این اے 250الیکشن کمیشن نے کس کا فیصلہ مانا

انتخابی عمل میں پراسرار تاخیر کے بعد مخصوص جگہوں پر انتخاب بھی معما


Rizwan Tahir Mubeen May 21, 2013
انتخابی سامان پہنچانا آر او اور ڈی آر او کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن اس ساری بد انتظامی کا الزام ہم پر لگا دیا گیا، واسع جلیل فوٹو : فائل

قومی اسمبلی کے حلقے 250 میں صرف 43 پولنگ اسٹیشن میں پولنگ کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ کے بائیکاٹ کے بعد یہ نشست بہ آسانی تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کے حصے میں آگئی۔

متحدہ کی جانب سے حلقہ 250 میں مخصوص جگہوں پر دوبارہ پولنگ کے خلاف الیکشن کمیشن کے باہر دھرنا بھی دیا گیا اورپورے حلقے میں ہی دوبارہ انتخاب کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن میں اس حوالے سے ایک درخواست بھی دائر کی گئی اور دھرنا ختم کر دیا گیا، لیکن 15مئی کو جب متحدہ کی درخواست مسترد کر کے سابقہ فیصلہ برقرار رکھا گیا تو متحدہ نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس انتخابی عمل کا بائیکاٹ کر دیا۔

الیکشن کمیشن میں حلقہ250 کے حوالے سے درخواست کی سماعت کے موقع پر متحدہ کے ساتھ تحریک انصاف کا موقف بھی سنا گیا، لیکن فیصلہ مجموعی طور پر کسی بھی فریق کے حق میں نہیں آیا، کیوں کہ تحریک انصاف تو پورے شہر میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ان 43 پولنگ اسٹیشن میں حق رائے دہی کا تناسب صفر تھا اور دیگر پولنگ اسٹیشن پر حق رائے دہی کے کم تناسب پر پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ نہیں کرائی جاسکتی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جن 43 پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ پولنگ کرائی گئی اس میں انتخابی عمل میں تاخیر سے قطع نظر تمام اسٹیشنوں پر ووٹنگ کا تناسب صفر ہونے کا دعوا درست نہیں۔

ان پولنگ اسٹیشن پر بہت سی جگہوں پر 11 اور بہت سی جگہوں پر تین چار بجے تک پولنگ شروع ہو چکی تھی جو الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق رات 8 بجے تک جاری رہی تھی۔ اس لیے یہ سوال خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صفر حق رائے دہی کی بنیاد پر مخصوص جگہوں پر دوبارہ انتخاب کے لیے کس کا فیصلہ مانا؟ متحدہ اس فیصلے پر ناراض جب کہ تحریک انصاف بھی خوش نہیں، البتہ اس نے متحدہ کی طرح سخت ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا اور انتخابی عمل کا حصہ بننے کا اعلان کیا، جب کہ متحدہ کے بعد پیپلزپارٹی نے بھی ان محدود جگہوں پر انتخابی عمل سے باہر رہنے کا اعلان کیا، جس پر عارف علوی کا کہنا تھا کہ کسی کے بائیکاٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

دوسری طرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف متحدہ کے رہنما واسع جلیل نے کہا کہ انتخابی سامان پہنچانا آر او اور ڈی آر او کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن اس ساری بد انتظامی کا الزام ہم پر لگا دیا گیا۔ آخر اس تاخیرکا ذمہ دار کون تھا؟ اور کیا یہ درست ہے کہ بد انتظامی ہو تو وہ امیدوار خود انتخابی سامان گاڑی میںڈال کر پولنگ اسٹیشن لے آئے؟کسی بھی امیدوار کا یہ عمل شکوک وشبہات پیدا کرتا ہے۔ واسع جلیل نے الزام لگایا کہ تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی نے پولنگ اسٹیشن پر موجود عوام سے خطاب بھی کر ڈالا۔ جہاں سو میٹر کے اندر سیاسی بیج یا جھنڈے لے جانے پر پابندی ہو وہاں تحریک انصاف کے پرچم موجود تھے، لیکن الیکشن کمیشن نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔

تحریک انصاف کی جانب سے کراچی میں مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف روزانہ شہر کے مختلف علاقوں میں دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ساتھ ہی تحریک انصاف کی سینئر رہنما زہرہ شاہد کے قتل کے خلاف احتجاج کا رنگ بھی در آیاہے۔ اس قتل کا الزام عمران خان نے براہ راست الطاف حسین پر عاید کیا ہے۔ انتخابات کے بعد سے پیدا ہونے والے حالات کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ شہر پھر 12مئی2007ء والے منظر نامے میں پہنچ گیا ہے، بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ خطرناک صورت حال ہے۔

متحدہ کی جانب سے بھی عمران خان کے الزامات کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے اور بارہ مئی کے بعد خدا خدا کر کے جو صورت حال اور بیان بازی کی صورت حال تبدیل ہوئی تھی، ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی کی سیاسی صورت حال نہایت تحمل اور شائستگی کا تقاضا کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اپنے موقف کو کسی بھی اشتعال انگیزی کے بغیر پیش کیا جائے تاکہ عوام کو پتا چلے کہ یہ واقعی ان ہی کی نمائندگی اور حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بہ صورت دیگر اگر شہر کو پھر 7 برس پرانے ماحول میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی تو اب کے تقسیم کا یہ عمل پہلے سے بھی بھیانک ثابت ہو سکتا ہے۔

پیپلزپارٹی اور اے این پی کی جانب سے اگرچہ تحفظات ظاہر کیے جارہے ہیں لیکن انہوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا ہے، جب کہ تحریک انصاف کی طرح جماعت اسلامی بھی مسلسل احتجاج کی راہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ساتھ ہی صوبے میں حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ متوقع صوبائی حکومت کے سلسلے میں ٹھٹھہ کی اہم سیاسی قوت ملکانی برادری نے سابق وزیراعلا سندھ قائم علی شاہ سے ملاقات کے بعد پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو ٹھٹھہ کی شیرازی برادری نواز لیگ سے جا ملی۔ ملکانی برادری پیپلزپارٹی میں صوبائی حکومت میں حصہ دار بنے گی تو شیرازیوں کو مرکز میں جگہ ملے گی، کیوں کہ متوقع وزیراعظم نواز شریف یہ اعلان کرچکے ہیں کہ سندھ میں پیپلزپارٹی اور متحدہ حکومت بنائیں۔

ان کے اس بیان سے اس طرح کی قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوگیا ہے، جو سندھ میں مرکز کی مداخلت سے حکومت بنائے جانے سے متعلق کی جا رہی تھیں۔ ساتھ ہی نوازشریف کی جانب سے آنے والی حکومت کو تنبیہ بھی کی گئی کہ وہ فوری طور پر امن وامان کے حوالے سے کارروائی کرے اور اس ضمن میں وہ بھر پور تعاون کریں گے، لیکن شہر میں اب لاشیں گرنا برداشت نہیں کیا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں شہر قائد میں اس تمام صورت حال میں امن وامان سے لے کر حکومت سازی تک کیا صورت حال رہتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں