ان ہی کے دم سے رونق…
ہم جس زمانے میں سانس لینے پر مجبور ہیں، وہ دور فرعونیت سے کم نہیں، خود غرضی، مفاد پرستی اور ہوس زر۔۔
ہم جس زمانے میں سانس لینے پر مجبور ہیں، وہ دور فرعونیت سے کم نہیں، خود غرضی، مفاد پرستی اور ہوس زر نے انسانیت کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ انسانیت ایک جانب کونے میں منہ چھپائے روتی ہے اور شیطان قہقہے لگاتا ہے، فرعون نے اپنے دور حکومت میں تمام پیدا ہونے والے لڑکوں کو قتل کرنے کا فرمان جاری کر دیا تھا، محض نجومی کے اس انکشاف پر کہ مصر میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو فرعون کی حکومت اور شان و شوکت کو ختم کردے گا۔ لہٰذا اپنی تباہی کے خوف سے اس نے لڑکیوں کو زندہ رکھا اور لڑکوں کو ذبح کرنے کا حکم دے دیا اور اﷲ کی قدرت دیکھیے کہ جس نبی نے فرعون کی حکومت کا تختہ پلٹا، ان کی پرورش فرعون کے محل میں ہوتی ہے، یہ سطور لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اﷲ جب چاہتا ہے وہ کام انجام کو پہنچ جاتے ہیں اور فرعون و نمرود کے لائو لشکر تباہ ہو جاتے ہیں۔
آج کا دور بھی بڑا ہی عبرت ناک ہے، ایسے ایسے کام انجام دیے جا رہے ہیں جن کا سن کر ہر صاحب دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے، انسان اور انسانیت کے قتل کا عزم ہر طاقت ور کی ذمے داری بن گیا ہے اور اسلحہ کی نمائش کرنے والے ببانگ دہل میدان کار زار میں کود پڑے ہیں اور قابل قدر و قابل احترام لوگوں کا خون سڑکوں پر بہہ رہا ہے، قاتلوں کو کھلی چھٹی ہے۔
کسی بھی قوم کی عزت و وقار اور ان کا اثاثہ اساتذہ ہوتے ہیں، ان کی دی ہوئی تعلیم و تربیت سے وہ قومیں وجود میں آتی ہیں جو پوری دنیا میں بہادری، متانت اور علم کی بدولت اپنی علیحدہ شناخت رکھتی ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے اساتذہ کی عزت اور ان کی قدر دانی کو اپنے اشعار میں سمو دیا ہے۔ ان کی جدائی کا شدت سے احساس اور ان کا دیا تعلیم کا وجدان ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ انھوں نے اپنے استاد شمس العلماء سید میر حسن سے اپنی منظوم تخلیق ''التجائے مسافر'' میں عقیدت کا اس طرح اظہار کیا ہے:
وہ شمع بارگہہ خاندان مرتضوی
رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو
نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
اور جب ڈاکٹر آرنلڈ انگلستان چلے گئے تو ان کے لائق فائق شاگرد نے ''نالہ فراق'' لکھی:
تو کہاں ہے اے کلیم ذرۂ سینائے علم
تھی تری موج نفس باد نشاط افزائے علم
اب کہاں وہ شوق رہ پیمائی صحرائے علم
ترے دم سے تھا ہمارے سر میں سودائے علم
موجودہ و سابقہ ادوار میں اساتذہ کی عزت و حرمت کا جنازہ سر بازار نکالا گیا ہے، انھیں اغوا کیا جاتا ہے، پھر جان سے مار دیا جاتا ہے، کالج کے پرنسپل، پروفیسر، مالکان اور فلاحی کام کرنے والوں کو قتل کرنا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ پروفیسر زہرہ شاہد حسین کو بیدردی سے قتل کیا گیا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ممتاز ماہر تعلیم تھیں۔ جس ملک میں اتنی اہم اور قابل قدر شخصیات کو بڑی آسانی کے ساتھ قتل کر دیا جائے، ڈاکٹر و انجینئر کو اغوا برائے تاوان کے لیے قید اور پھر اذیت ناک موت کا تحفہ ان کے اہل خاندان کی خدمت میں پیش کر دیا جائے، یہ بڑے ہی دکھ کا مقام ہے اور سفاکی کی اس واقعے سے پوری دنیا واقف ہو چکی ہے۔
