ایک گزارش
نئی حکومت جوملک کواچھی حکمرانی اور کرپشن سے پاک انتظامی ڈھانچے کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے۔
الیکشن ہوگئے، مگر ان کی بازگشت ابھی تک باقی ہے اور شایدکچھ عرصہ رہے گی ۔ اس کی وجہ ملک میں گزشتہ 48 برس سے جاری کمزور انتخابی نظام ہے، جس کو بہتر بنانے اور جدید خطوط پر استوارکرنے کی اس دوران کسی نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ یہ ایک اہم موضوع ہے، جو ایک مکمل اظہاریے کا متقاضی ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کامیاب ہونے والی جماعت آزاد امیدواروں کواپنے دامن میں سمیٹنے، حلیفوں کی مدد سے حکومت سازی کے عمل میں مصروف ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن حکومت کو مشکل وقت (Tough Time)دینے کے لیے نئی صف بندیاں کررہی ہے، گوکہ یہ صحت مند جمہوری سرگرمیاں ہیں، لیکن متوشش شہریوں کی خواہش ہے کہ قائم ہونے والی نئی پارلیمان ایسی قانون سازیاں اور اقدامات کرے، جن کے نتیجے میں جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کو استحکام حاصل ہونے کے ساتھ عوام کے مسائل کے حل میں بھی پیش رفت ہوسکے۔
نئی حکومت جوملک کواچھی حکمرانی اور کرپشن سے پاک انتظامی ڈھانچے کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے، اسے کئی بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان چیلنجوں کی ترجیحی فہرست بنانے اور یکے بعد دیگرے ان سے نمٹنے کے لیے وفاق اور صوبوں میں اہل ، فعال اور مستعد وزارتی ٹیم اور معاونت کے لیے پیشہ ورانہ اہلیت واستعداد کی حامل بیوروکریسی کاانتخاب کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میںگزشتہ دنوں سینئر صحافی اور پیرانہ سالی کے باوجود حقوق انسانی کے سرگرم محرک آئی اے رحمان کا ایک مضمون بعنوان Good Governance Requisites یعنی اچھی حکمرانی کی ضروریات شایع ہواہے۔اس مضمون میں فاضل مصنف نے حکومت کو جوچند مفید مشورے دیے ہیں۔ یہاں ہم ان کے مضمون سے استفادہ کرتے ہوئے،اپنی بات قارئین تک پہنچاناچاہیئیں گے۔
آئی اے رحمان لکھتے ہیں کہ '' اس وقت اکثریت حاصل کرنے والی جماعت اہم اور کلیدی ریاستی عہدوں کے لیے وزراء اور بیوروکریٹس کے انتخاب (selection) میں مصروف ہے۔ کسی جماعت کی جانب سے منتخب کردہ ٹیم کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اچھی حکمرانی کے لیے درکار فعال اور مستعد انتظامی ڈھانچہ کس حد تک تشکیل پایا ہے اور اگلے پانچ برس حکومت کے طورطریقے کیا ہوںگے۔ مستحکم پارلیمانی جمہوریتوں میں ایسے اراکین (Legislators)کو وزارتوں کی ذمے داری سونپی جاتی ہے، جو اس وزارت کے بارے میںمعلومات، مہارت اور دلچسپی رکھتے ہیں ۔جنہوں نے سابقہ ادوارمیں بطور رکن اسمبلی اپنے مخصوص شعبے کے معاملات کو باریک بینی سے سمجھنے کی کوششوں کے ساتھ اپنے علم، تجربہ اور استعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہو۔''
وہ مزید لکھتے ہیں کہ '' وطن عزیزکا المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اراکین اسمبلی کی دلچسپی کے مخصوص شعبہ جات میں ان کیGrooming پر بہت کم توجہ دیتی ہیں۔ اس کے برعکس ان اراکین کو وزارتیں بخشی جاتی ہیں، جو وزیر اعظم (یاپارٹی سربراہ) کے منظور نظر ہوں یا ان کا پارٹی کے اندر مضبوط گروپ ہو۔ اس لیے وزارتوں کی تقسیم کے وقت اراکین کی اہلیت اور استعدادی صلاحیت سے زیادہ اس کے سیاسی قد وکاٹھ اور وفاداری کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔''
یہی کچھ طریقہ کار بیوروکریسی کے اہلکاروں اور انتظامیہ کے کلیدی عہدوں پرفائزکیے جانے والے ذمے داروں کی تقرری میں کیا جاتا ہے۔ یعنی میرٹ، سینیارٹی اور اہلیت کو بالائے طاق رکھ کر من پسند جونیرافسران کو مختلف اہم اور کلیدی عہدوں پر تعینات کرنے کا سلسلہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ملک میں رائج ہے۔ فوجی آمریتوں نے ریٹائرڈ فوجی افسران کو کلیدی عہدوں پر فائز کرکے اس عمل کو مزید تقویت دی۔ جنرل ضیا کے دور سے من پسند افسران اور اہلکاروں کی تقرری کاسلسلہ نچلی سطح پر SHO اور پٹواری تک پہنچ گیا۔ جس کے نتیجے میں بیوروکریسی خود کوریاست کا ملازم اوروفادار (Loyal) سمجھنے کے بجائے حکومتوں کے وفادار بننے کو ترجیح دینے لگی ۔ اس صورتحال کے منفی اثرات کے باعث نظم حکمرانی بری طرح متاثر ہوا۔جس نے مختلف النوع برائیوں کو جنم دیا۔
