1988 الیکشن سے 2018 تک
یہاں تو صرف یہ کلیہ کامیاب ہے کہ اگرمیں جیت گیاتوالیکشن شفاف ہے، اگر خدانخواستہ کوئی دوسراکامیاب ہوگیا،تو دھاندلی ہے۔
ZHOB:
چند دن پہلے قومی اسمبلی میں عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے۔اسی دن سیاسی جماعتوں کے قومی سربراہان نے تندوتیزتقاریرکیں۔چھوٹے میاں صاحب نے الیکشن کو متنازعہ بنانے کی بھرپورکوشش کی۔اس بدقسمت ملک کی تقدیرکاطویل ترین عرصہ مالک رہنے کے باوجود گلے شکوے، الزامات اورتلخ باتوں کے سواکچھ بھی نہیں تھا۔
کمال ہے کہ انھیں یقین ہی نہیں آرہاکہ ووٹ کے ذریعے انھیں شکست ہوئی ہے۔ان کی تقریرنے ذہن میں پرانے الیکشنوں،طریقۂ کاراورمحیرالعقول نتائج کے دریچے کھول دیے۔سفاک ترین حقائق۔کسی بھی قومی رہنما کی تقریرذاتیات سے بالاتر نہیں تھی۔
1988ء کے الیکشن سے شروع کیجیے۔محترمہ بینظیر بھٹوکی پی پی پی نے پچھترلاکھ ووٹ لیے۔محترم نوازشریف کیI.J.Iنے تقریباًساٹھ لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ پیپلز پارٹی کوچورانوے اورمیاں صاحب کے اتحادکوچھپن نشستیں ملیں۔اس الیکشن میں پیپلزپارٹی کے غریب ووٹرکوحق رائے دہی سے محروم رکھنے کے لیے ملک میں پہلی بارووٹ ڈالنے کے لیے ''شناختی کارڈ'' کی شرط رکھی گئی۔
سب کومعلوم تھاکہ پیپلز پارٹی محروم طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔طبقاتی جنگ میں ان مسکین لوگوں کے لیے شناختی کارڈبنواناتقریباًناممکن تھا۔ الیکشن میں شناختی کارڈکی شرط سے پیپلزپارٹی کوایک تہائی سے زیادہ برتری حاصل کرنے سے ٹیکنیکل طریقے سے روک دیاگیا۔صوبائی سطح پرمحترم نوازشریف نے حکومت بنانے کے لیے جوحربے استعمال کیے،وہ اَز حد ادنیٰ اورپست تھے۔
حد تویہ ہے کہ ہیلی کاپٹرسے پرچیاں گرائی گئیں جس میں درج تھا،''جاگ پنجابی جاگ''، ''تیری پگ نوں لگ گیا داغ''۔ بینظیربھٹوکی حکومت کوجنرل اسلم بیگ سے مل کر مفلوج کر دیاگیا۔نوازشریف کی آئی جے آئی نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد تھا۔میاں صاحبان نے تمام جتن کیے اورپیپلزپارٹی کو حکومت کی مدت نہ پوری کرنے دی۔
1990ء کاالیکشن ہرلحاظ سے متنازعہ تھا۔نوازشریف کو عسکری اداروں،خفیہ ایجنسیوں اورسول بیوروکریسی کی بھرپورحمایت حاصل تھی۔کیاکسی کوآج اندازہ ہے کہ پیپلز پارٹی اورI.J.Iمیں کتنے ووٹوں کافرق تھا۔نوازشریف نے مجموعی طورپرصرف79لاکھ ووٹ حاصل کیے اورمحترمہ کے ووٹ تقریباً78لاکھ تھے۔سیٹوں کے فرق کودیکھیے توپیروں تلے زمین نکل جاتی ہے۔
صرف ایک لاکھ کی عددی برتری سے الیکشن کواس طرح Manageکیاگیاکہ محترمہ کے پاس صرف44سیٹیں تھیں اورآئی جے آئی کے پاس ایک سوگیارہ نشستیں تھیں۔کمال دیکھیے کہ صرف ایک لاکھ ووٹ کی کمی بیشی سے مسلم لیگ کوہرطریقے سے جتادیاگیا۔محترمہ نے ہرسطح پرفریادکی۔میاں صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کرپیپلزپارٹی پرانصاف کے تمام دروازے بند کر دیے۔
اصغرخان کی سپریم کورٹ میں درخواست سردخانے میں ڈال دی گئی۔بائیس برس کے بعد 2012ء میں سپریم کورٹ سے 1990ء کے الیکشن کو متنازعہ قراردیا۔غلام اسحق خان،جنرل اسلم بیگ اورآئی ایس آئی کے سربراہ اسددرانی کوالیکشن میں مختلف سیاسی قائدین کوپیسے دینے کے الزامات درست قراردیے گئے۔یہ معاملہ آج تک تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔
