تمہارا بچہ خطرے میں ہے
خوشخبری سننے کے بعد سب کو یہ تجسس ہوتا ہے کہ آنیوالا بچہ کس رنگ کے کپڑے پہنے گا، گلابی یا نیلے۔
میری پیاری سبرینہ!! میںخوشی کی انتہا کو چھونے لگی جب تم نے بتایا کہ جلد ہی تمہارا بچہ دنیا میں آنیوالا ہے، تمہاری شادی کو اتنے سال ہو چکے تھے اور اب توسب کو تشویش ہو رہی تھی۔ ہمارے ہاں تو شادی کے ایک ماہ کے بعد لوگ '' خوشخبری'' کی بابت پوچھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ خوشخبری سننے کے بعد سب کو یہ تجسس ہوتا ہے کہ آنیوالا بچہ کس رنگ کے کپڑے پہنے گا، گلابی یا نیلے ۔ حالانکہ یہی بچے بڑے ہو کر وہ سارے رنگ پہنتے ہیں جو کبھی صرف لڑکیوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے تھے، مثلا لال گلابی وغیرہ۔ میںنے بھی حالات حاضرہ کے عین مطابق تم سے پوچھا تھاکہ تمہارا مستقبل قریب میں پیداہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی... جواب میں تم نے کہا کہ تمہاری خواہش کے عین مطابق بیٹا ہے۔
'' یہ تو تم نے پرانے زمانے کی بڑی Typical لڑکیوں والی بات کی ہے بیٹا!! '' میں نے اسے سمجھانے کو کہا، '' بیٹیاں کیا اچھی نہیں ہوتیں ؟''
'' بیٹیاں تو بہت اچھی ہوتی ہیں آنٹی ... مگر یہ دنیا بیٹیوں کے لیے اچھی نہیں ہے!! '' تم نے جواب میں لکھا تھا۔
'' دنیا تو وہی ہے... بیٹیوں کے لیے بھی ویسی ہی ہے جیسی بیٹوں کے لیے !!'' میں نے جواباً لکھا تھا۔
'' لیکن آنٹی لڑکوں کی پرورش میں تو صرف عورت کو یہ پریشانی ہوتی ہے نا کہ اسے کوئی بیماری یا تکلیف نہ ہوکیونکہ اولاد کا دکھ والدین برداشت نہیں کر سکتے!'' تم نے جواب دیا، '' بڑے ہوتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ فکر ہوتی ہے نا کہ پڑھائی اچھی نہیں کریں گے... لاپروا ہوتے ہیں، لیکن یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بیٹیوں کے والدین تو بیٹیوں کی وجہ سے زیادہ پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کیونکہ جو خطرات انھیں عمر کے ابتدائی سالوں سے لے کر عمر کے ہر حصے تک لاحق ہوتے ہیں وہ لڑکوں کو نہیں ہوتے!! ''
'' اللہ تعالی سے خیر مانگو پیاری بچی، اللہ تمہیں نیک، صالح، صحت مند اور اعضاء و حواس کی سلامتی والی اولاد عطا فرمائے اور ہمیشہ اس کی حفاظت فرمائے... اولاد کے حوالے سے یہی مانگنا چاہیے! ''
'' جی آنٹی، یہ ساری دعائیں تو کرتی ہوں مگر آپ کچھ اور خطرات کا ذکرکر رہی تھیں؟ '' اس نے سوال کیا ۔
'' تم سمجھتی ہو کہ بچو ںکو صرف یہی دو خطرات ہیں کہ وہ بیمار ہو سکتے ہیں یا ان کے ساتھ زیادتی ہو سکتی ہے؟ ''
'' مسائل تو اور بھی ہوں گے آنٹی جن کے ساتھ وقت گزرتے خود ہی بچہ ڈیل کرنا سیکھ جاتا ہے، مگر ان کی پرورش کے ابتدائی سالوں میں تو ایسے ہی خطرات ہیں جن سے مجھے ڈر لگتا ہے، اب بھی سوچتی ہوں کہ ہم اس فکر کے بغیر کتنے اچھے تھے! ''
'' ہاں ... تم تو خوفزدہ ہو نا ان سب چیزوں سے جو تمہارے مستقبل قریب میں پیدا ہونے والے بچے کے لیے ممکنہ خطرات ہیں، کیا کبھی کسی ماں بننے والی عورت نے یہ سوچا کہ اس کا دنیا میں آنے والا بچہ دوسروں کے لیے خطرہ ثابت نہ ہو؟ ''
'' ہائیں آنٹی، میرا معصوم بچہ دنیا کے لیے کیسے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے؟ '' اسے میرے الفاظ سے کتنی شدید ٹھیس پہنچی تھی، اس کا فوری رد عمل اس کا غماز تھا۔
'' معصوم بچہ ہمیشہ معصوم ہی تو نہیں رہتا نا بیٹا... یہ دنیا اس طرح زیادہ خطرے والی جگہ ہے کہ تمہارا بچہ اس دنیا کی برائیوں کی دلدل میں دھنس جائے، ہر وہ چیز جوغلط، حرام اور ناجائز ہو، وہ انسان کوپر کشش لگتی ہے۔ اچھائی کا راستہ کٹھن، پرخار اور مشکلات سے بھر پور ہے مگر اس کا آخرت میں اجر زیادہ ہے اور اس کا عوضانہ کم از کم جنت ہے انشااللہ!! مگر برائی کرنا اور اس کی طرف مائل ہو جانا آسان ہے، اسے عام طور پر ہم جلد اپناتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ برائی کا انجام برا اور بروں کا ٹھکانہ جہنم ہے !!''
'' اچھائی برائی کا تصور تو معصوم بچے کو نہیں سمجھایا جا سکتا، ظاہر ہے کہ جب وہ عمر کے اس حصے پر پہنچے تو ہی اسے سمجھایا جا سکتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا، برائی سے کیسے بچنا ہے اور اچھا کیسے بننا ہے!! ''
'' ایسا نہیں ہے... ہمارا بچہ دنیا میں بعد میں آتا ہے اور ہم اس کے حوالے سے اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے سارے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، تو ماں بننے والی عورت یہ کیوں نہ سوچے کہ اس کا بچہ اچھائی کے راستے پر چلے؟ ''
'' وہ تو ظاہر ہے کہ کوئی عورت نہیں چاہتی کہ اس کا بچہ براہو... '' وہ فورا بولی۔
جو عورت ماں بننے جا رہی ہوتی ہے اس کی ہر ہر سوچ، ہر ہر عمل کا عکس اس کے بچے میں جھلکتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی ماں اس کے حوالے سے سو خواب بننا شروع کر دیتی ہے ، اسے ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کے... چند سال گزرتے ہیں تو ارد گرد کی ہر لڑکی کو وہ اپنے بیٹے کی دلہن کے طور پر جانچنا شروع کر دیتی ہے اور لڑکپن کی عمر کے بچے کے سر پر سہرا سجانا اس کا اولین خواب بن جاتا ہے۔
''تم یہ سوچو کہ تمہارے آنیوالے بچے کو کون کون سے خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔ اس کی تربیت اور تعلیم کے دوران وہ کس کس طرح کی مشکلات سے دوچار ہو گا، ناکامیوں پرمایوسی اس پر غلبہ پائے گی اور کامیابیاں اسے مغرور کر سکتی ہیں۔ اس کے ہم عصروں میں جو بد عادات ہوں گی ان کی کشش اسے بھی کھینچے گی، تم اسے ارد گرد کے ماحول سے علیحدہ کیونکر کر پاؤ گی؟ اسے اچھا انسان بنانے کے لیے اپنے ارد گرد کی برائیوں کو نظر انداز کرنا کس طرح سکھاؤ گی، برائی کی فوری کشش اور اچھائی کے دوررس ثمرات کے بارے میں کس طرح یقین دلاؤ گی؟ اسے تکبر سے، جھوٹ سے، وعدہ خلافی سے، بہتان تراشی اور غیبت سے، چوری چکاری کے برے ثمرات سے کس طرح محفوظ رکھو گی؟
کس طرح اسے بتاؤ گی کہ عام چہروں کے پیچھے خوبصورت دل اور دماغ اور خوبصورت چہروں کے پیچھے بد کردار لوگ بھی ہو سکتے ہیں۔ کیسے اسے سمجھاؤ گی کہ اللہ تعالی نے جو نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں ان کا بہترین مصرف یہ ہے کہ انھیں ہم عقل کے ساتھ استعمال کریں، انھیں ضائع نہ کریں، انھیں دوسروں کے ساتھ بانٹیں تو وہ اور بھی بڑھتی ہیں... خواہ وہ علم ہو، رزق، خوشیاںاور وسائل۔ دوسروں کی عزت اور ان کی جان کا تحفظ کرنا سکھانا۔ اللہ کے حقوق ادا کرنا ہم پر فرض ہے اور انسانوں کے حقوق کی ادائیگی ہمارے بہترین انسان ہونے کی علامت۔ اس بات سے ڈرو کہ بچے کو اچھا انسان بنانے کے لیے اس کی پیدائش کے ساتھ ہی کس طرح تمہیں اپنی محنت شروع کرنا ہے اور اس کی پیدائش سے پہلے یہ سب تم سوچو گی تو ان سوچوں کا عکس شروع سے ہی اس کے دماغ پر ہو گا، اس بات کو سائنس بھی ثابت کر چکی ہے... ''
'' لیکن جو بچے برائی کی طرف راغب ہوتے ہیں کیا ان کی مائیں ان کے لیے اچھا نہیں سوچتیں؟ '' اس نے میری توقع کے عین مطابق سوال کیا تھا۔
'' ماں کی سوچ، اس کی پیدائش سے پہلے کام کرتی ہے اور اس کے بعد ماں کی تربیت ہے جو اس کے ماحول میںموجود برائیوںکے خلاف جہاد کرتی ہے... صرف بچے کو پیدا کر کے اس کی بنیادی ضروریات کو پورا کر کے اس کے حوالے سے خواب بن لینے سے جنت پیروں کے نیچے نہیں آ جاتی، اس کے لیے بڑے کشٹ کرنا پڑتے ہیں، خود کو اس کا اہل ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اس جنت کو قدموں تلے لے کر چل سکتی ہیں کہ نہیں؟ تم ڈرو مت... تم دنیا کو ایک اچھا انسان دے دو تو جنت یقینا تمہارے قدموں تلے ہے۔ اپنے بچے کو دنیا کے لیے خطرہ نہ بننے دو تو تم وہ ماں کہلانے کی حقدار ہو کہ جو کئی اچھی نسلوں کی امین ہوتی ہے!! '' میں نے اسے تسلی دینے کو کہا۔
آج کے دور میں مائیں بننے والی عورتیں سمجھتی ہیں کہ بچوں کی پرورش کے حوالے سے زیادہ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن وہ اپنی فالتو مصروفیت کو اپنی اولاد کی پرورش کی خاطر قربان کرنا سیکھ لیں تو ہی وہ اچھی مائیں بن سکتی ہیں۔