دو ماہ قبل پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو بڑی ہی بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ تاریخ قتل 13 مارچ تھی اور اب 13 مئی کو پیر آباد فائرنگ سے اسکول کے ایڈمنسٹریٹر عبدالوحید کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا، مقتول عبدالوحید نونہال سیکنڈری اسکول کے ایڈمنسٹریٹر تھے، اس واقعے میں مقتول کا بھائی نصیب تاج اور مقتول کی ڈھائی سالہ بیٹی عریشہ زخمی ہوئے تھے۔
اس نفسانفسی اور افراتفری کے دور میں بھی ایسے اعلیٰ کردار لوگ موجود ہیں جو دوسروں کی غربت اور غموں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مقتول عبدالواحد کے ''نونہال سیکنڈری'' میں 600 بچے زیر تعلیم ہیں اور حیرت و خوشی کی بات یہ ہے کہ 400 طالب علم مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں، یہ وہ بچے ہیں جن کے والدین ماہانہ فیس دینے سے قاصر تھے، لیکن عبدالواحد اور پروین رحمٰن نے ان میں علم کی شمع جلائے رکھی اور دیے سے دیا جلانے کی رسم کو جاری رکھا، یہ بہت بڑی بات ہے اور نیک عمل ہے، اﷲ اس عمل کو بے حد پسند کرتا ہے، دراصل زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کو لازمی قرار دیا جائے۔ ایسا نہ کرنے سے معاشرے سے نیکی و خیر کی روشنی کم ہوتی چلی جائے گی اور ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا ہو گا اور وہ دن یقیناً قیامت کا ہو گا، لیکن جب تک نیک اور اچھے لوگ زندہ ہیں قیامت نہیں آئے گی اور امید کا دیا جلتا رہے گا۔
طالبان کا مطلب تو علم کا چاہنے والا ہے یا علم کا طلبگار یعنی طالب علم کے ہی معنوں میں لفظ ''طالبان'' آتا ہے، لیکن یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ پہلے افغانستان میں طالبان کا زور تھا، پھر صوبہ بلوچستان میں ان کی داستانیں منظر عام پر آنے لگیں کہ اسکولوں کی عمارات کو مسمار کر دیا، بیوٹی پارلر، حمام اور دوسری عمارتیں بھی ڈھائی جانے لگیں، لوگوں کو کسی نہ کسی وجہ سے قتل بھی کیا گیا اور اب پاکستان میں بھی اسکولوں کو نقصان پہنچایا جانے لگا ہے۔ لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے، یقین نہیں آتا کہ یہ کام کوئی مسلمان کر سکتا ہے؟ لیکن یقین کرنا پڑے گا کہ موت کا کھیل مسلمان ہی کھیل رہے ہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ طالبان کی آڑ لے کر یا ان کا لبادہ اوڑھ کر یہ تخریبی سرگرمیاں غیر ملکی قوتیں انجام دے رہی ہوں، اگر اصلی طالبان یہ کام کر رہے ہیں تو حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ ان سے مکالمہ کرے کہ وہ ایسا کرنے پر کیوں مجبور ہوئے ہیں اور سیاسی ورکرز بھی قتل کیے جا رہے ہیں، اس عمل کو بھی روکنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اسلامی نظریے کے تحت وجود میں آیا تھا تو پھر حکومتی ارکان ہوں یا طالبان قرآن سے مدد لیں اور قرآن کی تعلیم کو عام کریں، قرآنی تعلیمات سے جب دوسری قومیں اور دوسرے مذاہب کے لوگ چپکے چپکے استفادہ کر سکتے ہیں تو مسلمان قوم ڈنکے کی چوٹ پر اﷲ کے احکام کو کیوں نہیں مان سکتی ہے، مغربی اقوام یہی تو کر رہی ہیں۔ بے شمار این جی اوز، فلاحی ادارے اور لاوارث بچوں کا گود لینا، انھیں تعلیم و تربیت فراہم کرنا، لباس و غذا کا خیال رکھنا ان لوگوں کا اولین فرض ہوتا ہے، اس ہی لیے لوگ مغربی معاشرے کی برائی کو نظر انداز کر کے ان کے گن گاتے ہیں، یہ ''حی علی الفلاح'' پر ہی عمل پیرا ہیں۔
ہمارے ملک میں بھی عبدالستار ایدھی، سیلانی، چھیپا اور انصار برنی اس کے علاوہ بھی بہت سارے لوگ مثبت سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، انھی کے دم سے رونق ہے اس جہاں میں اور شاید تبدیلی حکومت کے بعد ہمارے حکمران اپنی عوام کے لیے کچھ اچھے کام کریں۔