1936 کے ماہنامہ ساقی کا جاپان نمبر
اپنے مضامین کے علاوہ آپ نے جاپانی پروفیسروں اور جاپانی طلبا سے بھی مضامین حاصل کرکے بھیجے۔
جاپان ابھرتے سورج کی سرزمین ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو صدیوں سے ایک خوشحال اور مہذب ملک کے طور پر قائم و دائم ہے۔ اس ملک اور اس کے باشندوں کو قدرت نے ایسی بیش بہا خوبیوں سے نوازا ہے جو دنیا کے کم ہی ملکوں کو میسر ہیں۔ یہ ملک اپنی زرعی، صنعتی، معاشی اور حربی طاقت کی بدولت ایک زمانے سے دنیا پر چھایا ہوا ہے۔
دنیا کی تمام ہی قومیں جاپانی قوم کی خوشحالی اور خوش مزاجی سے مستفیض ہوتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ ماضی میں ہندوستان وہ ملک تھا جو جاپان اور جاپانیوں سے بے حد متاثر تھا۔ جاپانیوں کی ترقی کے ویسے تو پوری دنیا میں چرچے تھے مگر ہندوستانیوں نے براہ راست اس ملک سے فائدہ اٹھایا۔ جاپانیوں کی تعلیم اور ادبی شعبے میں ترقی نے بھی ہندوستانیوں کو بے حد متاثر کیا تھا۔ اسی لیے ہندوستانی طالب علموں کی خاصی تعداد وہاں اعلیٰ تعلیم سے مستفید ہو رہی تھی۔ جاپان میں آج سے سو سال پہلے اردو متعارف ہوچکی تھی۔
وہاں کی ٹوکیو یونیورسٹی میں باقاعدہ شعبہ ہندوستانی قائم ہوچکا تھا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اردو زبان سے جاپانیوں کی محبت بہت پرانی ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں برصغیر کے معروف ادبی رسالے ''ساقی'' کے جاپان نمبر سے بخوبی مل جاتا ہے۔ ساقی برصغیر کا ایک مقبول، معیاری اور تحقیقی مضامین شایع کرنے والا منفرد ماہنامہ تھا۔ یہ اردو ادب کی خدمت کے حوالے سے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
حال ہی میں پاکستان جاپان لٹریچر فورم کی جانب سے پرانے جاپان سے پاکستانیوں کو روشناس کرانے کے سلسلے میں ایک بے مثال کارنامہ انجام دیا گیا ہے۔ یہ کارنامہ ماہنامہ ساقی دہلی کے 1936 کے سال نامے کی دوبارہ اشاعت ہے۔ اس کے اجرا میں فورم کے روح رواں خرم سہیل کی کاوشوں کو سراہے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ اس پرانے نایاب رسالے کو تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے جوں کا توں شایع کرا کے اردو ادب کی گراں قدر خدمت انجام دی گئی ہے۔ اس کارنامے کو اردو ادب کی خدمت کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
آج سے 82 سال قبل برصغیر کے کسی اردو ماہنامے کا جاپان نمبر شایع کرنا یقیناً اس زمانے میں جاپان کی دنیا میں اہمیت کا عکاس ہے۔ اس سے جاپانیوں کی اپنے ادبی شعبے میں بے مثال ترقی اور خاص طور پر اردو ادب کی ترویج میں ان کی دلچسپی کا بھی بخوبی اظہار ہوتا ہے۔ ماہنامہ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی کو جاپانیوں کی اسی ادب نوازی اور خاص طور پر اردو سے ان کی دلچسپی نے اس قدر متاثر کیا کہ وہ جاپان پر ایک مفصل مضامین پر مبنی ساقی کا جاپان نمبر شایع کرنے کی جانب مائل ہوگئے۔
وہ چاہتے تھے کہ وہ جاپان نمبر کے ذریعے ہندوستانیوں کو جاپان کی دیگر شعبوں میں حیرت انگیز ترقی کے ساتھ ساتھ وہاں ہونے والی اردو ادب کے شعبے میں پیش رفت سے بھی آگاہ کرسکیں۔ یہ بہت بڑا چیلنج تھا مگر اس دشوار کام کو پروفیسر نورالحسن برلاس نے آسان بنادیا تھا، وہ جاپان میں ٹوکیو یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر تھے، وہ اور ان کی اہلیہ مسز برلاس کافی عرصے سے ٹوکیو میں مقیم تھے۔ انھوں نے وہاں اردو کو جاپانیوں میں مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے اور ان کی بیگم نے کئی مضامین لکھے۔ وہاں مقیم ہندوستانی اہل قلم اور جاپانی اردو دانوں سے بھی لکھوائے۔ یہ تمام مضامین برلاس صاحب نے شاہد دہلوی کو ہندوستان ارسال کردیے تھے۔
ادھر شاہد دہلوی نے بھی کئی مضامین لکھے اور کچھ ہندوستانی ادیبوں دانشوروں سے بھی لکھوائے گئے۔ اس سلسلے میں شاہد دہلوی اپنے دیباچے میں یوں رقم طراز ہیں ''پروفیسر برلاس نے جتنے مضامین جاپان سے بھیجے ان کے مطالعے سے ہماری معلومات میں اس قدر اضافہ ہوتا ہے کہ ہم دنگ رہ جاتے ہیں۔ بعض باتوں کا تو یقین بھی مشکل ہی سے آتا ہے مثلاً توکیواساہی کا ذکر۔ پروفیسر برلاس نے جاپان کے کئی پہلوؤں پر اپنے مضامین میں روشنی ڈالی ہے اور ہر بات کو نہایت خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔
اپنے مضامین کے علاوہ آپ نے جاپانی پروفیسروں اور جاپانی طلبا سے بھی مضامین حاصل کرکے بھیجے اور ایک دشوار ترین امر یہ تھا کہ اہل جاپان کسی اردو رسالے کے لیے کچھ لکھ کر دیں۔ پھر ان ہندوستانی خواتین و حضرات سے بھی مضامین لکھوائے جو جاپان میں مقیم ہیں۔ اس لیے جاپان کے متعلق جتنی معلومات ان مضامین میں موجود ہیں وہ نہایت صحیح اور معتبر ہیں اور اس سے بہتر ملنی ناممکن ہیں''۔
شاہد دہلوی نے جاپان نمبر کی تیاری کے سلسلے میں ہندوستانی ادیبوں سے بھی رجوع کیا تھا کہ وہ جاپان سے متعلق مضامین لکھ کر دیں، مگر اس ضمن میں انھیں بہت مشکل حالات سے گزرنا پڑا تھا، وہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں ''ہندوستان کے ادیبوں کو 'جاپان نمبر' کے سلسلے میں جو خطوط لکھتا ہوں تو کوئی مضمون لکھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا، سب یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ جاپان کے متعلق ہمیں کچھ بھی معلومات نہیں اور کتابیں بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔ مجبوراً چند آپس ہی کے لوگوں سے اصرار کیا اور ان سے کچھ نہ کچھ زبردستی لکھوایا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس طرح چند نہایت عمدہ مضامین فراہم ہوگئے۔'' اسی جاپان نمبر میں ایک مشہور انگریز ادیب مسٹر لیفیکیڈ یوہرن کا ایک مضمون بھی شامل کیا گیا ہے۔