پارلیمانی جمہوریت میںبیوروکریسی ریاستی انتظام میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ بیوروکریسی کا تقررمستقل بنیادوں پر ہوتا ہے۔ یہ ریاست کے خدمت گار یعنی Servants of the state کہلاتے ہیں۔ بیوروکریسی منتخب حکومتوں کی بطور نائب یا معاون ومددگار معاونت کرتی ہے، مگر اس کی وفاداریاں ریاست (State) کے ساتھ ہوتی ہیں۔چنانچہ پارلیمانی جمہوریتوں میں بیوروکریسی ایسے احکامات کی تعمیل سے گریز یا انکار کرتی ہے، جو ریاستی آئین سے متصادم ہوں۔
برٹش انڈیا میں 1858میں ایسٹ انڈیا کی حکومت کے خاتمے کے بعد امپیریل سول سروس کی بنیاد رکھی گئی۔ جسے بعد میں انڈین سول سروس (ICS)کا نام دیاگیا۔ اس سروس کے لیے 21 سے 24برس کے گریجویٹ نوجوانوں کا کڑے امتحان کے بعد میرٹ پر انتخاب کیا جاتا تھا ۔ جنھیں نوآبادیاتی نظام کو چلانے کے لیے خصوصی انتظامی تربیت دی جاتی تھی۔یوں برطانیہ نے انھی مقامی افسران اور اہلکاروں کے ذریعے برصغیر پر 1858 سے1947 تک باآسانی حکمرانی کی۔
تقسیم ہند کے بعد بھارت میں سینئر کانگریسی رہنما ولبھ بھائی پٹیل کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے بیوروکریسی میںاصلاحات کا پیکیج پیش کیا۔ اس کے مطابق نوجوانوں کے انتخاب کے برطانوی طریقہ کارکو توبرقرار رکھا گیا۔ لیکن ان کے تربیتی ماڈیولز (Modules)کو مکمل طورپر تبدیل کردیاگیا، تاکہ بیوروکریسی نوآبادیاتی طرز حکمرانی کے بجائے قومی حکومت کی معاون ومددگار بن سکے۔ یوں بھارت میں 1951کے بعد سے ایک ایسی تربیت یافتہ بیوروکریسی ریاستی انتظامی ڈھانچے کا حصہ بنی، جو اپنے ذہن، سرشت اور کارکردگی میں مکمل طور پر قومی امنگوں کی آئینہ دار ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں بنگلہ دیش کی آزادی تک بیوروکریسی کے انتخاب اور تربیتی ماڈیولزکو نوآبادیاتی رہنے دیا گیا۔ 1972میں سابقہ ڈھانچے کو تحلیل تو ضرور کیا گیا، لیکن اس کی جگہ اول تو کوئی مربوط بیوروکریٹک ڈھانچہ تشکیل نہیں دیاگیا ۔ دوسرے بیوروکریسی کو ریاست کے بجائے حکومت کا مطیع و تابعدار بنانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے علاوہ دو دیگر خرابیاں جو اس نظام کی کارکردگی کومزید متاثر کرنے کا سبب بنیں ۔ان میں پہلی خرابی یہ ہوئی کہ نوجوانوں کے انتخاب کے عمل کو میرٹ کے بجائے کوٹا سسٹم میں تبدیل کر دیا گیا ۔ جس کے نتیجے میںکمتر علمی استعداد کے نوجوان اس اہم اورکلیدی نظام کا حصہ بنے ۔
دوسرے تربیتی ماڈیولز (Modules) کو قومی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں مناسب تبدیلیاں نہیں کی گئیں ۔ جس کی وجہ سے مختلف محکموں اور شعبہ جات کے افسران اور اہلکاروںکا طرز عمل قومی اور عوام دوست ہونے کے بجائے نوآبادیاتی آقائوں جیسا ہی رہا ۔ پھر ہر حکومت نے مختلف شعبہ جات کی سربراہی کے لیے میرٹ، سینئرٹی اور اہلیت کو پس پشت ڈال کراپنے پسندیدہ افراد کی ہر سطح پر تقرری کرکے سینئر اور دیانت دارافسران اور اہلکاروںمیں بددلی پیداکی۔ پاکستان میں بدعنوانیوں کے جومظاہر ریاست کی مختلف سطحوں پر نظرآتے ہیں، اس کا سبب نااہل اور پیشہ ورانہ کم استعداد کے حامل بیوروکریٹس کا اہم شعبہ جات پر مسلط کیا جانا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ تحریک انصاف جو حکمرانی میں شفافیت اور ہر قسم کی کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے بلند آہنگ دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے، سب سے پہلے وفاق اور اپنی اکثریت کے صوبوں میں وزرا کی ٹیم کے انتخاب اور بیوروکریسی کے تقرر میں میرٹ، اہلیت اور پیشہ ورانہ استعداد کو اہمیت دے گی۔ وزارت خارجہ، داخلہ، خزانہ اور تجارت ومواصلات کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے سربراہوں کی تقرری اور تعیناتی میں بالخصوص اور دیگر شعبہ جات کے سربراہوں کی تقرری میں بالعموم میرٹ اور پیشہ ورانہ استعداد کو مدنظر رکھے گی۔ اس عمل ہی سے اندازہ ہوسکے گا کہ حکومت اپنی قبل ازانتخاب وعدوں کی تکمیل میں کس حد تک سنجیدہ ہے اور ان پرکس رفتار اور انداز سے عمل پیرا ہے ۔