مل کر چلیے
ہم قومی اور مشترکہ مفاد کے معاملات کو ہر طرح کے سیاسی اختلافات سے الگ اور بالاتر رکھیں گے۔
ISLAMBAD:
اس بار یوم آزادی پر عوام کی طرف سے جس غیرمعمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا ہے' وہ یقیناً خوش آیند بھی ہے اور حوصلہ افزا بھی کہ اس میں ایک خاص طرح کا فطری پن تھا جو بوجوہ ہر برس جھنڈیاں لہرانے اور روشنیاں کرنے کے کم کم دکھائی دیتا تھا اور اس خوشگوار تبدیلی کی صحیح عزت، توقیر کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کو اس Blame Game اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے علیحدہ کر کے معاشرے کے ایک اجتماعی ردعمل کا نتیجہ سمجھا جائے یعنی مقصد گزشتہ حکومت کی کردہ یا ناکردہ خرابیاں گنوانا اور آیندہ حکومت کے وعدوں کو حقائق تسلیم کر کے ''تبدیلی آ گئی ہے'' کے نعرے لگانا نہ ہو بلکہ عوام کی ان محرومیوں اور توقعات کو کھلے دل سے دیکھنا اور سمجھنا ہو جس کی خوشبو اور طاقت کے ساتھ ہم نے آیندہ کی منزلیں سر کرنی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اپنا کام صحیح طریقے سے کیا یا نہیں؟ اس کا فیصلہ آئین میں دیے گئے طریقوں سے ہونے دیجیے' عدالتیں' نیب یا نام نہاد اسٹیبلشمنٹ جو کچھ کر رہی ہیں وہ کسی ایک سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں پاکستان کے تمام عوام اس کے Stake Holders میں شامل ہیں سو ہر ایک کو انصاف اور اپیل کا برابر حق ملنا چاہیے۔ اس ضمن میں بلاشبہ جزوی اختلافات ہو سکتے ہیں اور رہیں اور ان کو ہونا بھی چاہیے کہ اختلاف اور سوال سے ہی زندگی کا پہیہ روانی اور جمال پاتا ہے لیکن ہر چھوٹی چھوٹی بات یا ذاتی مفاد کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے سے یہ سفر رکتا ہی نہیں بلکہ بے راہ بھی ہو جاتا ہے سو اس پس منظر میں 2018ء کے یوم آزادی کو ہم سب کو مل کر ایک نئے اور خوش آیند اجتماعی ترقی کے نکتہ آغاز کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اس موقعے کی برکت سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ سے اور قوم سے یہ وعدہ کرنا چاہیے کہ آیندہ سے ہم قومی اور مشترکہ مفاد کے معاملات کو ہر طرح کے سیاسی اختلافات سے الگ اور بالاتر رکھیں گے اور ایک ایسی قومی اور ریاستی پالیسی وضع کریں گے جو حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود اپنی جگہ پر قائم' مستقل اور برسرعمل رہے۔
مسلم لیگ ق کی1122 ہو یا مسلم لیگ ن کی موٹروے اور میٹرو یا تحریک انصاف کا کرپشن سے پاک پاکستان کا تصور یہ سب اصل میں پوری قوم کا سرمایا ہیں سو نہ صرف انھیں پوری قوم کی امانت سمجھیے بلکہ جس جس نے بھی ان کے لیے اچھا کام کیا ہو اس کا کریڈٹ اس کو دیجیے۔ مان لیا کہ یہ ان کا فرض تھا کوئی احسان نہیں لیکن اگر کسی اچھے کارندے کے صحیح اور بروقت کام کی تحسین بھی کر دی جائے تو یہ کوئی غلط بات نہیں' اس سے نہ صرف اس کی کارکردگی میں اضافہ ہو گا بلکہ دیکھنے والے بھی اس سے انسپائر ہوں گے کیا ہی اچھا ہو اگر نئی حکومت کے اس حلف وفاداری کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین بھی اپنے اپنے دل میں یہ حلف اٹھائیں کہ قومی اور اجتماعی ترقی کے ہر کام میں نہ صرف حکومت کا ہاتھ بٹائیں گے بلکہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیں گے کہ پاکستان ہم سب کا ہے اور ہم سب اس کے برابر کے وارث اور امین ہیں۔
مثال کے طور پر اگر تمام سیاسی جماعتیں یہ طے کر لیں کہ مندرجہ ذیل معاملات پر انھوں نے ہر صورت میں مل کر چلنا ہے اور پاکستان کی بہتری اور ترقی کو باقی ہر چیز پر فوقیت دینا ہے کہ قومی پالیسی کا یہی تسلسل اصل میں عالمی برادری میں کسی قوم کے وقار اور درجے کا تعین کرتا ہے۔
-1 معیشت
-2 قومی ترقی کے بڑے اور طویل المیعاد منصوبے
-3 خارجہ پالیسی
-4 تعلیم' صحت اور روز گار
-5 قومی سلامتی
-6 غیرمشروط انصاف
اس فہرست میں مزید اضافے بھی کیے جا سکتے ہیں لیکن اگر فی الوقت ہم انھی چھ باتوں پر متفق ہو جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ بہت سی باتیں اور مسئلے اس کی وجہ سے خود بخود حل ہونا شروع ہو جائیں گے اس کے لیے بنیادی طور پر دو باتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام کی شمولیت اور حکومت کی Political will جہاں تک عوامی شمولیت کا تعلق ہے' اس وقت اس کی سطح اور دائرہ دونوں بلند اور وسیع ہیں اگر ان سے فائدہ اٹھا کر ہم بطور قوم اور بذریعہ سرکار اپنی Political Will کو قائم' واضح اور مستحکم کر سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں عالمی برادری میں بہت جلد وہ بلند مقام نہ مل سکے جس کے ہم صحیح معنوں میں حقدار ہیں دیگر شعبوں کی طرح فنون لطیفہ اور شعر و ادب سے متعلق لوگ بھی اس فضا کو قائم رکھنے میں اپنا اپنا فرض ادا کرتے ہیں سو اس حوالے سے ایک پرانی نظم کی چند لائنیں اس سفر میں شریک کرتا ہوں کہ وطن کے لیے لکھی گئی کوئی نظم کبھی بھی پرانی نہیں ہوتی
مرے وطن مری ہستی کا منتہا تو ہے
مرے خیال کی قدرت تری جبیں تک ہے
میں مشت خاک سہی تیرے کارواں کی ہوں
مرے فلک کی بلندی تری زمیں تک ہے
میں تیری خاک کی آواز بن کے اٹھا ہوں
مری زباں میں اثر دے کہ میری موج صدا
دل و نظر میں تمنا کے پھول مہکائے
مری صدا مرے اہل وطن کی بن جائے
میں سیل شوق کا آغاز بن کے اٹھا ہوں
مرے وطن میں تری خواہشوں کا سایا ہوں
میں ایک شاعر گمنام ہوں مرے بس میں
میرا وجود تھا سو آج لے کے آیا ہوں
مرے لہو کی سلامی قبول کر لینا
یہ جنس خام سہی' رزق ہائے باد سہی
مگر یہ دیکھ کہ کس آرزو سے لایا ہوں