مسٹر لیفیکیڈ انگریزی زبان کے پروفیسر تھے، وہ جاپان پہنچے اور اس ملک کی معاشرت، فلسفہ و حکمت، مذہب، زبان، شاعری اور مصوری کا ایسی غائر نظر سے مطالعہ کیا کہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انھیں جاپان کی کچھ ایسی ادا بھائی کہ ہمیشہ کے لیے جاپان کے ہی ہو رہے۔ اپنی انگریزی وطنیت ترک کردی اور باقاعدہ جاپانی شہریت اختیار کرلی۔ ان کے مضمون کا ترجمہ بعنوان ''تاثرات کی ایک جھلک'' سالنامے میں شامل کیا گیا ہے۔ اس میں 82 برس قبل کے جاپان کی مکمل تصویر کشی کی گئی ہے۔ ذیل میں ہم اس سے اقتباس پیش کر رہے ہیں۔
''تقریباً ہر چیز جس کا انگلستان یا امریکا میں رواج ہے، یہاں پائی جاتی ہے۔ گرجا کے کلس، فیکٹریوں کی چمنیاں، تار کے کھمبے، بازاروں کے برقی قمقمے ہر طرف نظر آتے ہیں، درآمد کردہ اینٹوں اور آہنی دروازوں سے بنے ہوئے تجارتی گودام، دکانوں کے آگے قد آدم موٹے موٹے شیشوں کے دروازوں والی کھڑکیاں، پیدل چلنے والوں کے لیے پیڑھیاں اور آہنی جنگلے جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔
روزانہ اور ہفتہ وار اخبارات بھی ہیں۔ کلب، ریڈنگ روم، بلیئرڈ ہال، شراب کی دکانیں، مدرسے اور گرجے بھی موجود ہیں۔ برقی طاقت مہیا کرنے والی اور ٹیلی فون کی کمپنیاں بھی ہیں۔ اسپتال، عدالتیں، قید خانے اور غیر ملکی پولیس بھی موجود ہے۔ غیر ملکی وکیل، ڈاکٹر، دوا فروش، غیر ملکی پنساری، حلوائی، نانبائی، دودھ مکھن پنیر بیچنے والے، غیر ملکی درزی اور بزاز وغیرہ، ملکی اسکول ماسٹر اور موسیقی سکھانے والے بھی ہیں۔ ایک ٹاؤن ہال بھی ہے جہاں میونسپلٹی کا کاروبار ہوتا ہے اور مجالس عامہ منعقد ہوتی ہیں۔ غیر پیشہ ور لوگ شوقیہ ڈرامے کھیلتے ہیں۔
لیکچر ہوتے ہیں، ناچ گانے کے جلسے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی کوئی تھیٹریکل کمپنی دنیا کا سفر کرتی ہوئی یہاں آتی ہے اور اپنا کھیل دکھا کر مردوں کو ہنساتی اور عورتوں کو رلاتی ہے۔ جیسا کہ وطن میں دستور ہے۔ یہاں کرکٹ کے میدان، گھڑ دوڑ کے میدان، پبلک پارک، کشتی رانی کی انجمنیں، ورزش کی سوسائٹیاں اور تیرنے کے حوض بھی ہیں۔ گوش آشنا آوازوں میں پیانو پر مشق کرنے کی جھنکار اور بینڈ کا شور و غل بہت عام ہے۔ آبادی میں انگریز، امریکن، فرانسیسی، جرمن، روسی اور اہل ڈنمارک، سوئیڈن اور سوئٹزر لینڈ شامل ہیں، کچھ تھوڑے اطالوی بھی اور لیجیے میں چینیوں کو تو بھول ہی گیا جن کی یہاں کثیر تعداد موجود ہے۔''
حقیقت یہ ہے کہ ساقی کے اس نادر سالنامے کے دوبارہ اجرا نے اردو کے قارئین کو پرانے جاپان سے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی اشاعت پر قونصل جنرل آف پاکستان کراچی مسٹر توشی کازوایسو مورا مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انھوں نے اس کارنامے کے ذریعے اردو کی خدمت کرکے پاکستانیوں کی ہمت افزائی کی ہے۔ امید ہے کہ قارئین اس سالنامے کو اردو کی نادر دستاویز کا درجہ دیتے ہوئے اس کا جوق در جوق اور ذوق و شوق سے مطالعہ کریں گے۔