۔ یہ شاعری لازوال عشق، وصل کے درد اور محبوب کے حصول کی جہدوجہد پر مبنی ہے۔

آج کل دمبورہ سیاحتی پروگراموں اور میلوں میں بھی خوب بجایا جاتا ہے۔ البتہ گزشتہ دہائیوں کی نسبت سیاحتی پروگراموں اور میلوں کا رواج اور ان کا انعقاد آج کل بہت کم ہوگیا ہے۔ ایسے میں ان روایتی لوک فنکاروں کے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ دمبورہ کا مقصد موسیقی کے ذریعے امن و محبت کے پیغام کو فروغ دینا اور اس فن سے وابستہ افراد اور ان کے فن کو اجاگر کرنا ہے۔

پاکستان میں کلاسیکی، روایتی، لوک اور جدید موسیقی کے تمام ہی شعبے موجود ہیں مگر فی زمانہ چند شعبے اور ان سے وابستہ افراد بدستور زوال کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں کلاسیکی موسیقی سمیت لوک موسیقی بھی شامل ہیں۔ ایک طرف جہاں کلاسیکی موسیقی کو جو مقام دیا جانا چاہیے تھا وہ نہیں ملا، وہیں اس ملک میں دمبورہ سے وابستہ لوگوں کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ فن آہستہ آہستہ دم توڑتا جارہا ہے جسے زندہ رکھنے کےلیے حکومت وقت کو اس فن پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ فن مستقبل میں ختم نہ ہو کر قصہ پارینہ نہ بن جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