خورشید شاہ اور اسلام الدین شیخ کی تکرار جاری

انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج میں تشدد کا رنگ در آیا


Parvez Khan May 21, 2013
نواز شریف کی حکومت آنے سے قبل ہی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا تحفہ قوم کو دیا گیا ہے،خورشید شاہ فوٹو : فائل

عام انتخابات کے نتائج کے بعد سکھر سمیت سندھ کے بیش تر علاقوں میں جیتنے والی جماعتوں کی جانب سے جشن، ناکامی سے دوچار ہونے والی سیاسی، مذہبی جماعتوں کے نمائندے اور آزاد امیدوار مبینہ دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔

متحدہ میں مقامی افراد کی شمولیت کے باعث سکھر سمیت بالائی سندھ کے دیہی علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کی گرفت تیزی سے مضبوط ہو رہی ہے اور آنے والے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کے یوسی ناظمین، نائب ناظمین، کونسلرز کی بڑی تعداد سامنے آنے کی امید ہو چلی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے حلقہ پی ایس1پر محمد سلیم بندھانی کی بھاری اکثریت سے کام یابی اور حلقہ این اے 198پر نام زَد امیدوار منور چوہان کی جانب سے پہلی مرتبہ 28ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے جانے پر متحدہ کے حلقوں میں جشن کا سماں ہے۔

منتخب رکن سندھ اسمبلی و دیگر ذمہ داران شہریوں اور تاجروں سے ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ پاکستان سنی تحریک کی جانب سے سکھر، روہڑی، پنوعاقل، صالح پٹ، خیرپور، شکارپور و دیگر علاقوں میں ایک طویل عرصے سے منظم انداز سے تنظیم کو مضبوط کیے جانے والے کام کو سنی تحریک کی جانب سے حلقہ این اے 198 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار نعمان اسلام شیخ کی مکمل حمایت سے کارکنوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اس کے ذمہ داران، پیپلزپارٹی سے اتحاد کے حوالے سے صفائیاں دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں، گو کہ عام انتخابات کو گزرے دو ہفتے ہو چکے ہیں مگر سندھ میںمتوقع ووٹ اور نتائج حاصل نہ کرنے والی 10جماعتی اتحاد میں شامل مختلف سیاسی، قوم پرست جماعتیں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نظر آرہی ہیں۔

عام انتخابات سے قبل 10جماعتی اتحاد خصوصاً فنکشنل لیگ، جمعیت علمائے اسلام کی سرگرمیوں اور منعقدہ جلسوں میں ووٹرز کے جم غفیر کو دیکھ کر عام شہریوں نے یہ امید باندھ لی تھیں کہ عام انتخابات کے بعد سندھ میں سیاست کا محور 10جماعتی اتحاد ہوگا۔ تاہم ایسا نہ ہو سکا۔ بلدیاتی انتخابات سے قبل لوگوں میں ایک مرتبہ پھر اپنی موجودگی ظاہر کرنے، سندھ اور وفاق میں نمایاں وزارتوں کے حصول کے لیے ایک مرتبہ پھر 10 جماعتی اتحاد میں شامل بعض جماعتو ں کی جانب سے دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

گفت و شنید سے معاملات حل نہ ہونے پر شروع ہونے والی دھرنوں کی سیاست میں تشدد کا عنصر بھی غالب آچکا ہے۔ پہلا مظاہرہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے مشتعل کارکنوں اور پیپلزپارٹی کے بعض اراکین کے درمیان ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج آفس کے نزدیک ہونے والی تکرار اور ف لیگ کی جانب سے یوم سوگ کے موقع پر تحصیل کنب میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے 3 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور حالات مزید کشیدہ ہوگئے۔ دوسری طرف مختلف امیدواروں کی جانب سے نئے نظام میں جگہ پانے کے لیے جستجو جاری ہے ۔

سابق حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کے سینیٹر اسلام الدین شیخ اور سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ مرکزی قیادت کے سامنے بھرپور لابنگ میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سینیٹر اسلام الدین شیخ کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس اور اس میں سابق وفاقی وزیر پر لگائے جانے والے الزامات کے بعد خورشید احمد شاہ کے ہم درد بھی الزام تراشیوں میں پیش پیش ہیں اور وہ اسلام الدین شیخ سمیت ان کے کیمپ میں شامل لوگوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔

خورشید احمد شاہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اسلام الدین شیخ سے اختلافات کے حوالے سے پوچھے جانے والے جواب سے انہوں نے کسی بھی قسم کا جواب دینے سے گریز کیا، تاہم انہوں نے اب سابقہ دور میں کیے جانے والے اقدام کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی حکومت آنے سے قبل ہی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا تحفہ قوم کو دیا گیا ہے، لوگ 6 ماہ بعد پیپلزپارٹی کی حکومت کو یاد کریں گے۔ انہوں نے طالبان نواز جماعتوں کو کام یابیاں دلانے کا الزام بھی عاید کیا اور کہا پیپلزپارٹی پاکستان کے 70 فیصد لبرل عوام کی نمائندہ جماعت ہے۔ تاریخ میں پہلی بار تھرپارکر میں بھی پیپلزپارٹی کو کام یابی ملی ہے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے استحکام کی خاطر پیپلزپارٹی نے انتخابی نتائج کو قبول کیا ہے، پیپلزپارٹی جمہوریت کو بچانے کے لیے ہر قسم کے اقدام کرے گی۔

جو بلدیاتی نظام پی پی حکومت نے سندھ میں دیا تھا وہی قائم رہے گا، پرانے بلدیاتی نظام کے تحت تین ماہ میں الیکشن کرانے کی کوشش کی گئی، لیکن مخالفت کی وجہ سے عمل نہیں کیا جا سکا۔ وفاق میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی مصروفیات میں نمایاں کمی ہونے کے بعد سینیٹر اسلام الدین شیخ، سید خورشید احمد شاہ کا اب زیادہ تر وقت اپنے علاقوں میں گزر رہا ہے۔ نجی محفلوں میں پیپلزپارٹی کے کام یاب امیدوار اپنے ہم دردوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے پانچ سال میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے اور انشاء اللہ سندھ میں بننے والی حکومت کے بعد ایک مرتبہ پھر سندھ کے تیسرے بڑے شہر کے باسیوں کو بنیادی سہولیات مہیا کرنے میں اپنا کردار جاری رکھیں گے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وفاق اور صوبے میں حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، تاہم سندھ میں آنے والے انتخابی نتائج سے یہ بات عیاں ہے کہ آیندہ چند ماہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل مختلف اضلاع میں اپنا کنٹرول برقرار رکھیں گی اور اس حوالے سے 2013ء کے نتائج کو سامنے رکھ کر بعض تنظیموں نے کام کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ آنے والے بلدیاتی انتخابات یہ ثابت کریں گے، کہ کونسی جماعت نے خامیوں سے اپنی اصلاح کی اور اپنے رہنماؤں، قائدین، اکابرین کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر لوگوں کے مسائل حل کیے۔ n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں