عالمی حالات میں پاکستان
عالمی سرمایہ داری انحطاط پذیری کی جانب گامزن ہے اس لیے نت نئے مفادات کے لیے تضادات ابھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
عالمی حالات کی روشنی میں ہی پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے، اس لیے کہ پاکستان عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے۔ دنیا بھر میں مزدور طبقے اور پیداواری قوتوں کا تضاد، عالمی سامراج کا نوآبادیات کے ساتھ تضاد اور پھر سامراجی ملکوں کا آپس کا تضاد ناگزیر ہے، اس لیے کہ سب کے مفادات ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے ہی تضادات ابھرتے ہیں۔ چونکہ عالمی سرمایہ داری انحطاط پذیری کی جانب گامزن ہے اس لیے نت نئے مفادات کے لیے تضادات ابھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے قبل کے دور میں اسی قسم کے تضادات ابھرے تھے۔ مثال کے طور پر امریکا جب ایران کا اقتصادی بائیکاٹ کرتا ہے تو یورپ اس کی مخالفت کرتا ہے، اسرائیل اور سعودی عرب حمایت کرتا ہے، جب کہ ایران سب سے زیادہ اپنا تیل سعودی عرب، عراق اور ہندوستان کو برآمد کرتا ہے۔ پھر جب امریکا اسرائیل کا دارالخلافہ بیت المقدس کو تسلیم کرتا ہے تو یورپ اس کی مخالفت کرتا ہے، سامراج نواز حکومتیں ڈنمارک اور کولمبیا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں، قطر اور لبنان امریکی فیصلوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔
کل جو ترکی سامراج کا اتحادی تھا (ہر چند کہ آج بھی استنبول میں نیٹو کا فوجی اڈہ موجود ہے) امریکا اسے اپنا دشمن اور ترکی اس کے خلاف بولتا ہے۔ سعودی عرب اور کینیڈا پرانے اتحادی ہیں، انھوں نے اپنے ملکوں سے سفرا واپس بلا لیے۔ امریکا نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی تربیت کے منصوبے ختم کردیے۔ اس لیے کہ یہ کام اب چینی اور روسی سامراج کے ساتھ کیا جائے گا۔
امریکی نائب صدر نے اعلان کردیا ہے کہ ہمیں روس اور چین سے خطرہ ہے، اس لیے ہم خلائی فوج بنانے جارہے ہیں، جب کہ پاکستان میں پہلے سے موجود ہے۔ یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ دنیا بھر میں امریکا کے 68 بحری بیڑے لنگر انداز ہیں اور خطرہ بھی امریکا کو ہے۔ چین اور امریکا ایک دوسرے کے مالی اتحادی ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے کی درآمدات پر 15 فیصد ڈیوٹی لگادی ہے۔ اسی طرح یورپ اور کینیڈا نے بھی امریکی جواب میں امریکی برآمدات پر بھی ڈیوٹی لگادی ہے۔
ٹھیک اسی طرح پاکستان میں بھی بورژوازی (سرمایہ دار) نواز سیاسی جماعتوں کی حالت ہے، جس کی سرپرستی ریاست کرتی ہے۔ ریاست کے چار بنیادی آلہ کار ہوتے ہیں، اسمبلی، عدلیہ، فوج اور میڈیا۔ اس کی آشرباد سے سیاسی جماعتیں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہیں۔ اس کے بغیر سرمایہ داری کو بچانا ممکن نہیں، اس لیے کہ اس کی آخری سانس اٹکی ہوئی ہے۔ جیسا کہ عمران خان نے زرداری کو کیا کچھ نہیں کہا، اور جب سینیٹ میں اپنی اکثریت کی ضرورت پڑی تو سرپرستوں کی مدد سے وہی پی پی پی اور پی ٹی آئی ایک ہوگئی۔
جس ایم کیو ایم کو پی ٹی آئی نے نہ جانے کیا کیا کہا، آج ان ہی کے ساتھ حکومت بنانے جارہی ہے۔ بلوچستان کی بی این پی، پی ٹی آئی اور بی اے پی ایک ہوگئی۔ کل کے ایم ایل این کے پنجاب کے گورنر آج پی ٹی آئی کے وزیر بننے جارہے ہیں۔ کل کے پی پی پی کے وزیر خارجہ آج کے پی ٹی آئی کے وزیر بننے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے صدر اپنے اعزاز کے لیے اپنی ہی پارٹی کے بیانیہ پر خاموش نظر آتے ہیں۔