1993ء کاالیکشن بھی ایک عجوبہ تھا۔الیکشن سے پہلے، غلام اسحق خان اورنوازشریف کی باہمی لڑائی میں دونوں کو گھر جاناپڑاتھا۔طاقتورریاستی ادارے اب نوازشریف کے مزاج کوسمجھ چکے تھے۔اس الیکشن میں مسلم لیگ نے79لاکھ ووٹ لیے جب کہ پیپلزپارٹی نے پچھترلاکھ ووٹ حاصل کیے۔ زیادہ ووٹ لینے کے باوجودبھی مسلم لیگ کوپیپلزپارٹی سے قومی اسمبلی کی سولہ سیٹیں کم ملیں۔
پیپلزپارٹی89سیٹیں لیکر مرکزمیں اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کرحکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔پنجاب میں1985ء کے بعد،پہلی مرتبہ نوازشریف کے مخالف حکومت بنی۔میاں صاحبان نے دھاندلی،دھونس اورکرپشن کے الزامات دہرا دہرا کر اس حکومت کوتقریباًتین سال کے لگ بھگ مہلت دی۔
آپ حیران ہوںگے کہ الزامات سوفیصدوہی، جوچنددن پہلے محترم شہبازشریف نے عمران خان پرلگائے۔اس الیکشن کو چالیس بین الاقوامی مبصرین نے کافی حدتک شفاف قرار دیا۔1997ء کاالیکشن بے حدمنفردتھا۔اس میں ن لیگ کو بھرپورکامیابی حاصل ہوئی۔ایک سوسے زائد قومی نشستیں بھی ملیں۔مگرکیاجاننا چاہیںگے کہ اس پارٹی کومجموعی طورپرکتنے ووٹ ملے۔صرف اور صرف 87لاکھ۔ پیپلز پارٹی کوتقریباًختم کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی مکمل طور پر ہار گئی۔
محترمہ کوذاتی اذیت پہنچانے کے لیے ان کے خاوندکو پابندسلاسل کردیاگیا۔محترمہ نے انتہائی پُروقارطریقے سے سیاسی شکست تسلیم کرلی۔کسی قسم کے احتجاج سے بھی انکار کردیا۔ یورپین یونین اورکامن ویلتھ کے غیرجانبدارمبصرین نے 1997 کے الیکشن کومکمل طورپردھاندلی زدہ قراردیدیا۔اس کو کسی بھی شفافیت کے معیارسے پست قراردیدیا۔میاں صاحب نے ''ہیوی مینڈیٹ'' کواپنے سیاسی مخالفین کو برباد کرنے کے لیے کھل کراستعمال کیا۔
میاں صاحب کی ایما پر سیاسی قائدین پرہرطرح کاریاستی جبرکاہتھیاراستعمال کیا۔ یہ حکومت کیسے ختم ہوئی۔میاں صاحب نے محنت کرکے ''مارشل لاء'' لگوایا۔ یہ سب کے علم میں ہے۔1997ء کے الیکشن میں میاں صاحبان نے لوگوں کوبھرپورتاثردیاکہ ریاستی ادارے ان کی پشت پرہیں اورنتیجہ بالکل توقع کے مطابق ہی آیا۔ 2002ء کے الیکشن کاذکرکرنابیکارہے۔کیونکہ یہ مارشل لاء کی چھتری تلے منعقدہوئے۔
2008 کاالیکشن بے حدحیرت انگیزتھا۔پیپلزپارٹی کو ایک کروڑسے زیادہ ووٹ ملے اورانھیں119نشستیں حاصل ہوئیں۔پی ایم ایل ق کواسی لاکھ ووٹ ملے۔سیٹیں صرف50مل سکیں۔مسلم لیگ ن کوصرف68لاکھ ووٹ ملے یعنی ق لیگ سے بارہ لاکھ کم مگران کی نشستیں 89تھیں۔ ہرذی شعورکومعلوم تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کس طرف جھکائو رکھتی تھی۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن کو برتری حاصل نہیں تھی۔ مگرحکومت ان کے حوالے کردی گئی۔حدتویہ بھی تھی کہ امریکی سینیٹرجوبائڈن الیکشن سے دودن قبل،چوہدری صاحبان کوملے اورفرمایاکہ اگروہ الیکشن میں جیت گئے تو امریکا نتائج تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ الیکشن مکمل طور پر Manage کیا گیا۔سب سے بڑاصوبہ،مسلم لیگ ن کی جھولی میں ڈال دیاگیا۔
