عید قرباں چند اہم باتیں
عید قرباں ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے ایسے رشتہ داروں سے ضرور ملیں جو ہم سے کسی بات پر ناراض ہیں۔
قربانی ایک اہم مذہبی فریضہ ہے اور تمام دنیا کے مسلمان ہر سال اس کی تیاری جوش و خروش کے ساتھ کرتے ہیں، تاہم اس ضمن میں کچھ ایسے مسائل ہیں جنھیں ذہن میں رکھنا نہایت ضروری ہے، زندگی میں آگے بڑھنے کی دوڑ میں بعض اوقات ہمیں احساس ہی نہیں رہتا کہ ہمارے کسی عمل سے کیسے کیسے مسائل جنم لے لیتے ہیں۔
آج کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے اردگرد لوگوں کا خیال رکھنا بھول جاتے ہیں، ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ خود ہمارا دین اس بارے میں کیا تاکید کرتا ہے۔ آج کے مصروف دور میں ہم اپنے قریبی عزیز و اقارب سے ملاقات کرنے کی بھی فرصت نہیں رکھتے، کچھ تو محض موبائل فون پر ہی سلام دعا کرکے سمجھ لیتے ہیں کہ انھوں نے رشتے داری نبھا دی۔ حال یہ ہوگیا ہے کہ جو مہمان ملنے آرہا ہے، میزبان اس کو بھی پورا وقت نہیںدے پا رہا ہے اور سامنے بیٹھے ہوئے مہمان سے گفتگو کے دوران ہی فون پر کسی غیر موجود سے باتیں کرنے لگتا ہے۔
ایسے میں عید جیسے اہم موقع پر ہمیں اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کا نادر موقع ہوتا ہے، اس کے لیے عید سے قبل ہی منصوبہ بندی کرلینی چاہیے کہ ان چھٹیوں کے دوران کس کس عزیز و رشتہ دار کے ہاں جانا ہے۔ یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ ہم اپنے کس قریبی بہن بھائی اور دیگر رشتہ داروں سے بہت دنوں سے نہیں ملے۔ عید قرباں ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے ایسے رشتہ داروں سے ضرور ملیں جو ہم سے کسی بات پر ناراض ہیں یا جو ہم سے معیار زندگی میں کمتر ہیں، ان سے ملیں اور قربانی کے جانور کا گوشت انھیں پہنچائیں۔
آج کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل میں لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور ملنا ملانا بھی چھوڑ دیتے ہیں، عید پر گوشت بھی رسمی طور پر کسی کے ہاتھ بھجوا دیتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں، عید قرباں تو ہمیں موقع فراہم کر رہی ہے کہ ہم اپنے ان عزیز و اقارب سے دوبارہ اچھے تعلقات قائم کریں جو کسی وجہ سے ناراض ہوگئے ہیں، اگر ہم خود کسی ناراض بھائی بہن وغیرہ کے پاس قربانی کا گوشت دینے کے بہانے ہی کچھ دیر کے لیے چلے جائیں تو ہماری عزت کم نہیں ہوگی۔
اللہ نے شاید ایسے دن مخصوص ہی اس لیے کیے ہیں کہ ہم آسانی سے اپنے گلے شکوے دور کرسکیں۔ پھر ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس طرح آپس میں ملنے سے دلوں کا میل دور ہوتا رہتا ہے اور ایک دوسرے کے حالات سے بھی آگاہی ہوتی رہتی ہے۔
قربانی کے جانور کے گوشت کی تقسیم ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے، ہمارے ایک دوست کسی سماجی تنظیم کو قربانی کے ایک جانور کی رقم دے دیتے ہیں اور وہی سماجی تنظیم گوشت کی تقسیم بھی کردیتی ہے۔ بظاہر یہ ایک نیک اور اچھا عمل لگتا ہے مگر اس سے کہیں زیادہ اچھا عمل یہ ہے کہ آپ قربانی کے جانور کا گوشت تقسیم کرنے کے لیے خود سے کھوج لگائیں کہ آپ کے کن کن قریبی رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں اور احباب میں ایسے لوگ ہیں جن کے ہاں مشکل سے مہینے میں ایک آدھ بار ہی گوشت پکتا ہے۔