ادھر حزب اختلاف کا اتحاد جب اسلام آباد میں لیڈر لیس مظاہرہ (انارکسٹوں کی طرح نہیں بلکہ اختلافات کی وجہ سے) کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب نواز شریف اور مریم ائیرپورٹ پر پہنچتے ہیں تو شہباز شریف غائب ہوتے ہیں اور مظاہرے میں بھی۔ بلاول بھٹو دو قدم بڑھاتے ہیں تو زرداری لگام کھینچ لیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن حلف نہ لینے کی بات کرکے اتحادی بورژوازی کے دبائو میں آکر پھر جاتے ہیں۔ امپائر کی سرپرستی میں کام کرنے والے ٹی ایل اور پی ایس پی کو استعمال کے بعد شکست دلوائی جاتی ہے تو وہ بھی چیخ اٹھتے ہیں۔
ان تمام سرپرستی کے باوجود بڑی مشکل سے حکومت بننے جارہی ہے یا یوں کہہ لیں کہ بننے دی جارہی ہے۔ مستقبل میں ہونے یہ جارہا ہے کہ مستقبل کے وزیر خزانہ اسد عمر تقریباً ڈھائی سو صنعتوں اور اداروں، خاص کر خدمات کے اداروں کی نجکاری کرنے جارہے ہیں، جو اقتدار میں رہنے سے قبل نجکاری کے خلاف اکثر بولا کرتے تھے۔ نواز شریف اور زرداری کے دور حکومت میں اسٹیل مل اور پی آئی اے کی نجکاری کرنے کی کوششوں کے باوجود مزدور طبقہ نے اپنے خون سے نجکاری نہ ہونے دی۔
پی پی پی کے دور میں اسٹیل مل اور پی آئی اے میں ہزاروں مزدوروں کو مستقل کیا گیا۔ اب چونکہ امریکا سے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں، اس لیے آئی ایم ایف کے قرضے بھی سخت شرائط پر ملیں گے، عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگائے جائیں گے۔ متوقع وزیر خزانہ ڈھائی سو سے زیادہ اداروں کی نجکاری کریں گے، اس لیے کہ یہی آئی ایم ایف کا فرمان ہوگا۔ پہلے تو مزدور طبقہ نجکاری کے عمل کو کسی نہ کسی طور پہ جزوی طور پر ہی سہی رکوا لیتا تھا مگر آج ریاست کے چاروں دھڑے نجکاری کے حق میں ہوں گے۔ اس لیے سارے محنت کشوں اور پیداواری قوتوں کو یکجا ہوکر ابھی سے نجکاری کے خلاف لڑائی کی تیاری کرنی ہوگی، ورنہ مزدوروں کے رہے سہے حقوق بھی سلب کرلیے جائیں گے۔
جب بے روزگاری اور مہنگائی بڑھے گی تو مزدوروں کی حقیقی اجرت مزید کم ہوجائے گی۔ ابھی تو حکومت نے کم از کم تنخواہ سولہ ہزار روپے کی ہے، جو کہ نوے فیصد مزدوروں کو ملتی ہی نہیں، نجکاری اور مہنگائی کے باعث ان کی حقیقی تنخواہ چھ ہزار روپے ہو جائے گی۔ حقیقی تنخواہ وہ ہوتی ہے جس سے بازار سے خورونوش کا سامان خریدا جاتا ہیے۔ یعنی کہ عوام ان قرضوں کے سود کی ادائیگی اور مہنگائی کی وجہ سے نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ اس لیے مزدور طبقے کو بلا رنگ و نسل، مذہب، فرقہ اور جماعتی دھڑے بندیوں سے بالاتر ہوکر نجکاری اور مہنگائی کے خلاف سینہ سپر ہونا پڑے گا، اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی آزاد امداد باہمی کے سماج میں ہی ممکن ہے، جہاں ہر ایک ہر وسائل کا مالک ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ سرحدوں، خاندانوں، ملکیت، جائیداد، میڈیا، پولیس، سکہ، ذخیرہ اندوزی سے بالاتر ہوکر پوری دنیا کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔ وہ دن جلد آنے والا ہے جب چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