2013ء میں نوازشریف ایک کروڑ،اَڑتالیس لاکھ ووٹ لیکر166سیٹیں حاصل کرسکے۔تحریک انصاف کو 76لاکھ ووٹ ملے۔یہ واحدالیکشن تھاجس کے تناظرمیں چیف الیکشن کمشنر،فخرالدین جی ابراہیم نے استعفیٰ دیدیا۔ ان کا کہناتھاکہ ریٹرننگ افسروں پرکمیشن کاکوئی کنٹرول نہیں تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے2013ء کے الیکشن کی کمزوریوں پراحتجاج کیامگرنوازحکومت نے کوئی بھی الزام ماننے سے انکارکردیا۔نادرانے بھی ووٹوں کی شناخت کرنے کے عمل میں رکاوٹ ڈالی۔انتہائی مشکوک حالات میں نادراکے چیف کونوکری سے نکال دیاگیااوروہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔
الیکشن ٹریبونل کے جج صاحبان نے کئی جگہ پرالیکشن کو انتہائی متنازع اورجانبدارقراردیا۔جس جج یابدقسمت سرکاری اہلکارنے یہ کہنے کی جرات کی کہ یہ الیکشن مکمل طورپرعدلیہ کے مخصوص ریٹرننگ افسران کی مہربانی سے پایہ تکمیل تک پہنچاہے،انھیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ ان کے خاندان بھی ریاستی جبر کا شکار ہوگئے۔ 2013ء کا الیکشن مکمل طورپر آزاد گردانانھیں جاسکتا۔ عمران خان کی چارحلقوں پر دھاندلی کے معاملے کوبھی غیرسنجیدگی سے لیاگیا اور انھیں ترقی کادشمن قرار دیدیا گیا۔
حقائق بیان کرنااس لیے لازم ہے کہ1988ء سے لے کرآج تک کوئی بھی الیکشن ایسانھیں جس میں مسلم لیگ ن ہاری ہواوراس نے شکست تسلیم کرلی ہو۔دوسرانکتہ بے حداہم ہے۔گزشتہ الیکشنوں کی تاریخ کوغورسے دیکھیے۔ن لیگ کسی بھی الیکشن میں اپنے بل بوتے پرکامیاب نہیں ہوئی۔ریاستی اداروں کی بھرپورمددکے بعدیہ جماعت حکومت بنانے کے قابل ہوئی۔
ہمارے ملک میں کیونکہ سویلین ادارے بے حد کمزورہیں لہذافطری طورپرنہ چاہتے ہوئے بھی ماضی میں ریاستی ادارے الیکشن پراثراندازہوئے ہیں۔ مگر2018ء کاالیکشن ابھی چندہفتے پہلے ختم ہوا ہے۔ تحریک انصاف نے اس الیکشن میں ایک کروڑسترلاکھ کے قریب ووٹ حاصل کیے ہیں۔مسلم لیگ ن چالیس لاکھ ووٹوں سے اس پارٹی سے پیچھے ہے۔پیپلزپارٹی صرف 70لاکھ ووٹ حاصل کرسکی۔اس کے نتیجہ میں اقتدارمکمل طورپرتحریک انصاف کومنتقل ہوچکاہے۔
محترم شہبازشریف کی تقریرسب لوگوں نے سنی ہے۔ انھوں نے توالیکشن کے مکمل نتائج آنے سے پہلے ہی دھاندلی کااعلان کردیاتھا۔اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے الیکشن کمیشن کوموردالزام ٹھہرادیا۔قومی اسمبلی میں تقریراسی پریس کانفرنس کادوسرادورانیہ تھا۔مگریہاں غیرمتعصب طریقے سے سوال اُٹھانے کی ضرورت ہے۔کون ساایساالیکشن ہے جس میں ناکام فریق نے اعلیٰ ظرفی کامظاہرہ کیا ہو۔ دھاندلی کاشورتو1988ء کے الیکشن سے لیکرآج تک ہر الیکشن میں مرکزی نکتہ رہاہے۔
مسلم لیگ ن کے تمام قائدین سابقہ روش پرقائم رہیں گے۔کم ازکم ماضی کاتجزیہ تویہی کہتا ہے۔ملک کی ترقی کے لیے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کے لیے کوئی فریق بھی تیارنہیں۔کوئی بھی اپنے سیاسی مخالف کو حکومت کرنے کاحق دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں تو ایک لاکھ ووٹ کی برتری کوبھی بھرپور کامیابی قرار دیا گیا۔ چالیس لاکھ ووٹوں کی شکست کوکون تسلیم کریگا۔یہاں تو صرف یہ کلیہ کامیاب ہے کہ اگرمیں جیت گیاتوالیکشن شفاف ہے، اگر خدانخواستہ کوئی دوسراکامیاب ہوگیا،تو دھاندلی ہے۔ان رویوں کوکوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