یہ معلوم کرنا کوئی مشکل بات بھی نہیں، اپنے اردگرد اور تعلقات والے لوگوں میں اور عزیزوں میں نظر دوڑائیں کہ کس کے گھر کی انکم کتنی ہے؟ یعنی کسی گھرانے میں کمانے والے کتنے ہیں اور ان کی کل ماہانہ آمدنی کتنی ہے اور ان کے اخراجات اندازاً کتنے ہوں گے۔ مثلاً کسی گھر میں کمانے والا صرف ایک ہے، اس کی ماہانہ آمدنی چالیس ہزار ہے اور وہ چار بچوں کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی آدھی سے زائد آمدنی تو گھر کے کرائے اور بچوںکی تعلیم پر ہی خرچ ہوجاتی ہوگی اور گھر کا چولہا بمشکل ہی چلتا ہوگا۔
اس قسم کے گھرانوں کو تلاش کیا جائے اور انھیں قربانی کا گوشت ضرور دیا جائے۔ جب ہم اس نقطہ نظر سے تلاش کریں گے تو معلوم ہوگا کہ خود ہمارے جاننے والوں اور رشتہ داروں میں بھی ایسے ہی بہت سے گھرانے شامل ہیں۔ عموماً لوگ گوشت مانگنے والوں میں تقسیم کرکے خوش ہوجاتے ہیں کہ کوئی مستحق خود ہی چل کر آگیا اور ان کا گھر بیٹھے ہی مسئلہ حل ہوگیا۔
کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ مانگنے والوں کی بھاری تعداد محض پیشہ ور گداگروں کی ہوتی ہے جن کے پاس کھانے پینے کی کوئی کمی نہیں ہوتی، جب کہ سفید پوش لوگ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ گوشت تقسیم کرنے کے لیے ہم دو تین کمرے کے کرائے کے مکان میں رہنے والوں کا انتخاب بھی کرسکتے ہیں کہ جن کی ہر ماہ ہی آدھی تنخواہ کرائے کی نذر ہوجاتی ہے۔
ایسا ہی ایک عمل قربانی کے جانوروں کی کھال کسی کو دینے کے لیے دیکھنے میں آتا ہے۔ یقیناً یہ بات درست ہے کہ آپ جس جماعت یا ادارے کو کھال دے رہے ہیں اس پر آپ کو اعتماد ہے اور اس کی رقم بھی درست جگہ ہی استعمال ہوگی، لیکن کھال کی یہی رقم اگر براہ رست اور فوراً ہی کسی مستحق تک پہنچ جائے تو کیا یہ زیادہ بہتر نہیں ہوگا؟
ہمارے ایک قریبی دوست یہی عمل ہر سال کرتے ہیں، یعنی وہ کھال کو فروخت کرکے کسی مستحق فرد کو دے دیتے ہیں اور مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ان کے جانور کی کھال اور گوشت بھی بالکل صحیح مستحق اور حقدار کو بروقت پہنچ گیا۔ ہمارے ان دوست کا کہنا ہے کہ اپنے اس عمل میں انھیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا، کیونکہ جب وہ اپنے چاروں طرف نظر دوڑاتے ہیں تو انھیں اپنے قریبی عزیز و اقارب، دوستوں اور پڑوس و محلے میں ایسے لوگ باآسانی مل جاتے ہیں۔ ہمارے دوست کی بات میں وزن ہے، کیونکہ آج اگر کسی کلرک یا اسکول و مدرسہ کے استاد کو ہی دیکھیں جو کرائے کے گھر میں رہتا ہو، تو ہمیں سخت حیرت ہوگی کہ وہ اپنی تنخواہ کے اعتبار سے اپنے گھر کا ماہانہ خرچہ کیسے چلاتے ہوں گے؟
قربانی کے ضمن میں ایک اور توجہ طلب بات جو راقم ہر سال ہی اس موقع پر قارئین کی توجہ کے لیے لکھتا ہے کہ ہمیں قربانی کے جانور لاکر گھرکے باہر باندھ کر روایتی طریقے سے ضرور قربانی کرنا چاہیے مگر اس عمل میں دو باتوں کا ضرور خیال رکھنا چاہیے، ایک یہ کہ گندگی نہ پھیلے، صفائی پر بھی خرچہ کیا جائے اور ذبیحہ کرنے کے لیے مناسب جگہ کا بندوبست کیا جائے، محض گھر کی دہلیز پر ہی خون نہ بہایا جائے۔
دوسرے یہ کہ جانوروں کو لاکر رکھیں ضرور مگر اس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دیں، مثلاً بہت سے لوگ گلی محلے کے راستے ہی بند کر دیتے ہیں، جس سے آنے اور جانے والوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے۔ بعض لوگ فلیٹوںمیں ہی جانور لاکر عید سے ہفتہ دس دن قبل رکھ لیتے ہیں، حالانکہ فلیٹوں میں پہلے ہی روشنی اور ہوا کا گزر کم ہوتا ہے، اس عمل سے کسی پڑوسی پر کیا گزرتی ہوگی اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔
راقم نے یہاں چند گزارشات عوام کے لیے پیش کی ہیں، جو عوام ہی کے مسائل سے متعلق ہیں اور جن کے بارے میں ہمارا دین بھی واضح ہدایت دیتا ہے۔ آیئے غورکریں، اپنے مسئلے خود حل کریں۔