احتساب عمران خان کا امتحان

عمران خان نے کہا تھا’’احتساب مجھ سے شروع ہوگا‘‘ اور پھر یہ سلسلہ کابینہ کے ارکان تک جائے گا۔


اکرام سہگل August 18, 2018

جمہوریت میں منتخب حکومت اور نمایندے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں گورننس کے بڑھتے ہوئے بحران کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ بدعنوان حکمرانوں نے اچھی طرز حکومت کے دو بنیادی ستونوں، قانون اور احتساب، کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔بڑھتی ہوئی کرپشن، انسانی ترقی میں جمود اور بڑھتی ہوئی غربت اسی کا نتیجہ ہیں۔

1999میں قومی احتساب بیورو(نیب) ''جامع انداز میں انسداد، آگاہی، نگرانی اور مقابلے کے ذریعے بدعنوانی کے خاتمے'' کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ ریکارڈ تعداد میں بدعنوان سیاست دان اور سرکاری ملازمیں نیب کی گرفت میں آئے لیکن سیاسی مداخلت اور نوکر شاہی آڑے آئی۔ جسٹس(ر) جاوید اقبال کی چیئرمین نیب کے عہدے پر تقرری تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا اور اس ادارے کے وجود میں اپنے قیام کے پہلے برس جیسی توانائی دوڑنے لگی۔ نیب حکام کو جیسے ہی مؤثر احتساب کی آزادی ملی انھوں نے سیاست دانوں، سرکاری ملازمین اور سابق فوجی افسران کی کرپشن کی تحقیقات کو قابل ذکر انداز میں آگے بڑھایا۔ ڈھائی ارب روپے کی اطلاعات ہیں اور گنتی ابھی جاری ہے۔

عمران خان نے کہا تھا''احتساب مجھ سے شروع ہوگا'' اور پھر یہ سلسلہ کابینہ کے ارکان تک جائے گا۔ اگرچہ بعض افراد معاشی یا سیاسی اعتبار سے عمران خان کے لیے ذاتی یا سیاسی طور پر اہم ہوسکتے ہیں، لیکن کرپشن سے داغ دار کسی شخص کو اگر کوئی عہدہ دیا گیا تو رائے عامہ اسے ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔ عمران کی کامیابی اسی میں ہے کہ جن باتوں کا وہ پرچار کرتے رہے ہیں ۔

ان پر عمل کرکے دکھائیں۔ریاست کے طاقتورادارے اپنے اندرونی احتساب کو عوام کے سامنے لاکر مثال قائم کرسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بدعنوانی کے خلاف مہم کا حصہ بننے کے لیے دیگر اداروںکی حوصلہ افزائی ہوگی۔عدلیہ میں اس کے لیے درکار صلاحیتیں پہلے ہی موجود ہیں، وائٹ کالر جرائم کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے جج کی سربراہی میں سپریم اور ہائی کورٹ کے لیے الگ الگ ''داخلی امور کا شعبہ'' قائم ہونا چاہیے، جسے بالخصوص نچلی عدالتوں میں انسداد بدعنوانی کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا اختیار بھی حاصل ہو۔

عدلیہ کی آزادی کو محفوظ رکھتے ہوئے مختلف تحقیقاتی اداروں کے ساتھ تعاون کی صورت بنائی جاسکتی ہے اور ایسے مقدمات کو ترجیح دینی چاہیے جن کے شواہد بالکل واضح ہو چکے ہوں۔ہر برس دنیا کے بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں ہمارا نام شامل ہونا باعث شرم ہے۔ اس میں ہمارے درجے میں معمولی سی بہتری ہمارے ہاں کرپشن میںکمی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ دوسرے ممالک میں کرپشن میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے۔ کرپشن سیاسی نظام میں سرائیت کرچکی ہے اور بیورو کریسی کے رگوں میں دوڑ رہی ہے، عدلیہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔ ہمارے ہاں من چاہا احتساب ہوتا ہے، اور اسے سیاسی یا معاشی مخالفین کو چت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس لیے بلا امتیاز احتساب محض خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔

وکی پیڈیا کے مطابق پاکستان کے امیر ترین افراد کی دولت اربوں ڈالر بتائی جاتی ہے۔ ٹیکس کی ادائی کیے بغیر یہ دولت کے ڈھیر کہاں سے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ 2013میں وفاقی محتسب نے ایک امیر آدمی سے 119 ارب روپے ٹیکس کی مد میں وصول کرنے کے احکامات جاری کیے جن پر صدر آصف زرداری نے عمل نہیں ہونے دیا تھا۔ آئین و قانون میں کوئی تو ایسا سقم ہوگا کہ دوسروں کو ''معاف'' کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔

کراچی کے دو کروڑ شہریوں کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور وہ روزمرہ استعمال کے لیے پانی کے ٹینکروں کے لیے یا علاقائی سطح پر نصب نلکوں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں بنائے کھڑے ہیں۔ بعض طاقتور افراد جن طریقوںسے ویران زمینوںکے بدلے قیمتی اراضی خریدتے ہیں یہ قصے کرپشن کا ''نصاب'' قرار دیے جاسکتے ہیں۔ کیا اس کھلی کرپشن پر قانون اندھا، گونگا اور بہرا ہوگیا ہے؟

پاکستان میں جاری تحقیقات، تفتیش، مقدمے اور قانونی کارروائیاں دجل و فریب کی نذر ہوجاتی ہیں۔ روز جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں، کیوں اس کا ارتکاب کرنے والوں کو کٹہرے میں نہیں لایا جاتا؟ تمام ہی منتخب نمایندے سمجھتے ہیں کہ وہ صرف اپنی مدت پوری ہونے کے بعد ووٹر کو جواب دہ ہیں۔ یاد کیجیے نواز شریف سپریم کورٹ سے برطرفی کے بعد یہی کہا کرتے تھے کہ وہ صرف عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ حقیقی معنوں میں آزاد اور بااختیار اداروں کو سیاسی مداخلت کے بغیر کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ نیب، وفاق و صوبوں کے انسداد بدعنوانی کے اداروں کے داخلی ڈھانچے میں اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں۔ مزید برآں یکساں احتساب کا نظام تشکیل دیا جائے تاکہ ٹی وی پر بیٹھ کر اہم ریاستی اداروں کے خلاف زبان درازی کرنے والوں کے منہ بھی بند ہوں۔

نومنتخب حکومت کو سیاسی مفاد اور مداخلت سے پاک آزادانہ احتساب کا نظام تشکیل دینے کا موقع ملا ہے۔ اگر ان کے قریبی ساتھیوں نے دیانت داری سے میرٹ پر فیصلوں کے نفاذ میں مدد کی تو عمران خان جیسا دیانت دار اور صاحبِ بصیرت لیڈر ملائیشیا کے مہاتیر محمد یا سنگا پور کے لی کون یو کی طرز پر اصلاحات کرکے احتساب کے معیار کو بلند تر بنا سکتا ہے۔ عوام کو اپنے خوابوں کی تعبیر کی امید بندھی ہے، اس لیے عمران اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ ان کے قریبی حلقے میں داغ دار دامن رکھنے والے لوگ شامل ہو سکتے ہوں۔ عمران خان اپنے احتساب پر کوئی سمجھوتا کریں گے تو ان کی گورننس اور پاکستان پر اس کا براہ راست اثر ہوگا۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں