عمران خان مولا جٹ نہیں
پاکستان کی تاریخ کے انوکھے اور منفرد انتخابات کا آخری مر حلہ اختتا م پذیر ہو رہا ہے۔ ہارنے والو ں کےسا تھ ساتھ...
صرف ایک لفظ کیا کیا کرشمے دکھا سکتا ہے، اس کا غلط استعمال جیت کو ہار میں بدل دیتا ہے، 'اوئے' کا طر ز تخاطب پنجا ب میں تحر یک انصاف کی بڑھتی ہو ئی مقبولیت کو کھا گیا، محض ایک لفظ اور معمولی سی بے احتیاطی نے حالا ت کا پا نسا پلٹ کر رکھ دیا۔ تحریک انصاف کے ماہرین ابلاغیات اور پنجاب کی دھرتی سے جڑے ہوئے بلند پایہ اخلاقی معیارات کو نہ سمجھ سکے جن میں بزرگوں اور ہم جولیوں سے ادب اور محبت کا درس دیا گیا ہے، ایک معمولی سی بے احتیاطی انتخابی مہم کی سنگین غلطی بن گئی جس نے مکمل اقتدار کی منزل کو عمران خان سے مزید 5 سال دور کر دیا۔ ان ماہرین ابلاغیات نے عمران خان کو 'سیاست کا مولاجٹ' بنانے کی ناکام کوشش کی۔
پاکستان کی تاریخ کے انوکھے اور منفرد انتخابات کا آخری مر حلہ اختتا م پذیر ہو رہا ہے۔ ہارنے والو ں کے سا تھ ساتھ جیتنے والے بھی اپنا منہ بسور رہے ہیں۔ کراچی میں این اے 250 میں تحریک انصاف کے ڈاکڑ عارف علو ی کی کامیابی کو اس شہر نگاراں کے لیے مژدۂ جانفزا قرار دیا جا رہا ہے۔
شا ید یہ پہلا الیکشن تھا جس میں ملک گیر جماعتوں نے جلسے اور جلوسوں کے سا تھ سا تھ جدید ٹیکنالوجی اور صوت و آہنگ کا سہارا بھی لیا۔ الیکڑانک انتخابی مہم میں موسیقی، ساز و آواز، غرض کہ کیاکچھ نہیں تھا۔ تحریک انصاف کی انتخابی مہم کارپوریٹ شہ دما غوں نے بڑی باریک بینی سے تشکیل دی تھی جس کی اثر پذیری سب سے زیا دہ تھی۔ اس انتخابی مہم میں جنا ب عمر ان خان کو جیتی جاگتی پراڈکٹ کے طو ر پر لانچ کیا گیا تھا۔
(ن) لیگ کی انتخابی مہم کو دیسی انداز میں بنایا گیا تھا جس کے اشتہارات میں بالخصوص ما ضی کی کا میابیوں کو نمایاں کیا گیا تھا۔ جہا ں تک سا بق حکمران پیپلز پا رٹی کا تعلق ہے، انھوں نے پرنٹ میڈیا میں سنگ دشنا م کا سہارا لیا جب کہ الیکڑانک میڈیا میں نوحہ خوانی اور بھٹو خاندان کی قر بانیو ں کو نما یا ں کرنے کی کوشش کی گئی۔ سب سے دلچسپ معاملہ تو جماعت اسلامی کو درپیش ہوا۔ انہو ں نے کر اچی میں دیوقامت ہورڈنگز پر خواتین کی حجا ب والی پرکشش تصاویر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ صرف ایم کیو ایم نے آخر ی ہفتے میں سادہ سا اشتہار چلا کر گزرا کیا کہ انھیں معلو م تھا کہ کر اچی میں ان کے مقابل ووٹ تو لیے جا سکتے ہیں لیکن کوئی جیت نہیں سکتا۔
تحریک انصاف پنجا ب میں 'شیر' کے سا منے نہ ٹھہر سکی۔ امید کی جا رہی تھی کہ لاہور کے اتنخابی معرکے میں تحریک انصاف خا طر خواہ نتا ئج حا صل کرے گی لیکن یہ سب نہ ہو سکا، قومی اسمبلی کی ایک اور پنجاب اسمبلی کی تین نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا، تحریک انصاف کی انتخابی ناکامی کا بنیادی سبب پارٹی انتخاب بھی بنا جس میں مقامی قائدین فرینڈلی میچ کھیلنے کے بجائے متحارب فوجوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہو گئے۔
خا ص طور پر لاہور میں علیم خان نے پارٹی انتخاب میں دولت کا سہارا بھی لیا۔ جذبات کی حدت اس حد تک بڑھ گئی کہ معاملہ مار کٹائی تک جا پہنچا، پرچے درج ہوئے اور میاں محمود الرشید کے گروپ کو پسپا کر دیا گیا۔ بردارم رشید بھٹی اگرچہ لاہور شہر میں پارٹی کے سیکریٹری جنر ل منتخب ہو گئے تھے لیکن انھیں لاہو ر میں ہو نے والے دوسر ے تا ریخ ساز جلسے میں اسٹیج پر ہی نہ آنے دیا گیا اور بعد ازاں انھیں ٹکٹ دینے کی زحمت بھی گوارا نہ کی گئی جب کہ لاہور کی انتخابی ٹکٹو ں میں آخری وقت تک ردوبدل ہوتا رہا۔ این اے 126 کا ٹکٹ آخر ی لمحوں میں میا ں محمود الرشید سے واپس لے کر شفقت محمود کو دے دیا گیا۔ تحر یک انصاف پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری کا ٹکٹ بھی کسی اور کو دے دیا گیا۔ ایسے ماحو ل میں جم کر انتخابی معرکا کیا ہو سکتا تھا؟
گر چہ عام نو جوانو ں میں عمر ان خان مقبولیت کی بلندیو ں پر تھے لیکن متوسط طبقے کے ووٹروں میں وہ اپنی مقبولیت کو ووٹ کی قو ت میں نہ بدل سکے۔ کہتے ہیں کہ ان کی تقاریر، ادائیگی اور نعروں کو بڑی با ریک بینی اور سو چ و بچا ر کے بعد منتخب کیا گیا تھا۔ دیہی پنجاب اور نوجوانوں کے لیے عمر ان خا ن میں ''مولا جٹ'' کا ہیولا تخلیق کرنے کے لیے عامیانہ انداز میں ''اوئے نواز شریف''کی بڑ ھک لگوائی گئی جسے تحر یک انصاف کے حامی سنجیدہ فکر ووٹر بالکل ہضم نہ کر سکے۔
اسلام آباد کے نما یا ں صنعت کار خا لد جاوید بڑے بھلے ما نس ہیں، بتا رہے تھے کہ ان کے خاند ان کے 6 ووٹو ں میں سے دو نواز شریف اور 4 ووٹ عمر ان خا ن کو ڈالے گئے، انھوں نے آخر ی لمحا ت میں نواز شر یف کے امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ عمر ان خان کی زبا ن سے 'اوئے نوازشریف' کا طر ز تخاطب انھیں پسند نہیں آیا۔ ان کا خیا ل تھا کہ تحریک انصاف کی انتخابی مہم صرف 'Cosmopolitan Cities' یعنی بڑے شہروں کو مدنظر رکھ کر تشکیل دی گئی جو ہما رے دیہا ت، قصبات اور ضلعی شہروں پر بہت زیادہ اثر پذیر نہ ہوسکی۔ اس میں راولپنڈی اور میانوالی استثنٰی تھا جب کہ خیبر پختونخوا میں تو سو نا می سب کچھ بہا کر لے گیا۔
آسٹریلیا سے بزنس گریجویٹ بلال مظہر نے استفسار پر بتایا کہ قدامت پسندی کی وجہ سے نواز شریف کو ووٹ دیا کہ حد سے بڑھی آزاد روی مجھے پسند نہیں آئی جب کہ تحریک انصاف کے حامی نوجوان تو ہماری سماجی اقدار سے اجنبی روشن خیالی کا شو کیس بنے ہوئے تھے۔
خیبر پختونخوا میں تحر یک انصاف کی مجوزہ حکو مت کو مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مثبت مسابقت قرار دیا جا رہا ہے۔ امتحان یہ ہے کہ عمران خان کے نامزد وزیر اعلیٰ آزمودہ کار پرویز خٹک اپنے اتحادیوں کی مدد سے 'خیبر پی کے' کو ''ماڈل صوبہ'' بنا سکیں گے؟؟
برادرم سراج الحق کی صلاحیت اور قوت کارپر اعتراضا ت اٹھا ئے جا رہے ہیں۔ ان کے خلوص اور دیانت کی خوبیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے بتایا جارہا ہے کہ ان کی 'سینئر وزارت' کے دور میں ان کے شریک کار حضرات نے رشوت کے ریٹ آسمان پر پہنچا دیے تھے اور برادرم سر اج الحق سادگی کی چادر اوڑھ کر موسم سرما کے یخ بستہ دنوں میں پبلک پارکو ں میں استراحت فرما تے رہے۔ تا ریخ ایک بار پھر خود کو دہر ا رہی ہے لیکن اب کی با ر کٹہرے میں جنا ب عمران خا ن ہوں گے، پا نچ سال بعد نہیں بلکہ شاید چند ما ہ بعد ہی ان کا احتساب شروع ہو جائے گا۔
حرف آخر یہ کہ ایک ستم ظریف قاری نے تحریک انصاف کے انٹرنیٹ مجاہدین کے شدید رد عمل پر اس کالم نگار کی خامہ فرسائی کے جواب میں ایک 'وڈیو کلپ' بھجوایا ہے جس میں تحریک انصاف کی چند خواتین اسٹیج پر تشریف فرما ایک بڑے رہنما کی تواضع گندے انڈوں سے نشانہ بنا کر کر رہی ہیں۔ اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس وڈیو کو گونگا کر دیا گیا، ورنہ نجانے کیسی کیسی زبان سننے کو ملتی۔